Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اگر آپ آسٹریلین کرکٹ کوچ ہوتے تو کیا کرتے؟

محمد رضوان کو ان کا مخصوص لیگ سائیڈ والا بگ شاٹ نہ کھیلنے دیا جائے تو وہ پھر فرسٹریٹ ہو کر وکٹ دے دیں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
میرے ایک فیس بک فرینڈ ہیں، میری پوسٹس پر کبھی کبھار کمنٹ کرتے ہیں مگر واٹس ایپ پر ان سے چیٹ ہوتی رہتی ہے، کبھی فون بھی کر لیتے ہیں۔ انہوں نے کبھی فرسٹ کلاس یا نیشنل لیول کی کرکٹ نہیں کھیلی، امپائرنگ یا کوچنگ سے کوئی تعلق نہیں۔ اپنا چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں،البتہ کرکٹ لور ہیں۔ کرکٹ سے انہیں محبت ہے، وہ کرکٹ میچز بڑی دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔ ان کے بقول پچھلے 20 25 برسوں سے پاکستانی قومی ٹیم کا شائد ہی کوئی میچ مس کیا ہو۔
پاکستان آسٹریلیا کے دوسرے ٹی20 میچ سے قبل گذشتہ رات ان سے فون پر بات ہو رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ فرض کریں آپ آسٹریلین ٹیم کے کوچ ہوں تو اس دوسرے میچ سے قبل کیا حکمت عملی اپنائیں گے۔ ان کا جواب دلچسپ تھا، کہنے لگے، یہ تو بہت سادہ اور آسان ہے۔ پاکستان کے پہلے تین چار اوورزشاہین اور نسیم شاہ نے کرانے ہیں، آسٹریلین اوپنرز کو ان پر اٹیک کرنا چاہیے۔ شاہین اگر پہلا اوور اچھا کرا لے، وکٹ مل جائے تو پھر یہ خطرناک ہو جاتا ہے۔البتہ اسے پہلے اوور میں ایک چھکا چوکا لگ جائے تو پھر یہ پلان بی، سی سب بھول جاتا ہے، پھر یہ زیادہ زور لگاتا اور اتنی ہی زیادہ مار کھاتا ہے۔ اسے یہ یاد نہیں رہتا کہ گڈ لینتھ پر سٹمپس میں گیند رکھے یا فورتھ سٹمپ پر کرائے تاکہ بلے باز کو مشکل ہو۔ اس کے بجائے شاہین جوش میں فل لینتھ گیند کرانے کے چکر میں ایک دو شاٹس مزید لگوائے گا یا پھر 130 یا 132 کلومیٹر کی رفتار سے ایسی ٹومچ شارٹ پچ گیند کرائے گا کہ کلب کرکٹر بھی چھکا لگا لے۔ یہی کام آج کل نسیم شاہ کر رہا ہے، وہ ہر اوور میں ایک دو لوز گیندیں لازمی کراتا ہے، جس پر چھکے، چوکے پڑتے ہیں۔
ہمارے دوست نے کسی ماہر کوچ کے انداز میں تجزیہ کرتے ہوئے پیش گوئی کی کہ ’حارث رؤف بہت اچھی فارم میں ہیں، وہ خطرناک ثابت ہوں گے یا پھر عباس آفریدی اپنی سلو بال ویریشنز کی وجہ سے آسٹریلین بیٹرز کو پریشان کرے گا۔ پاکستان سڈنی میں سفیان مقیم یا عرفات منہاس کو کھلائے گا۔ سفیان کے زیادہ چانسز ہیں۔ وہ مسٹری سپنر ہے اور آسٹریلین اسے پہلے کھیلے نہیں تو وہ ایڈوانٹیج لے سکتا ہے، خاص کر میکسویل کے خلاف۔ 
میرا اگلا سوال تھا کہ پاکستانی بیٹنگ کے خلاف کیا پلان بنانا چاہیے؟ ان کا جواب تھا کہ آسٹریلین بولرز صاحبزادہ فرحان اور عثمان خان وغیرہ کو شارٹ پچ گیندیں کرائیں گے کیونکہ عثمان اپنے ہک اور پل شاٹس کھیلتے ہوئے بیلنس کھو بیٹھتا ہے۔ جبکہ صاحبزادہ فرحان کو یہ زعم ہے کہ وہ اچھا پل شاٹ کھیلتا ہے، مگر پاکستان کی پھٹہ پچوں پر ہک، پل کھیلنا اور آسٹریلیا میں کھیلنا بالکل مختلف ہے۔ فرحان نے پچھلے میچ میں بھی شارٹ پچ گیند پر وکٹ گنوائی تھی اور آج کا میچ یا جتنے بھی میچ اسے آسٹریلیا میں مزید کھلائیں، ہر بار وہ شارٹ پچ گیندوں کو پل کرنے کے چکر میں مڈ وکٹ یا سکوائر لیگ پرکیچ دے گا۔
بابر کی کلاس مختلف ہے، مگر وہ آوٹ آف فارم ہے جبکہ رضوان کو اس کا مخصوص لیگ سائیڈ والا بگ شاٹ نہ کھیلنے دیا جائے، آف سٹمپ سے تھوڑا باہر گیند رکھ کر آف سائیڈ پیک کر دی جائے تو یہ صرف سنگلز لیتا رہے گا اور پھر فرسٹریٹ ہو کر وکٹ دے دے گا۔ سلمان آغا ٹی20 میٹریل نہیں، اسے ویسے بھی نمبر پانچ پر کھلانا تو ظلم ہی ہے۔ پاکستان کو آغا کی جگہ پر فخر زمان کو کھلانا چاہیے تھا، اسے مگر لے نہیں گئے، جبکہ صائم ایوب کو اچھی فارم کے باوجود ٹی20 سکواڈ میں نہیں لیا۔ یہ غلطی مہنگی بھی ثابت ہوسکتی ہے۔‘

عثمان خان نے تب جارحانہ شاٹس کھیلے جب رن ریٹ 10 سے اوپر چلا گیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یہ جو اوپر واقعہ لکھا، یہ سچ ہے، اسے فکشن نہ سمجھیں۔ ہمارے ہاں اردو کالموں میں زیب داستان کے لیے اتنا زیادہ مبالغہ ہو چکا کہ اگر کوئی سچ مچ کی بات لکھی جائے تو بھی پڑھنے والے شک کرتے ہیں۔ اس گفتگو کے دوران میرا اپنے دوست سے مکمل اتفاق تھا، صرف دو باتیں کہیں کہ ’فخر زمان کو ضرور کھلانا چاہیے، لیکن جب وہ نہیں ہے تو پھر نوجوان حسیب اللہ کو ٹاپ آرڈر میں موقع دینا چاہیے۔ یہ ہر اعتبار سے سلمان آغا بلکہ فرحان سے بہتر ہٹر ہے، جبکہ میری رائے میں محمد علی کو آسٹریلیا نہ لے جا کر بھی غلطی کی گئی۔ محمد علی کی لائن لینتھ اچھی ہے اور وہ گیند کو پچ پر زوردار طریقے سے مار کر گیند کو سکڈ کراتا ہے، آسٹریلیا میں وہ کامیاب ہو سکتا تھا، وہ نئی گیند بھی اچھی کراتا ہے۔‘
دوسرا میچ اب ختم ہو چکا۔ پورا میچ دیکھتے ہوئے میں یہ سوچتا رہا کہ یہ تو جیسے ری پلے ہو رہا ہے، وہی سب کچھ جس کے بارے میں گذشتہ رات گفتگو ہوئی۔ یہ خیال آیا کہ جو باتیں ایک نان کرکٹر اچھی طرح سے سمجھ، دیکھ رہا تھا، وہ اتنے تجربہ کار انٹرنیشنل کھلاڑی اور کوچز کیوں نہیں سمجھ پائے۔ وہی غلطیاں پاکستان نے کیں، جن کا خطرہ تھا، آسٹریلیا نے وہی پلان بنایا جو اسے بنانا چاہیے تھا۔ ایک فرق البتہ پڑا، وہ پاکستان کے دو تین بولرز کی ایکسٹر آرڈنری اچھی باولنگ ہے۔ شاہین، نسیم نے کمزور باولنگ کراتے ہوئے تین اوورز میں 48 رنز بنوا دیے۔ اس سے اچھے سٹارٹ کی کون سی ٹیم توقع کر سکتی ہے؟ حارث رؤف نے چھ اوورز کے بعد باولنگ کرانے آنا تھا۔ تین اوورز میں جو زبردست پٹائی ہوئی، اس نے حارث کو جلدی آنے پر مجبور کیا۔ حارث نے میچ کے چوتھے اوور میں دو وکٹیں لے کر میچ میں ٹوئسٹ پیدا کر دیا، پھر اگلے اوور کی پہلی گیند پر عباس آفریدی نے وکٹ لے لی۔ تین وکٹیں اکٹھے گر جانے سے پاکستان میچ میں واپس آیا ورنہ آسٹریلیا تو 200 یا 175 رنز کی طرف جانے کی ابتدا کر چکا تھا۔

آسٹریلیا نے اپنے دستیاب وسائل کے مطابق اچھا گیم پلان بنایا اور سیریز جیت لی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستانی بولرز حارث رؤف، عباس آفریدی اور سفیان مقیم نے بہت عمدہ بولنگ کرائی، نپی تلی گیندوں سے رنز روکے اور وکٹیں لیں۔ حارث روف چار اوورز میں 22 رنز دے کر تین وکٹیں، عباس آفریدی چار اوورز میں 17 رنز دے کر تین وکٹیں جبکہ سفیان مقیم جن کا یہ پہلا ٹی20 انٹرنیشنل میچ تھا انہوں نے چار اوورز میں 21 رنز دے کر میکسویل اور سٹوئنس کی وکٹیں حاصل کیں۔ان کی عمدہ بولنگ کی وجہ سے آسٹریلیا اپنے ممکنہ ہدف سے 30، 35 رنز کم رہا، 150 رنز بھی نہ بنا پایا۔ پاکستانی فیلڈروں نے مگر حد کر دی، پانچ چھ کیچ چھوڑے، مس فیلڈنگ الگ۔ سلمان آغا نے سلپ میں حارث کی گیند پر سیدھا کیچ چھوڑ دیا۔ شاہین شاہ نے ڈراپ کیا، رضوان اور بابر سے بھی کیچ ڈراپ ہوئے۔ اگر فیلڈنگ معیاری ہوتی تو ممکن ہے آسٹریلیا 10 15 رنز پہلے آوٹ ہو جاتی۔
پاکستانی بیٹنگ نے مگر مایوس کیا۔ ہدف بڑا نہیں تھا، رنز بنائے جا سکتے تھے۔ بابر اور رضوان کی پرانی جوڑی آج اوپننگ کرنے آئی۔ بابر ناکام ہوا۔ صاحبزادہ فرحان حسب توقع شارٹ پچ گیند پر مڈ وکٹ پر کیچ دے کر چلتا بنا۔ رضوان اور عثمان خان وکٹ پر ٹھیرے مگر نہایت سست بیٹنگ کی۔ پہلے 10 اوورز میں پاکستان 50 رنز بھی نہ بنا پایا، اگلے 10 اوورز میں 100 رنز کا ہدف کرا دیا۔ اس کی ذمہ داری رضوان پرعائد ہوتی ہے اور عثمان پر بھی۔ رضوان اگر اینکر اننگ کی کوشش کر رہا تھا تو عثمان کو ہٹنگ کرنی چاہیے تھی۔ عثمان نے تب جارحانہ شاٹس کھیلے جب رن ریٹ 10 سے اوپر چلا گیا تھا۔
عثمان اور عرفان نیازی نے اچھی پارٹنر شپ بنائی، مگر تب تک ہدف بہت مشکل ہوچکا تھا اور غیرمعمولی ہارڈ ہٹنگ کی ضرورت تھی۔ ایسا ہٹر پاکستان کے پاس ہے ہی نہیں۔ عرفان خان نیازی نے اپنی سی کوشش کی اور اچھی فائٹ کی، میچ آخری اوور تک ان کی بیٹنگ کے باعث آیا۔ تاہم عثمان کے آوٹ ہونے کے بعد عباس آفریدی عقلمندی سے کام لیتا اور ایک چوکے کے بعد وکٹ گنوانے کے بجائے سنگل لے لیتا تو شاید اگلے اوورز میں ہٹنگ مزید ہو جاتی۔ عباس، شاہین، نسیم شاہ ان سب نے اندھا دھند ہٹنگ کر کے وکٹیں گنوائیں۔ ان کے لیے بہت آسان تھا کہ سنگل لے کر دوسری طرف کھڑے سیٹ بلے باز عرفان کو موقع دیتے۔ ایسا کسی نے نہیں کیا اور پھر میچ بھی پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا اور سیریز بھی۔

شاہین شاہ آفریدی کو اگر پہلے اوور میں ایک چھکا یا چوکا لگ جائے تو پھر یہ پلان بی، سی سب بھول جاتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس سیریز میں ایک بار پھر پاکستان کی ٹی20 ٹیم کی خامیاں ظاہر ہوئیں۔ ہمارے پاس اچھے پاور ہٹرز نہیں، ہمارے ٹاپ آرڈر میں تین چار اینکر بلے باز ہیں جو 150 کے سٹرائیک ریٹ سے بھی بیٹنگ نہیں کر سکتے۔ ہمارا لوئر آرڈر کمزور ہے، ٹیل اینڈرز قابل بھروسہ نہیں۔ درحقیقت ہماری ٹیم نو یا 10 رنز فی اوور کی ایوریج سے رنز کر ہی نہیں پاتی۔ جدید ٹی20 میں یہ بڑی خامی ہے۔ جب تک اس پر کام نہیں ہو گا، ہم صرف اپنی بولنگ سے ٹی20 میچز نہیں جیت سکتے۔ آسٹریلیا کو کریڈٹ دینا چاہیے، ان کے اہم بولرز نہیں کھیل رہے تھے، اس کے باوجود انہوں نے اپنے دستیاب وسائل کے مطابق اچھا گیم پلان بنایا اور سیریز جیت لی۔
پاکستان کو وائٹ واش سے بچنے کے لیے ایک نئے، قابل عمل پلان اور چند عمدہ پرفارمسز کی ضرورت ہے۔

شیئر: