Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فاطمہ جناح کا صدارتی امیدوار بننا، سیاسی ضرورت یا سازش؟

ایوب خان نے انہیں فاطمہ جناح کے معمر ہونے کو انتخابی مہم میں  پروپیگنڈہ کے لیے استعمال کرنے کا حکم دیا۔
پاکستان میں کسی بھی سطح اور نوعیت کے انتخابات ہوں، ان سے تنازعات اور تلخیاں جنم نہ لیں یہ بہت کم  ہوتا ہے۔
آج سے ٹھیک 60 برس قبل ہونے والے صدارتی الیکشن نے ملک میں انتخابی سیاست کا ایسا مزاج اور انداز مروج کیا جس کے اثرات اور آثار اج کی سیاسی اور انتخابی روایات میں بھی جھلکتے ہیں۔
دو جنوری 1965 کا انتخاب صرف دو امیدواروں کے درمیان ہو رہا تھا۔ اس کا انتخابی کالج بھی محدود تھا ۔مگر طویل اور جاندار انتخابی مہم ،الزامات اور جوابی الزامات کی گرما گرمی اور الیکشن میں حکومتی مشینری کے استعمال نے اسے دونوں فریقوں کی جنگ میں بدل دیا تھا۔
پاکستان میں اگرچہ اسے قبل صوبائی اسمبلیوں اور مقامی حکومتوں کے لیے  براہ راست انتخابات ہوتے رہے تھے ۔ مگر ملک کے سربراہ کے چناؤ کے لیے یہ پہلا انتخابی مقابلہ تھا جس نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کر لی۔
ایک طرف سات برسوں سے اقتدار پر فائز فیلڈ مارشل ایوب خان کی ذات تھی۔ دوسری طرف بانی پاکستان محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح اپوزیشن کی پانچ جماعتوں کی مشترکہ امیدوار تھیں۔
سیاست اور حکومتی معاملات سے دور گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے والی محترمہ  فاطمہ جناح کا صدارتی امیدوار بننا بھی آنے والے وقت میں کئ سازشی  نظریات کا عنوان اور سیاسی چال بازیوں کا موضوع بنا۔
اگرچہ ان انتخابات میں فاطمہ جناح کامیاب نہ ہو سکیں۔ مگر ان کے مدمقابل  ایوب خان کے ناقابل شکست ہونے کا تصور اور قوم کے مسیحا ہونے کی تصویر دھندلی ضرور ہو گئی۔
فاطمہ جنا ح صدارتی امیدوار: سازش یا سیاسی ضرورت
1962 کے آئین کی رو سے اگلا صدارتی انتخاب تین مارچ 1965 سے پہلے ہونا ضروری تھا۔ دو ماہ قبل اس کے انعقاد کی وجہ بھی فاطمہ جناح بنیں۔
ایوب دور کے سیکریٹری اطلاعات اور مشہور بیوروکریٹ الطاف گوہر اپنی کتاب :Ayub Khan Pakistan,s First Military Ruler میں لکھتے ہیں کہ 18 ستمبر 1964 کو فاطمہ جناح کو اپوزیشن نے اپنا صدارتی امیدوار بنایا۔ انہوں نے اکتوبر تک ملک بھر کا دورہ مکمل کر لیا۔
ہر جگہ لوگ دیوانہ وار ان کے استقبال کے لیے گھروں سے نکل آئے۔ یوں عوامی مقبولیت کے معیار سے انہوں نے انتخاب کا پہلا مرحلہ جیت لیا۔

جنرل اعظم کے بقول فاطمہ جنازح سکندر مرزا کے صدر بننے پر بہت خائف تھیں (فائل فوٹو: فلِکر)

حکومت ان کی غیرمعمولی پذیرائی پر بوکھلا گئی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اپوزیشن کو جتنا زیادہ وقت ملے گا ایوب خان کی مقبولیت میں اتنی ہی کمی آئے گی۔ اس لیے دو جنوری 1965 کو انتخابات منعقد کروائے جائیں گے۔
ایوب حکومت کے وزیر قانون خورشید احمد قومی اسمبلی میں اپوزیشن سے اس بات پر شرط لگانے کو تیار تھے کہ کہ وہ ایوب کے سیاسی قد کے مقابل کوئی امیدوار لا کر دکھائیں۔
یہ ایوب خان کی خوش قسمتی تھی کہ تین سرکردہ سیاسی شخصیات یکے بعد دیگرے دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ ان میں حسین شہید سہروردی، مولوی تمیز الدین خان اور خواجہ ناظم الدین شامل تھے۔
نیشنل عوامی پارٹی، عوامی لیگ، نفاذ اسلام پارٹی، کونسل مسلم لیگ اور جماعت اسلامی پر مشتمل اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ہر قیمت پر ایوب خان کو اقتدار سے بے دخل کر دینا چاہتا تھا۔
ان جماعتوں کے آپس میں اختلافات اور نظریاتی دوری کی وجہ سے وہ صدارتی امیدوار کے لیے ایسی شخصیت کی تلاش میں تھے جس کا تعلق مذکورہ پارٹیوں سے نہ ہو اور جو غیرمتنازع کردار کے ساتھ ساتھ شخصی حوالے سے بلند قامت اور شہرت میں بے داغ ہو۔
محترمہ فاطمہ جناح کے علاوہ مشرقی پاکستان کے سابق گورنر جنرل ریٹائرڈ اعظم خان ایسی شخصیت تھی جن میں یہ خصوصیات کسی حد تک موجود تھیں۔
جنرل اعظم خان نے 27 اکتوبر 1958 کو ایوب خان کے حکم سے سابق صدر اسکندر مرزا سے استعفی پر دستخط کروائے تھے۔ ایوب خان کے مارشل لا میں وہ بحالیات کے وزیر رہ چکے تھے۔
انہوں نے مشرقی پاکستان کے گورنر کی حیثیت سے بہت نیک نامی کمائی۔ ایوب ان کی مقبولیت سے خائف رہنے لگے اور 1962 میں ان کی جگہ غلام فاروق کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنایا گیا۔

جنرل اعظم کا ایوب کے مارشل لا میں کردار ان کے صدارتی امیدوار بننے کی راہ میں رکاوٹ بنا (فائل فوٹو: بُک ٹائٹل)

صحافی علی حسن کی پاکستان کے سابق فوجی جرنیلوں کے ساتھ انٹرویوز پر مبنی کتاب ’پاکستان، جرنیل اور سیاست‘ میں ان کا انٹرویو بھی شامل ہے۔
جنرل اعظم بتاتے ہیں کہ 27 اکتوبر کی رات اسکندر مرزا کے استعفی کی فائل جنرل برکی کے حوالے کر کے وہ سیدھا فاطمہ جنا ح کے گھر گئے۔ انہیں بتایا کہ میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسکندر مرزا کو ہٹا دیا ہے۔
جنرل اعظم کے بقول فاطمہ جنازح سکندر مرزا کے صدر بننے پر بہت خائف تھیں۔ وہ اکثر انہیں کہتی کہ تم اسے ہٹا کیوں نہیں دیتے۔
’اس رات فاطمہ جناح نے میرے کہنے پر ملک میں تبدیلی کی حمایت میں بیان جاری کیا جسے میں نے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ پریس کو بھیج دیا۔‘
جنرل اعظم کا ایوب کے مارشل لا میں یہی کردار ان کے صدارتی امیدوار بننے کی راہ میں رکاوٹ بنا۔
ایوب خان کے دور حکومت اور پالیسیوں کے تفصیلی تجزیے پر مبنی غیرملکی مصنف ہربرٹ فیلڈ مین کی کتاب "فرام کرائسز ٹو کرائسز پاکستان 1962 -1969 "میں فاطمہ جناح اور جنرل اعظم میں سے صدارتی امیدوار کے انتخاب کی کہانی ایک اور انداز میں بیان کی گئی ہے۔
الزامات اور افواہوں بھری الیکشن مہم
یہ صدارتی الیکشن دونوں اطراف سے الزامات اور جوابی الزامات سے بھرے ماحول میں منعقد ہوا۔
اگرچہ ووٹ ڈالنے کے اہل صرف 80 ہزار بی ڈی ممبرز تھے مگر اپوزیشن کی جاندار اور جارحانہ مہم نے عام لوگوں کو بھی اس میں شریک کر لیا۔
فاطمہ جناح نے ایوب کے آمرانہ طرز حکومت، بنیادی جمہوریتوں کے ادارے کی بے اختیاری اور ملک میں کم ہوتی شخصی آزادیوں کو اپنے انتخابی نعروں کا موضوع بنایا۔
سب سے بڑھ کر انہوں نے ایوب خاندان کے مالی معاملات اور کرپشن کے مبینہ  الزامات کو  زور و شور سے اٹھایا۔ ایوب خان کے فرزند گوہر ایوب خان نے گندھارا انجینیئرنگ کے نام سے صنعتی یونٹس قائم کیے تھے۔ اپوزیشن کا اعتراض تھا کہ ان کی ذاتی دولت اور کاروبار میں ترقی ان کے والد کے اختیارات اور مراعات کی مرہون منت ہے۔
اس دور کے وفاقی سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر کے مطابق پشاور سے چٹاگانگ تک ’گندھارا‘ نام کے چرچے نے ایوب کی سیاسی ساکھ کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔
ابتدا میں ایوب کے مصاحبین کو فاطمہ جناح پر تنقید کا حوصلہ نہیں ہو رہا تھا۔ نومبر کے وسط میں ہونے والی ایک میٹنگ میں ایوب خان نے انہیں فاطمہ جناح کی سیاسی اور حکومتی معاملات میں ناتجربہ کاری اور ان کی طویل العمری کو انتخابی مہم میں  پروپیگنڈہ کے لیے استعمال کرنے کا حکم دیا۔

الطاف گوہر کے مطابق پشاور سے چٹاگانگ تک ’گندھارا‘ نام کے چرچے نے ایوب کی سیاسی ساکھ کو ادھیڑ کر رکھ دیا(فائل فوٹو: فلِکر)

الیکشن مہم میں اس وقت تلخی در ائی جب ایوب خان نے لاہور میں فاطمہ جنا ح کی ذاتیات کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ان کی ذاتی زندگی کو ’غیرفطری‘ قرار دیا۔
الزامات کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں افواہوں کا بازار بھی گرم تھا۔ حزب اختلاف کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ ایوب خان شکست کے خوف سے ملک سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنا سامان بھی پیک کر لیا ہے۔
فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں سرگرم حصہ لینے والے مسلم لیگی رہنما سردار شوکت حیات اپنی کتاب ’گم گشتہ قوم‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ایوب خان نے سینیئر حکومتی اراکین کو ایک خفیہ مراسلہ سال کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ  شکست کی صورت میں ایوب خان کے ذاتی طیارے کو ملک سے باہر جانے کے لیے تیار رکھا جائے۔ شوکت حیات کے مطابق انہیں اس مراسلے کی نقل کئی سے ملی اور وہ اسے فاطمہ جناح کے حوالے کرنے خود چٹاکانگ بھی گئے۔‘
ایوب خان نے لاہور ایئرپورٹ پر اخباری نمائندوں کو دیے گئے انٹرویو میں ان تمام اطلاعات اور افواہوں کو بے بنیاد اور مخالفین کا پروپگنڈا قرار دیا۔
فریقین کے انڈیا کے ساتھ تعلقات کی گونج
الیکشن کی گرما گرمی میں اس وقت ایک نیا موڑ آیا جب دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کو ہندوستان کا حامی اور اس کے مفاد کے لیے کام کرنے کا الزام دینا شروع کیا۔
اس دور کے اخبارات میں  دونوں طرف سے چھپنے والے پورے صفحے کے اشتہارات ان الزامات کی زبان اور تفصیل کی کہانی بیان کرتے ہیں۔
مصنف ہربرٹ فیلڈ مین کے مطابق فاطمہ جناح نے ایوب خان پر الزام لگایا کہ انہوں نے 1959 میں چین کے خلاف بھارت کو مشترکہ دفاع کی پیشکش کی تھی۔ اسی طرح انہوں نے بھارت کے ساتھ انڈس واٹر ٹریٹی پر ایوب کو ہدف تنقید بنایا اور انہیں پاکستان کے دریا بیچنے والا قرار دیا۔
دوسری طرف ایوب خان نے اپنی تقریروں میں فاطمہ جناح پر بھارتی مفادات کے لیے کام کرنے والی اور غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا۔

فاطمہ جناح نے ایوب خان پر الزام لگایا کہ انہوں نے 1959 میں چین کے خلاف بھارت کو مشترکہ دفاع کی پیشکش کی تھی (فائل فوٹو: بُک ٹائٹل)

حکمران جماعت کنونشن مسلم لیگ کی طرف سے اخبار میں شائع شدہ ایک اشتہار میں ہندوستانی اخبارات اور شخصیات کے اپوزیشن اتحاد کے بارے میں بیانات کا حوالہ دے کر انہیں ہندوستان کا حمایتی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
ہندوستان کے بعد امریکہ دوسرا ملک تھا جس کا ذکر اس مہم میں تسلسل سے ہوتا رہا ۔فاطمہ جناح نے اپنی ایک تقریر میں امریکہ کو ’واحد دوست ملک‘ بول دیا۔ جس پر حکومتی نمائندوں نے ان پر امریکہ کا ہمدرد ہونے کی پھپتی کسی۔
صوبہ مغربی پاکستان کے وزیر اطلاعات اور پارلیمانی امور غلام نبی میمن نے ایک جلسہ عام میں اپوزیشن جماعتوں پر امریکہ سے فنڈنگ لینے کا الزام لگایا۔
پاکستانی سیاست میں آج بھی سیاسی مخالفین کو غیرملکی ایجنٹ اور مہرے کے طور پر پیش کرنے کا رجحان اور روایت موجود ہے۔
سرکاری انتظام میں انتخابی مباحثہ
ملک بھر میں 80 ہزار ووٹرز نے ووٹ ڈالنا تھا جن کا انتخاب 19 نومبر 1964 کو کیا گیا۔ بنیادی جمہوریتوں کے ان ممبران کے انتخاب کے لیے نہ تو ایوب خان کی جماعت اور نہ ہی اپوزیشن نے اپنے حامیوں کو پارٹی وابستگی کے ٹکٹ جاری کیے۔ یوں پہلے مرحلے میں یہ تمام بی ڈی ممبرز آزاد حیثیت میں لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہوئے۔

حکمران جماعت کا دعویٰ تھا کہ 80 فیصد منتخب ارکان کی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی طرح اپوزیشن نے اعلان کیا کہ 90 فیصد ووٹرز نے فاطمہ جناح کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
الطاف گوہر کے مطابق جب ایوب خان کو خفیہ اداروں کی رپورٹس سے یقین ہو گیا کہ 75 فیصد ممبران ان کی حمایت کریں گے تو انہوں نے ڈسٹرکٹ انتظامیہ کو نومنتخب ممبران کے عہدے کے حلف برداری کا اہتمام کرنے کی تلقین کی۔
60 برس قبل اس صدارتی الیکشن میں انتظامیہ کے زیرنگرانی دونوں امیدواروں کا ووٹرز کہ سامنے اظہار خیال کے علاوہ سوالات اور جوابات کا اہتمام کیا گیا تھا ۔یہ روایت اس کے بعد کسی الیکشن میں نظر نہیں آتی۔

مشرقی پاکستان سے راج شاہی اور کھلنا ڈویژن کے علاوہ تمام علاقوں سے فاطمہ جناح فاتح قرار پائیں (فائل فوٹو: فلِکر)

امیدواروں اور ووٹرز کے لیے یہ تقریب ہائی کورٹ کے ایک جج کی نگرانی میں منعقد ہوتی تھی۔ جس میں ایک ضلع یا ڈویژن کے تمام ممبران ایک جگہ جمع ہوتے اور صدارتی امیدوار باری باری ان کے سامنے اپنا انتخابی منشور پیش کرتے تھے۔ ساتھ ہی وہ ووٹرز کے اعتراضات اور سوالات کا جواب بھی دیتے۔
ملک بھر میں ایوب خان کے لیے صبح کا اور دوپہر کا وقت فاطمہ جناح کے لیے مقرر تھا۔ میٹنگ کے ہال میں ایک ڈبہ رکھا ہوتا تھا جس میں ووٹرز کی جانب سے لکھے سوالات ڈالے جاتے تھے۔ نگران جج اس میں سے سوالات نکال کر امیدواروں سے پوچھتا تھا۔
الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ انتظامیہ نے ایوب خان کی طرفداری کرتے ہوئے ان کے لیے ستائش پر مبنی سوالات کا بندوبست کر رکھا تھا۔ اسی طرح نگران جج بھی ایوب کو فائدہ پہنچانے کے لیے ان سے سخت سوالات پوچھنے سے گریز کرتے تھے۔
ایوب خان کی جیت متنازع کیوں ہوئی؟
دو جنوری کی شام نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ سب سے پہلا نتیجہ ڈھاکہ کا تھا جہاں فاطمہ جناح کو فتح ملی۔ دوسرا رزلٹ کراچی سے آیا جہاں سے ایوب خان ناکام ٹھہرے۔ تیسرا نتیجہ لاہور کا تھا جو ایوب کے حق میں آیا۔
مشرقی پاکستان سے راج شاہی اور کھلنا ڈویژن کے علاوہ تمام علاقوں سے فاطمہ جناح فاتح قرار پائیں جبکہ ایوب خان مغربی پاکستان میں کراچی کے سوا ہر جگہ کامیاب ہوئے۔
ایوب خان کو 49951 اور فاطمہ جناح کو 38691 ووٹ پڑے۔ اپوزیشن نے حکومتی مشینری کے استعمال کو ایوب کی جیت کا ذریعہ قرار دیا۔ الطاف گوہر اپنی کتاب میں حکومتی اختیارات کے ایوب خان کے حق میں استعمال کے اعتراف کو یوں بیان کرتے ہیں:
’اپوزیشن کے پاس مہم کے لیے گلیاں اور میدان تھے جبکہ حکومت کے پاس پولنگ سٹیشن تھے‘
فاطمہ جناح کی شکست میں ان کے خلاف جاری ہونے والے فتوؤں کا اثر بھی تھا۔ کچھ علماء نے عورت کی حکمرانی کے ناجائز ہونے کا فتویٰ دیا۔  جماعت اسلامی کے مولانا مودودی اور دیگر علماء نے اس سے اختلاف کیا اور فاطمہ جناح کی حمایت جاری رکھی۔

مولانا بھاشانی نے مشرقی پاکستان میں فاطمہ جناح  کی پرجوش اور بھرپور مہم چلانے سے گریز کیا (فائل فوٹو: فلِکر)

انتخابی نتائج کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ قبائلی علاقوں سمیت دور دراز کے دیگر کچھ اضلاع میں فاطمہ جناح کو برائے نام ووٹ ملے۔ ان تمام علاقوں میں آنے والے وقت میں بھی خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح بہت کم رہی۔ قدامت پسندانہ سماجی رویوں کی وجہ سے ان علاقوں میں فاطمہ جناح کے خلاف فتوؤں کا اثر بھی زیادہ ہوا۔
فاطمہ جناح کی شکست کا تجزیہ کرتے ہوئے ہربرٹ فیلڈ مین مولانا بھاشانی اور عبدالغفار خان کی غلط حکمت عملی کو بھی ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ مصنف کے مطابق مولانا بھاشانی نے مشرقی پاکستان میں فاطمہ جناح  کی پرجوش اور بھرپور مہم چلانے سے گریز کیا۔
عبدالغفار خان ان دنوں علاج کے لیے لندن گئے ہوئے تھے، انہوں نے اچانک کابل جانے کا فیصلہ کیا۔ قریبی ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ وہ الیکشن تک انتظار کر لیں مگر وہ نہ مانے۔

اپوزیشن نے اعلان کیا کہ 90 فیصد ووٹرز نے فاطمہ جناح کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کی یقین دہانی کرائی ہے 

ان کے بیٹے ولی خان اپوزیشن کے اہم رہنما تھے۔ حکومتی جماعت اور ایوب خان کے حامیوں نے ان کے والد کے کابل جانے کو پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا اور ملک سے ان کی وفاداری کو مشکوک بنانے کی کوشش کی، جس کا اثر فاطمہ جنا ح کی انتخابی مہم پر بھی پڑا۔
الیکشن میں کامیابی کا جشن منانے کے لیے ایوب خان کے فرزند گوہر ایوب نے کراچی میں فتح کا جلوس نکالا جو تصادم کی شکل اختیار کر گیا اور درجنوں لوگوں کی جانیں چلی گئی۔ بہت سارے سیاسی تجزیہ نگار کراچی کی لسانی اور تشدد پر مبنی سیاست کا نقطہ آغاز اس واقعے کو بھی قرار دیتے ہیں۔
کامیابی کے باوجود ایوب خان کا متزلزل اعتماد آنے والے برسوں میں ان کے زوال کا باعث بنا۔وہ اقتدار سے رخصت ہوئے تو ان کے دور کے تینوں ادارے بھی انہی کے ساتھ قومی سیاست اور حکومت سے غائب ہو گئے۔

شیئر: