Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرم میں فرقہ وارانہ جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 54 ہو گئی

ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے حکومت سے اس واقعے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
ہسپتال کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں فرقہ وارانہ جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سنیچر کو 54 ہو گئی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق جمعرات کو کرم میں گاڑیوں کے ایک قافلے پر مسلح افراد کی فائرنگ سے 41 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
حالیہ برسوں میں اس علاقے میں ہونے والے مہلک ترین حملوں میں سے ایک یہ حملہ ایک ایسے ضلع میں ہوا جہاں حالیہ مہینوں میں فرقہ وارانہ جھڑپوں میں متعدد افراد مارے گئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سنیچر کو بھی جھڑپیں جاری ہیں۔
پارا چنار کے ضلع ہیڈکوارٹرز ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر میر حسن جان نے بتایا کہ ’اب تک جھڑپوں میں تقریباً 54 افراد ہلاک اور 86 زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے 16 شدید زخمیوں کے پشاور میں علاج کی سفارش کی ہے کیونکہ ان کی حالت تشویش ناک ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جمعرات سے ہسپتال میں لاشیں لائی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے وہ طبی عملے کو یہ حکم دینے پر مجبور ہو گئے کہ وہ 24 گھنٹے ڈیوٹی پر رہیں۔
ابھی تک کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
دوسری جانب پارا چنار میں خیبر پختونخوا حکومت کے ہیلی کاپٹر پر نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کی گئی تاہم ہیلی کاپٹر محفوظ لینڈنگ کرنے میں کامیاب رہا اور اس میں موجود حکومتی وفد محفوظ رہا ہے۔
ہیلی کاپٹر میں صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم ایڈوکیٹ کی سربراہی میں وفد وزیراعلٰی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر کرم میں امن و امان کا جائزہ لینے اور امن و امان کی بحالی کے لیے جرگے کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے جا رہا تھا۔
وفد میں چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا ندیم اسلم چوہدری، کمشنر کوہاٹ ڈویژن، ڈی آئی جی کوہاٹ سمیت دیگر اعلٰی افسران شامل ہیں۔
خیال رہے کہ جولائی اور ستمبر میں ہونے والی جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے اور قبائلی کونسل کی جانب سے جنگ بندی کے مطالبے کے بعد ہی یہ معاملہ ختم ہوا تھا۔

مقامی افراد کے مطابق پورے ضلع میں اس وقت خوف کا عالم ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پارا چنار کے دکان داروں نے جمعے کو اس حملے کے خلاف تین روزہ ہڑتال کا اعلان کیا ہے جبکہ مقامی افراد کے مطابق پورے ضلع میں اس وقت خوف کا عالم ہے۔
ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے حکومت سے اس واقعے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
حیات عباس نجفی نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس واقعہ کی شفاف انکوائری کرائی جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم حکومت اور سیکورٹی اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پارچنار جو کہ پاکستان کا ایک بہت بڑا حصہ ہے، کو فرقہ واریت سے بچایا جائے اور اسے سکیورٹی فراہم کی جائے۔‘
اس واقعے میں اپنے قریبی عزیزوں کو کھو دینے والے ساجد حسین نے کہا کہ ’ہلاک ہونے والوں میں چھ ماہ سے کم عمر کے بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ وہ معصوم مسافر تھے۔ ان کا کیا قصور تھا؟‘

شیئر: