Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پارا چنار میں قتل کے واقعات، ’ہر طرف خوف کا سماں ہے‘ 

پارا چنار میں فائرنگ کے دو واقعات میں چار اساتذہ سمیت سات افراد ہلاک ہو گئے تھے (فائل فوٹو: ریسکیو 1122)
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کے شہر پارا چنار میں فائرنگ کے دو واقعات میں چار اساتذہ سمیت سات افراد کی ہلاکت کے بعد خوف کا سماں ہے۔ 
یہ واقعات جمعرات کو پیش آئے تھے۔ ضلع کرم کے ڈی پی او محمد عمران نے واقعے کے بعد بتایا کہ ’کئی برسوں سے دو گرپوں میں زمین کا تنازع چل رہا ہے۔‘
’ایک گروپ کے شخص کو جمعرات کی صبح گاڑی میں قتل کیا گیا۔ پولیس جب موقع پر جا رہی تھی تو پولیس پر بھی فائرنگ کی گئی۔‘ 
انہوں نے مزید کہا کہ ’صبح 11 بجے سکول پر ایک گروپ حملہ آور ہوا جس میں چھ افراد قتل ہوئے۔ سکول میں قتل کیے گئے ان افراد میں چار اساتذہ اور دو مزدور شامل تھے۔‘
سات افراد کے قتل کے بعد صوبائی حکومت نے اپر کرم میں سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی جبکہ وزیر داخلہ نے واقعے کی رپورٹ بھی طلب کر لی۔ 
آج  پارا چنارکی صورت حال کیا ہے؟ 
پارا چنار کی تازہ ترین صورت حال کے بارے میں جاننے کے لیے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر ضلعی پولیس کے سربراہ محمد عمران مرزا نے بتایا کہ ’اس وقت امن و امان قائم ہے اور حالات مکمل کنٹرول میں ہیں۔‘ 
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پورے علاقے میں پولیس اور کرم ملیشیا کے اہلکار بھی ڈیوٹی پر مامور ہیں۔‘
ڈی پی او محمد عمران مرزا نے واقعے کا پسِ منظر بتاتے ہوئے کہا کہ ’منگل اور طوری دو قبائل گِدو اور پیواڑ میں آباد ہیں۔ ان کے درمیان ایک کئی دہائیوں سے چلا آرہا زمین کا تنازع ہے۔ سنہ 1921 میں ان قبائل کے درمیان اس پر جنگ میں پیواڑیوں کے 11 جبکہ گِدو کے پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔‘
’اس کے بعد وقتاً فوقتاً لڑائیاں ہوتی رہیں۔ جمعرات کو پیواڑ قبلیے کے افراد نے گِدو قبیلے کے ایک شخص کو قتل کیا جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ 2021 والی لڑائی میں شامل تھا۔‘
’پھر اس کے جواب میں گِدو قبیلے کے افراد نے سکول میں گھس کو ان ٹیچرز کو نشانہ بنایا جن کا تعلق پیواڑ قبیلے سے تھا۔‘ 

ڈی پی او کے مطابق ’گِدو کے افراد نے پیواڑ قبیلے کے ایک شخص کو قتل کیا جس پر 2021 والی لڑائی میں شامل ہونے کا شک تھا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’یہاں کئی زمینوں پر تنازعات چل رہے ہیں‘ 
محمد عمران مرزا کے بقول ’سنہ 2019 میں یہ قبائلی علاقے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں 20 سے 25 ایسی زمینیں ہیں جن پر بہت دیرینہ تنازعات چل رہے ہیں۔‘ 
’اب حکومت کی ہدایت پر لینڈ کمیشن ان علاقوں میں آئے گا اور متنازع زمینوں کی تقسیم کے لیے اقدامات اٹھائے گا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس وقت مقامی قبائلی مشران آن بورڈ ہیں۔ ہم امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے ان کے ساتھ مسلسل بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘ 
’پارا چنار میں خوف کا سماں ہے‘
مقامی صحافی محمد جمیل نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ اس وقت علاقے میں انتہائی خوف کا سماں ہے۔ اپر کرم اور لوئر کرم کے درمیان لوگوں کی آمدورفت تقریباً معطل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کہ آج اپر کرم کے ایک گاؤں سے کچھ افراد ایک قافلے کی شکل میں جا رہے تھے کہ ان کے راستے میں بھی کچھ افراد نکل آئے۔ قافلے کے ساتھ سکیورٹی تھی اس لیے کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
’سات افراد کے قتل کے بعد ضلع کرم کے تعلیمی ادارے مکمل بند ہیں اور امتحانات ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سروس بھی بند ہے۔‘ 
محمد جمیل کے مطابق اس وقت علاقے میں جگہ جگہ پولیس اور کرم ملیشیا کے اہلکار تعینات ہیں۔ 

’جہاں یہ واقعات پیش آئے وہاں فوجی اہلکار بھی امن وامان برقرار رکھنے کے لیے تعینات ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’تری منگل میں فوج بھی تعینات ہے‘
محمد جمیل کے بقول تری منگل جہاں یہ واقعات پیش آئے وہاں پولیس کے ساتھ ساتھ فوج کے اہلکار بھی امن وامان کو بحال رکھنے کے لیے تعینات ہیں۔
واقعے کے پس منظر کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ گِدو میں ایک زمین پر طوری اور منگل قبائل کے درمیان ایک دیرینہ تنازع چلا آرہا ہے۔ یہ دونوں قبائل اس زمین کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ 
محمد جمیل ان واقعات کے پس منظر کے حوالے سے قدرے مختلف موقف رکھتے ہیں۔ ان کے بقول قتل کے اس واقعے کا اس زمین کے تنازع سے براہ راست کوئی تعلق ہے یا نہیں۔ اس بارے میں ابھی کچھ ابہام ہے کیونکہ جو اساتذہ اور مزدور قتل ہوئے وہ تو ڈیوٹی دینے اِدھر اُدھر کے علاقوں سے آئے تھے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سدہ پریس کلب میں آج کرم سیاسی اتحاد کے سرکردہ اراکین نے پریس کانفرنس میں دونوں واقعات کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان واقعات میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں۔ 

شیئر: