Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سے کم کر کے 55 سال کرنے کی تجویز: معاشی مسائل کا حل یا نئی مشکل؟

وزارت خزانہ کے مطابق سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سے کم کرکے 55 سال کرنے کی تجویز ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرنے کے لیے پنشن اصلاحات کے تحت ایک تجویز زیر غور ہے جس کے مطابق سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سے کم کرکے 55 سال کر دی جائے گی۔
پاکستان کی موجودہ اور ماضی قریب کی تمام حکومتیں معاشی اصلاحات کے ذریعے ملک کا معاشی نظام بہتر بنانے اور حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی لانے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔
حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات میں سرکاری ملازمین کی پنشن کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ہر سال بجٹ میں پنشن میں اضافے کے باعث پنشن بل میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جو حکومت کے لیے معاشی مسائل کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ بن رہا ہے۔
ماضی قریب میں یہ تجویز زیر غور رہی کہ سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سے بڑھا کر 62 سال کر دی جائے تاکہ دو سال تک ریٹائرمنٹ کے وقت ادا کی جانے والی بھاری رقوم کی ادائیگی روکی جا سکے۔ اس سے نئے پنشنرز کی تعداد میں بھی کمی آئے گی اور  حکومت کو خاطرخواہ بچت ہوگی۔ تاہم اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔
وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق اب ایک نئی تجویز زیر غور ہے کہ سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سے کم کرکے 55 سال کر دی جائے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں بیک وقت بہت سے ملازمین ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ جائیں گے، اور حکومت کو ان ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن اور دیگر مراعات کی ادائیگی کے لیے بڑی رقم درکار ہوگی۔ تو ایسے میں بچت کیسے ممکن ہوگی؟
ابھی تک یہ محص تجویز ہے اور اس پر غور جاری ہے، اور حکام کے مطابق یہ تجویز آئی ایم ایف کی طرف سے دی گئی ہے۔ تاہم اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ حکام کا موقف ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں پانچ سال کی کمی سے پنشن کی ادائیگی میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
حکام  کے مطابق اس فیصلے کو تمام اداروں میں یکساں طور پر نافذ کیا جائے تو پنشن اخراجات سالانہ 50 ارب روپے تک کم ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر ساجد امین کے مطابق اس فیصلے کا اطلاق اتنا سادہ اور آسان نہیں ہوگا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جب حکام سے پوچھا گیا کیا اچانک زیادہ تعداد میں ملازمین ریٹائر ہوں گے تو اس کا بوجھ اس سکیم کے متوقع نتائج کے برعکس نہیں ہوگا؟ ان کا جواب تھا کہ اس بوجھ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے مرحلہ وار نفاذ پر غور کیا جا رہا ہے۔
طویل عرصے سے معیشت کو کور کرنے والے صحافی شکیل احمد کا کہنا ہے کہ ’وفاقی پنشن بل اس وقت ایک کھرب روپے سے تجاوز کر چکا ہے، جس میں سول اور مسلح افواج کا حصہ بالترتیب 260 ارب روپے اور 750 ارب روپے ہے۔ اس میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔‘ ’ریٹائرمنٹ کی عمر 55 سال کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جوں جوں سرکاری ملازمین کی مدت ملازمت بڑھتی ہے، ان کی تنخواہیں اور مراعات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اگر 55 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ ہو تو ملازمین کو پنشن اور مراعات کی مد میں نسبتاً کم رقم ادا کرنی پڑے گی، اور اگلے پانچ برسوں میں ان کی متوقع تنخواہوں کی مد  میں بھی بچت کی جا سکتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ تجویز قابل عمل ہے، لیکن حکومت کو سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا، کیونکہ اس سے کئی سینیئر بیوروکریٹس ریٹائر ہو جائیں گے اور نجی شعبے میں کام کریں گے۔ تاہم اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ کئی لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد کاروبار شروع کریں گے، جس سے دیگر لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔‘
سالانہ پنشن کے بڑھتے بل پر قابو پانے کے لیے حکومت نے حال ہی میں تمام مستقبل کی سرکاری ملازمتوں کے لیے شراکت داری پر مبنی پنشن سکیم بھی متعارف کرائی ہے۔ جس سے جولائی 2024 کے بعد بھرتی ہونے والے ملازمین اپنی پینشن کے لیے تنخواہ کا دس فیصد پینشن فنڈ میں دیں گے اور حکومت اس میں بیس فیصد شامل کرے گی۔ جس سے مستقبل میں حکومت کا پینشن کا بل مزید کم ہونے کا امکان ہے۔
معاشی ماہر ڈاکٹر ساجد امین کا کہنا ہے کہ ’حکومت کے پنشن اخراجات (وفاقی، عسکری یا صوبائی) قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔ 2011 میں 164 ارب روپے سے یہ اخراجات 2021 میں 988 ارب روپے تک بڑھ چکے تھے، جو معاشی دباؤ کا سبب بن رہے ہیں۔ کسی نہ کسی طریقے سے اس بوجھ سے نکلنا ہی حکومت کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔‘

حکام  کے مطابق اس فیصلے کو تمام اداروں میں یکساں طور پر نافذ کیا جائے تو پنشن اخراجات سالانہ 50 ارب روپے تک کم ہو سکتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’ریٹائرمنٹ کی عمر دو سال بڑھانے کی تجویز ایک وقتی ریلیف تھا تاکہ فوری طور پر ریٹائر ہونے والے ملازمین کی ادائیگیاں دو سال کے لیے موخر ہو جائیں گی لیکن پانچ سال مدت ملازمت کم کرنے سے حکومت کو فوری طور پر نہ سہی لیکن طویل مدتی ریلیف ضرور ملے گا۔ اس سے وقتی طور پر معاشی بوجھ پڑ سکتا ہے لیکن مستقبل میں اس سے نہ صرف معاشی مسائل میں کمی آئے گی بلکہ بیوروکریسی میں اصلاحات کا راستہ بھی کھلے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ جلدی اسامیاں خالی ہوں گی تو بیوروکریسی میں نیا اور جوان خون شامل ہوگا۔ یہ اقدام سرکاری اداروں کی استعداد کار کو بڑھانے اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ملازمین کی بھرتی کا دروازہ کھولے گا۔‘
ڈاکٹر ساجد امین کے مطابق اس فیصلے کا اطلاق اتنا سادہ اور آسان نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے تکنیکی بنیادوں پر بہت سے مراحل طے کرنا پڑیں گے جس کے بعد اس پر عمل درآمد ممکن ہو گا۔

شیئر: