جب تک آئینی بینچ نہیں بیٹھے گا ہم غیر آئینی ہیں؟جسٹس منصور علی شاہ
جب تک آئینی بینچ نہیں بیٹھے گا ہم غیر آئینی ہیں؟جسٹس منصور علی شاہ
پیر 11 نومبر 2024 19:17
صالح سفیر عباسی -اردو نیوز
ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران آئینی بینچ کا بھی تذکرہ ہوا (فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے ٹیکس سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ’کیا جب تک آئینی بینچ نہیں بیٹھے گا ہم غیر آئینی ہیں؟‘
پیر کو سپریم کورٹ میں ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران حال ہی میں قائم کیے گئے آئینی بینچ کا بھی تذکرہ ہوا۔
اس دوران جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ’یہ کیس تو آئینی بینچ سُنے گا۔ ہم ریگولر بینچ میں کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔‘
جسٹس عائشہ ملک کے ریمارکس کے جواب میں جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ’اس وقت تو کوئی آئینی بینچ موجود نہیں۔ ابھی جو غیر آئینی بینچ بیٹھا ہے اس کا کیا کرنا ہے۔‘
اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ ’کیا جب تک آئینی بنچ نہیں بیٹھے گا ہم غیر آئینی ہیں؟ اس کا مطلب ہے کہ جب تک آئینی بینچ نہیں بیٹھتا آئینی مقدمات نہیں سُنے جائیں گے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ’ہم اگر اس کیس کو سُن بھی لیں تو کوئی ہمیں پوچھ نہیں سکتا۔ اب بار بار یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیس ریگولر بینچ سنے گا یا آئینی بینچ؟‘
انہوں نے سوال اُٹھایا کہ ’اگر ہم کیس کا فیصلہ کر بھی دیتے ہیں تو کیا ہوگا؟ ہمیں کون روکنے والا ہے؟ نظرثانی درخواست بھی ہمارے پاس آئے گی تو ہم کہہ دیں گے کہ ہمارا دائرۂ اختیار ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے آئینی مقدمات سے متعلق کہا کہ آئینی مقدمات ریگولر بینچ نہیں سُن سکتا۔ وکلاء کی طرف سے بھی کوئی معاونت نہیں آ رہی۔
جسٹس منصور علی شاہ کے ریمارکس کے بعد جسٹس عقیل عباسی نے پوچھا کہ ’تو کیا ہم یہ کیس سن سکتے ہیں یا نہیں؟‘
جسٹس عائشہ ملک نے کیس کے حوالے سے ریمارکس میں کہا کہ ’آرٹیکل 2 اے کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اس کا فیصلہ کرے گی کہ کیس آئینی بینچ سُنے گا یا ریگولر بینچ مگر اس میں ابھی وقت لگے گا۔‘
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد 5 نومبر کو جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس امین الدین کو 7 رکنی آئینی بنچ کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
جوڈیشل کمیشن میں آئینی بینچ کا فیصلہ 7 اور 5 کے تناسب سے کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر ،عمر ایوب اور شبلی فراز نے امین الدین خان کی سربراہی میں بینچ بنانے کی مخالفت کی تھی جبکہ باقی ممبران نے حمایت میں ووٹ دیا تھا۔
آئینی بینچ کے لیے پنجاب سے جسٹس امین الدین اور جسٹس عائشہ ملک جبکہ سندھ سے جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی کے نام شامل کیے گئے ہیں۔
بلوچستان سے جسٹس جمال مندوخیل اورجسٹس نعیم اختر افغان اور خیبرپختونخوا سے جسٹس مسرت ہلالی کو آئینی بینچ میں شامل کیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت نے 26 ویں آئینی ترامیم کی پارلیمان سے منظوری کے ذریعے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں آئینی بنچز کے قیام کو آئین کا حصہ بنایا تھا جس کے تحت آئین سے متعلق تمام کیسز سننے کا اختیار صرف آئینی بنچ کو دیا گیا تھا۔