Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

54 سال سے شام میں برسراقتدار رہنے والے الاسد خاندان کی حکمرانی کیسے ختم ہوئی؟

بشار الاسد کی اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ سنہ 1985 کی ایک خاندانی تصویر۔ (فوٹو: اے ایف پی)
شام میں اتوار کو صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے نے ان کی تقریباً 14 سالوں تک اقتدار پر قابض رہنے کی جدوجہد کا ڈرامائی انداز میں خاتمہ کر دیا۔ ان برسوں میں ان کا ملک ایک وحشیانہ خانہ جنگی کے نتیجے میں بکھر کر رہ گیا اور عالمی اور علاقائی طاقتوں کی پراکسی جنگ کا میدان بن گیا۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس زوال کے برعکس جب سنہ 2002 میں بشار الاسد غیرمتوقع طور پر شام کے صدر بنے تو لوگوں کو امید تھی کہ اپنے والد کی تین دہائیوں تک ملک پر آہنی گرفت کے بعد وہ ایک نوجوان مُصلح ثابت ہوں گے۔ کیونکہ وہ صرف 34 سال کی عمر میں اقتدار سنبھال رہے تھے اور مغربی تعلیم یافتہ ماہر امراض چشم ہونے کے ساتھ ساتھ نرم خو تھے۔
لیکن جب مارچ 2011 میں انہیں حکومت مخالف مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا تو الاسد نے انہیں کچلنے کے لیے اپنے والد والے وحشیانہ ہتھکنڈوں کا استعمال کیا۔ جیسے ہی یہ بغاوت خانہ جنگی میں بدلی، تو انہوں نے اپنے اتحادیوں ایران اور روس کی حمایت کے ساتھ، حزب اختلاف کے زیرِقبضہ شہروں کو دھماکوں سے اڑانے کے لیے اپنی فوج اتاری۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کے گروہوں اور استغاثہ نے شام کے حکومت کے زیرانتظام حراستی مراکز میں بڑے پیمانے پر تشدد اور ماورائے عدالت پھانسیوں کے الزامات عائد کیے۔
شام کی جنگ میں تقریباً پانچ لاکھ افراد ہلاک اور جنگ سے پہلے کی دو کروڑ 30 لاکھ کی آبادی میں سے نصف بے گھر ہو چکے ہیں۔ جیسے ہی اس بغاوت نے خانہ جنگی کی شکل اختیار کی، لاکھوں شامی سرحد پار کر کے اردن، ترکی، عراق اور لبنان اور یورپ کی طرف بھاگ گئے۔
بشار الاسد کی اقتدار سے رخصتی کے ساتھ 54 سال سے کم عرصے پر محیط ان کے خاندان کی حکمرانی بھی ختم ہو گئی ہے۔ جبکہ کوئی واضح جانشین نہ ہونے کی وجہ سے اس نے ملک کو مزید غیریقینی کی صورت حال کی جانب دھکیل دے دیا ہے۔

بشار الاسد کو ان کے بڑے بھائی بَاسِل کی کار حادثے میں ہلاکت کے بعد لندن سے شام واپس بلا لیا گیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کچھ عرصے قبل تک لگتا تھا کہ بشار الاسد کی مشکلات کافی کم ہو گئیں ہیں کیونکہ طویل لڑائی کے بعد حکومتی فورسز نے شام کے بیشتر علاقوں کا دوبارہ سے کنٹرول سنبھال لیا تھا جبکہ شمال مغربی علاقے اپوزیشن گروہوں اور شمال مشرقی علاقے کردوں کے کنٹرول میں تھے۔ عرب لیگ نے گذشتہ برس شام کی رکنیت بحال کر دی تھی اور سعودی عرب نے 12 برس بعد مئی میں شام میں اپنے پہلے سفیر کی تقرری کا اعلان کیا تھا۔
تاہم نومبر کے آخر میں شمال مغربی شام میں مقیم اپوزیشن گروہوں کی طرف سے شروع کی گئی ایک حیرت انگیز کارروائی کے ساتھ ہی جیوپالیٹکل صورت حال تیزی سے بدل گئی۔ حکومتی افواج تیزی سے پسپا ہوئیں جبکہ بشار الاسد کے دیگر اتحادی روس اور ایران، یوکرین کی جنگ اور اسرائیل کے ساتھ حزب اللہ اور حماس کی ایک برس سے جاری جنگوں کے باعث، مداخلت سے گریزاں نظر آئے۔
بشار الاسد کہاں دلے گئے ہیں اس بارے میں کوئی مصدقہ معلومات نہیں ہیں بس یہی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ اتوار کو باغیوں کے دمشق پر قبضے کے بعد وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

حافظ الاسد نے تقریباً 30 برس تک شام پر حکمرانی کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ڈاکٹر سے صدر تک کا سفر

بشار الاسد سنہ 2002 میں قسمت کے الٹ پھیر کے بعد اقتدار میں آئے۔ ان کے والد نے ان کے بڑے بھائی بَاسِل کو اپنا جان نشین مقرر کیا تھا، لیکن وہ سنہ 1994 میں دمشق میں ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ بشار جو اس وقت لندن میں ماہر امراض چشم تھے، انہیں واپس شام لایا گیا اور فوجی تربیت کے بعد کرنل کے عہدے پر فائز کر دیا گیا تاکہ وہ اپنی اہلیت ثابت کریں اور ایک دن اقتدار سنبھالیں۔
جب حافظ الاسد سنہ 2002 میں چل بسے تو پارلیمنٹ نے فوری طور پر صدر بننے کی عمر کی حد 40 سے کم کر کے 34 سال کر دی۔ اور بعد میں ایک ریفرنڈم کے بعد جس میں بشار الاسد ہی واحد امیدوار تھے، انہوں نے ملک کی باگ دوڑ سنبھال لی۔
حافظ الاسد جو ایک فوجی تھے، نے تقریباً 30 برس تک ملک پر حکمرانی کی جس کے دوران انہوں نے سوویت طرز کی مرکزی معیشت قائم کی اور اختلاف رائے کی آوازوں کو ایسا خاموش کرایا کہ شامی اپنے دوستوں سے سیاست کے حوالے سے مذاق کرنے سے بھی ڈرتے تھے۔

بشار الاسد نے اسما الاخرس سے شادی کی جن سے ان کے تین بچے ہیں۔ (فوٹو: اے پی)

انہوں نے ایک سیکولر نظریے کی پیروی کی جس نے فرقہ وارانہ اختلافات کو عرب قوم پرستی اور اسرائیل کے خلاف بہادرانہ مزاحمت کے تصور کے تلے دفن کرنے کی کوشش کی۔ حافظ الاسد نے ایران کی شیعہ قیادت کے ساتھ اتحاد قائم کیا، لبنان پر شامی تسلط پر مہر ثبت کی اور فلسطینی اور لبنانی عسکری گروہوں کا نیٹ ورک قائم کیا۔
بشار شروع میں اپنے والد کے بالکل برعکس تھے۔ وہ طویل قامت، خاموش طبع اور نرم مزاج تھا۔ صدر بننے سے پہلے ان کا واحد سرکاری عہدہ شامی کمپیوٹر سوسائٹی کا سربراہ ہونا تھا۔ ان کی برطانوی نژاد اہلیہ اسما الاخرس، جن سے انہوں نے عہدہ سنبھالنے کے کئی ماہ بعد شادی کی، پرکشش خاتون تھیں۔
یہ نوجوان جوڑا جس کے تین بچے ہوئے، طاقت کی راہداریوں سے گریز کرتے۔ وہ دوسرے رہنماؤں کی طرح کسی محل کے بجائے دمشق کے ابو رومنیہ ضلع میں ایک اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔
ابتدائی طور پر اقتدار میں آنے کے بعد، الاسد نے سیاسی قیدیوں کو رہا کیا اور مکالمے کی اجازت دی۔ ’دمشق بہار‘ میں دانشوروں کے مراکز بنے جہاں شامی ان کے والد دور کے برعکس آرٹ، ثقافت اور سیاست پر بات کر سکتے تھے۔

سنہ 2002 میں بشار الاسد شام کے صدر بنے تو لوگوں کو امید تھی کہ اپنے والد کی تین دہائیوں تک ملک پر آہنی گرفت کے بعد وہ ایک نوجوان مُصلح ثابت ہوں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم جب سنہ 2001 میں ایک ہزار دانشوروں نے ایک عوامی پٹیشن پر دستخط کیے جس میں کثیر الجماعتی جمہوریت اور زیادہ آزادیوں کا مطالبہ کیا گیا اور بعض افراد نے ایک سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کی، تو دانشوروں کے ان مراکز کو خفیہ پولیس نے بند کر کے درجنوں کارکنوں کو جیلوں میں ڈال دیا۔

شیئر: