Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا اور پاکستان کے موسمیاتی چیلنجز مشترک لیکن ’تعاون نہیں کرتے‘

دونوں ممالک ایک دوسرے پر سموگ کے پھیلنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ماہرین کے مطابق دم گھٹنے والی سموگ، شدید گرمی اور تباہ کن سیلاب وہ مشترکہ چیلنجز ہیں جن کا سامنا انڈیا اور پاکستان کر رہے ہیں۔ یہ چیلنجز دونوں ممالک کو تعاون کا ایک نادر موقع فراہم کر سکتے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دونوں پڑوسی ممالک جنہوں نے 1947 کے بعد تین جنگیں لڑی ہیں اور اب بھی دونوں کے مابین کشمیر پر تنازع پایا جاتا ہے، ہر موسم سرما میں فضائی آلودگی کا سامنا کرتے ہیں۔
دونوں ممالک ایک دوسرے پر سموگ کے پھیلنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
لیکن اس سال پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں آلودگی ریکارڈ سطح پر پہنچی، جس کے نتیجے میں صوبائی حکومت نے علاقائی سطح پر ’موسمیاتی سفارتکاری‘ کی اپیل کی ہے جو دونوں ممالک کے لیے ایک نادر موقع ہے۔
انڈیا نے فی الحال اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، یہ دیکھنا اب باقی ہے کہ آیا دونوں ممالک مشترکہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہوں گے یا نہیں۔
تاہم ماہرین کے خیال میں دونوں ممالک ماحولیاتی خطرات کا مقابلہ اکیلے نہیں کر سکتے۔
پاکستان ایئر کوالٹی انیشیٹیو کے بانی عابد عمر نے بتایا کہ ’ہم جغرافیائی، ماحولیاتی اور ثقافتی طور پر ایک جیسے لوگ ہیں اور اہم ایک جیسے موسمیاتی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ سرحد پار تعاون کرنا ہوگا۔

کسان روایتی طریقے سے فصلوں کی باقیات جلاتے ہیں جس کی وجہ سے فضائی آلودگی پھیل جاتی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’مشترکہ خطرہ‘
انڈیا اور پاکستان شدید موسموں کے رحم و کرم پر ہیں، جس کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک موسمیاتی تبدیلی کی شدت کا سامنا کر رہے ہیں۔
دونوں ممالک میں گرمی کی لہر 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر جاتی ہے، خشک سالی نے کسانوں کو پریشان کر رکھا ہے اور مون سون کی بارشیں مزید شدید ہوتی جا رہی ہیں۔
پاکستان میں 2022 کے مون سون کے سیلاب سے ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا تھا، جس میں کم سے کم 17 سو افراد جان سے گئے۔
ایک سال بعد، شمال مشرقی انڈیا میں 70 سے زیادہ افراد اس وقت ہلاک ہو گئے جب ایک پہاڑی علاقے میں واقع جھیل پھٹ گئی۔
اس جولائی میں جنوبی انڈیا کی ریاست کیرالہ میں مٹی کے تودے گرنے سے 200 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے، اور جس کی وجہ سے چائے کے باغات مٹی کے نیچے دب گئے تھے۔
دونوں ممالک میں، تقریباً نصف لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اور ایسی صورتحال میں موسمیاتی آفات مزید تباہ کن ہو سکتی ہیں۔
واشنگٹن میں وِلسن سینٹر کے جنوبی ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے بتایا کہ ’کوئی یہ سوچنا چاہے گا کہ ایک مشترکہ خطرہ دونوں ممالک کو قریب لائے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔‘
دونوں ممالک نے فصلوں کی باقیات جلانے کے طریقے کو غیرقانونی قرار دیا۔ تاہم کسانوں نے اس طریقہ کار کو اس لیے جاری رکھا ہے، کیونکہ سستے متبادل ذرائع کی کمی ہے۔
دونوں ممالک کے حکام نے ان بھٹوں کو ختم کرنے کی بھی دھمکی دی ہے، جو فضائی آلودگی کے ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

دونوں ممالک کے حکام نے غیرقانونی بھٹوں کو ختم کرنے کی بھی دھمکی دی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انڈیا جو دنیا کے سب سے بڑے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے، اور پاکستان کا حصہ اس حوالے سے سب سے کم ہے، نے کبھی بھی ماحولیاتی تبدیلی کے قوانین، سکولوں یا ٹریفک کی بندش، یا ٹیکنالوجی اور ڈیٹا کا تبادلہ نہیں کیا ہے۔
انڈین ماہر اقتصادیات اور موسمیاتی تبدیلی کے ماہر اولکا کیلکر نے جنوبی ایشیا میں الیکٹرک گاڑیوں کی ٹیکنالوجی سے متعلق بتایا کہ ’ہمارے ملکوں میں زیادہ تر لوگ دو پہیوں اور تین پہیوں والی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ تو ایسی گاڑیوں کی ٹیکنالوجیز اور بیٹری ٹیکنالوجیز پر تحقیق کی ضرورت ہے، جو ہمارے سڑکوں کے حالات، گرم موسم اور مسافروں کی ضروریات کے مطابق ہوں۔‘
’بات چیت اور اعتماد کی ضرورت ہے‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک اہم چیز جو ہے وہ عدم توازن ہے۔
انڈیا کے بین الاقوامی امور کے ماہر کنشکان ستھیاسیوم نے کہا کہ ماحولیاتی مسائل عموماً بین الاقوامی نوعیت کے ہوتے ہیں۔
’انڈیا پاکستان کے لیے کچھ کر سکتا ہے لیکن پاکستان انڈیا کے لیے زیادہ کچھ نہیں کر سکے گا۔‘
انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ 2023 میں انڈیا کی جی ڈی پی اپنے پڑوسی ملک سے 10 گنا زیادہ تھی۔‘

2022 میں سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں کم سے کم 17 سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان گزشتہ سال دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، اور صرف بین الاقوامی قرضوں کی بدولت مالی مشکلات سے باہر نکل آیا تھا، اس پر قرضوں کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ ماحولیاتی چینلجز کا مقابلہ کرنے کے لیے سرمایہ کاری نہیں کر پا رہا۔
دوسری جانب فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے انڈیا نے 15 سالہ پرانی گاڑیوں پر پابندی جیسے موثر اقدامات کیے ہیں۔
تاہم یکطرفہ اقدامات مسئلے کا حل نہیں۔ پاکستان ایئر کوالٹی انیشیٹیو کے بانی عابد عمر کا کہنا ہے کہ بات چیت اور اعتماد کو بحال کرنا ہو گا۔
’باتت چیت صرف حکومتوں کے درمیان نہیں ہونی چاہیے، بلکہ سائنس کے شعبے اور اکیڈیمک سطح پر بھی ہونی چاہیے۔

شیئر: