اُڑنے کا شوق، بلوچستان کے مکینک نے موٹر گلائیڈر بنا لیا
اُڑنے کا شوق، بلوچستان کے مکینک نے موٹر گلائیڈر بنا لیا
جمعہ 1 نومبر 2024 5:49
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
بلوچستان کے ضلع پشین کے نواحی علاقے بوستان کلی قاسم کے رہائشی موٹرمکینک محمد اشرف بازئی نے کامیابی سے موٹر گلائیڈر بنا لیا ہے۔
وہ صرف تین جماعتیں پاس ہیں اور انہوں نے یہ کارنامہ تین سال کی مسلسل محنت کے بعد انجام دیا ہے۔
28 سالہ مکینک محمد اشرف نے گذشتہ روز بوستان میں اپنے گھر کے قریب موٹر گلائیڈر کی پہلی بار کامیاب آزمائشی پرواز کی تو پورے گاؤں نے ان کے ساتھ مل کر جشن منایا۔
محمد اشرف بازئی نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے بچپن ہی سے آسمان میں اڑنے کا شوق تھا اور میں اپنی محنت اور قابلیت کے بل بوتے پر اس خواب کو تعبیر دینے میں کامیاب رہا ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مسلسل ناکام کوششوں کے بعد موٹر گلائیڈر کو پہلی بار فضا میں اڑایا تو ڈر اور خوشی کے ملے جلے احساسات تھے۔ نیچے اترنے سے پہلے میں کافی خوف زدہ تھا لیکن جب فضا میں چکر لگانے کے بعد کامیابی سے لینڈنگ کی تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے یہ موٹر گلائیڈر بغیر کسی تعلیم اور تربیت کے یوٹیوب، فیس بک اور دیگر انٹرنیٹ پلیٹ فارمز پر ویڈیوز دیکھ کر گاڑی کے انجن اور مقامی طور پر دستیاب اشیا کو اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال کر بنایا ہے۔
محمد اشرف کے مطابق موٹر گلائیڈر میں انہوں نے سوزوکی کلٹس کار کا ایک ہزار سی سی کا انجن اور سکوٹی کے پہیے لگائے جب کہ گیئر باکس، فریم، پنکھے اور باقی پرزے خود اپنے ہاتھ سے بنائے۔ پیٹرول کی ٹینکی بھی اے سی سلنڈر کو موڈی فائی کرکے بنائی۔
انہوں نے کہا کہ ’طیارے کو بنانے میں مجموعی طور پر پندرہ سے سولہ لاکھ روپے کے اخراجات آئے۔ اس کا وزن دو سو کلوگرام سے زیادہ ہے اور اس میں پائلٹ سمیت دو لوگ سفر کر سکتے ہیں۔ ہوا سازگار ہو تو یہ باآسانی کئی ہزار فٹ کی بلندی تک جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ موٹر گلائیڈر کو بنانے میں انہیں کافی محنت کرنا پڑی۔ کئی بار انجن، فریم اور پرزے تبدیل کیے۔ پہلے دو دیگر گاڑیوں اور ایک جنریٹر کا انجن لگایا مگر یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ اسی طرح ایک بار فریم ہی ٹوٹ گیا۔‘
محمد اشرف نے بتایا کہ انہوں نے محض تیسری جماعت تک ہی تعلیم حاصل کی ہے۔ ’بدقسمتی سے میں نے بہت چھوٹی عمر میں ہی تعلیم چھوڑ دی اور ایک موٹر گیراج میں کام کرنا شروع کر دیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ موٹر گیراج میں انہوں نے چھوٹی بڑی گاڑیوں کے انجنوں کی مرمت کا کام سیکھا جس کے بعد کوئٹہ کے قریب کچلاک میں خراد کی ورکشاپ قائم کی۔
انہوں نے کہا کہ وہ آسانی سے ٹریکٹر اور چھوٹی بڑی گاڑیوں کے انجن اور پرزے بنا لیتے ہیں۔
محمد اشرف کے بڑے بھائی رحمت اللہ نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اشرف بچپن سے ہی مشینوں میں بہت دلچسپی لیتا تھا۔ وہ گھر میں پڑی ہر چیز کو کھول کر دیکھتا تھا۔ شروع میں بہت ساری چیزیں اس نے خراب بھی کیں مگر بعد میں وہ انہیں بنانا سیکھ گیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے موٹرگلائیڈر بنانے سے قبل بھی مشینوں کے کئی کامیاب تجربے کیے ہیں۔ جیپ گاڑی کے انجن کو سی این جی سے چلایا۔ اسی طرح خود اپنی مدد آپ کے تحت جنریٹر بنایا جس سے کئی گھروں کو بجلی مل رہی ہے۔
محمد اشرف بازئی نے بتایا کہ موٹر گلائیڈر بنانے کا خیال انہیں انٹرنیٹ پر ویڈیوز دیکھنے کے بعد آیا، جس کے بعد اس حوالے سے ویڈیوز دیکھ دیکھ کر موٹر گلائیڈر بنانے کا کام شروع کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’شروع میں تو بہت سی مشکلات پیش آئیں۔ کبھی ایک پرزہ خراب ہوجاتا تو کبھی کوئی دوسرا۔ لوگ جب مجھے دیکھتے تو کہتے کہ طیارہ بناتے بناتے بوڑھے ہو جاؤ گے۔ اور تو اور دوست بھی مذاق اڑایا کرتے تھے لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری کیوں کہ امید پر دنیا قائم ہے اور میری امید آج الحمدللہ پوری ہو گئی ہے۔‘
محمد اشرف نے بتایا کہ وہ ہفتے سے جمعرات تک اپنی ورکشاپ پر کام کرتے اور جمعے کو چھٹی والے دن تین سے چار گھنٹے موٹر گلائیڈر بنانے کا کام کرتے۔
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں اس سے پہلے گلائیڈر بنانے کا کام صرف پشاور کے قاضی برادران نے کیا ہے۔ انہوں نے مجھے بھی بڑا سپورٹ کیا اور بنیادی چیزوں کے بارے میں سمجھایا۔ انہوں نے سکردو میں مجھے گلائیڈر میں بٹھا کر میری صلاحیتوں کو بھی پرکھا اور پھر کہا کہ آپ گلائیڈر اڑا سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب موٹر گلائیڈر بن گیا اور اسے اڑانے کی باری آئی تو میں بہت خوفزدہ تھا۔ یہ فکر تھی کہ معلوم نہیں گلائیڈر اڑے گا بھی یا نہیں اور اگر اڑے گا تو خدانخواستہ کوئی حادثہ نہ پیش آ جائے لیکن جب سب کچھ کامیابی سے ہو گیا تو ساری تھکان، تکالیف اور مشکلات بھول گئیں۔‘
محمد اشرف کا کہنا ہے کہ ’وہ مستقبل میں بہتر معیار کا زیادہ بلندی تک پرواز کرنے والا اور تین افراد کی گنجائش والا گلائیڈر بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حکومت انہیں لائسنس دے تاکہ وہ اپنے تجربات جاری رکھ سکیں اور ملک و قوم کا نام روشن کریں۔‘