Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب لاہور میں شاہ فیصل کے ذکر پر ٹی وی کی آواز گُم ہوئی

ذوالفقار علی بھٹو کو کانفرنس کے انعقاد کے انتظامات اور اہم معاملات میں خادمین حرمین شریفین شاہ فیصل بن عبدالعزیز کی رہنمائی حاصل تھی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
’پھر یوں ہوا کہ شاہ فیصل بادشاہی مسجد کے دروازے سے داخل ہوئے تو اللہ اکبر کے نعروں سے فضا گونج اُٹھی۔ وہ آہستہ آہستہ خرامی کے ساتھ مسجد کا صحن عبور کر کے اندر چلے گئے. کیمرہ اگلے مہمان کو دکھانے کے لیے پلٹا تو یکدم سناٹا چھا گیا۔ تصویر تو ٹی وی سکرین پر موجود تھی مگر آواز غائب تھی۔ اس بات کو کافی دیر ہوگئی تو ہمیں تشویش ہوئی۔ آخر کار بادشاہی مسجد کی او بی وین پر متعین انجینیئر سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا عبید اللہ بیگ شاہ فیصل اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا ذکر کرتے ہوئے اشکبار ہوئے۔ ان کی بے قراری بڑھتی گئی اور آخر کار شدت جذبات سے بے ہوش ہو گئے۔‘
یہ واقعہ آج سے 48 برس قبل لاہور میں اسلامی کانفرنس تنظیم کے سربراہی اجلاس کے دوران بادشاہی مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران پیش آیا۔ جسے پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق ایم ڈی آغا ناصر نے اپنی کتاب ’گلشن یاد‘ میں بیان کیا ہے۔
اس تاریخی موقع کو ٹیلی ویژن پر براہ راست دکھانے کے ذمہ دار آغا ناصر کے بیان کردہ واقعے میں معروف براڈ کاسٹر عبید اللہ بیگ کی قلبی کیفیت کا ذکر ہوا ہے۔ اس روز سارا پاکستان بالخصوص اہلیان لاہور اسی کیفیت سے سرشار تھے۔
22 فروری 1974 کو جب لاہور میں بہار کی آمد آمد تھی۔ 40 اسلامی ممالک کے سربراہان اور نمائندہ وفود کے گلدستے ایک اور بہار کا منظر پیش کر رہے تھے۔ لاہور کی فضاؤں میں اتحاد اور یکجہتی کے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔
22 سے 24 فروری تک پنجاب اسمبلی کی دلکش عمارت میں اسلامی ملکوں کے سربراہوں کا اجتماع، لاہور جیسے ثقافتی شہر کی تاریخ میں ایک سنہری باب کا اضافہ تھا۔
1969 میں قائم ہونے والی او آئی سی کی مراکش کے بعد یہ دوسری غیرمعمولی کانفرنس تھی۔ پاکستان اور سعودی عرب مشترکہ طور پر اس کے میزبان تھے۔
وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو کانفرنس کے انعقاد کے انتظامات اور اہم معاملات میں خادمین حرمین شریفین شاہ فیصل بن عبدالعزیز کی رہنمائی حاصل تھی۔
مہمان سربراہان مملکت اور نمائندہ وفود کی آمد ایک دن پہلے شروع ہوگئی تھی۔ سعودی فرمانروا شاہ فیصل، مصر کے صدر انوار السادات، لیبیا کے معمر قذافی، شام کے حافظ الاسد، الجزائر کے بومدین، اردن کے شاہ حسین، تنظیم آزادی فلسطین کے یاسر عرفات اور بنگلہ دیش کے شیخ مجیب الرحمان اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔

اسی کانفرنس کے دوران بنگلہ دیش کو سرکاری سطح پر تسلیم کرنے کا فیصلہ بھی ہوا۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کے بعد دونوں طرف تناؤ اور سرد مہری کی کیفیت تھی۔ بنگلہ دیش نے اپنے وزیر خارجہ کو نمائندگی کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی خواہش اور درخواست پر انوار السادات اور یاسر عرفات خصوصی طیارے پر ڈھاکہ پہنچ گئے اور شیخ مجیب الرحمن کو کانفرنس میں شرکت کروانے کے لیے اپنے ساتھ لے آئے۔
اسی کانفرنس کے دوران بنگلہ دیش کو سرکاری سطح پر تسلیم کرنے کا فیصلہ بھی ہوا۔
اسلامی سربراہی اجلاس کے آغاز کا دن اہلیان لاہور کے لیے گویا عید کا دن تھا ۔اس تاریخی شہر کے باسی مہمانوں کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے تھے۔ سربراہان مملکت کو ٹھہرانے کے لیے لاہور کے صاحب ثروت افراد سے ان کی کوٹھیاں مستعار حاصل کی گئیں۔
اس موقع پر خادمین حرمین شریفین کی میزبانی کے لیے صاحب حیثیت افراد ایک دوسرے پر بازی لے جانا چاہتے تھے۔ معروف فلم سٹار محمد علی کو یہ اعزاز نصیب ہوا کہ شاہ فیصل نے ان کے گھر قیام کیا۔
وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، صدر مملکت چوہدری فضل الہی، صوبوں کے گورنر، وزیر اعلیٰ اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران ایئرپورٹ پر مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے موجود ہوتے تھے۔
استقبال کی خاص بات ان افراد کا مخصوص لباس بھی تھا۔ بند گلے کا کوٹ اور پتلون کچھ عرصہ قبل سرکاری شخصیات کے لیے لازمی قرار دیا گیا تھا۔
لاہور کی شاہراہیں اور عمارتیں شریک ممالک کے پرچموں اور اسلامی کانفرنس کے جھنڈوں سے مزین تھی۔ اس موقع کے لیے خاص طور پر ڈیزائن کردہ لوگو اہم مقامات پر اپنی بہار دکھا رہا تھا۔
مگر جو تأثر اور جذبات میں وارفتگی اس کانفرنس کے نغمے نے پیدا کی، وہ کسی اور کے حصے میں نہ آ سکی۔
ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں
ہم مصطفوی مصطفوی مصطفوی ہیں
یہ خصوصی نغمہ معروف شاعر جمیل الدین عالی نے بطور خاص لکھا۔ ملک کے معروف موسیقار سہیل رعنا نے اس کی دھن ترتیب دی۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق ایم ڈی اختر وقارعظیم کے مطابق جب اس نغمے کو گانے والے کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو بہت سارے معروف گلوکاروں کو چھوڑ کر ایک قدرے غیر معروف اور نئی آواز کا انتخاب کیا گیا۔ یہ مہدی ظہیر تھے، جو ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ تھے۔

کانفرنس کے لیے خصوصی نغمہ جمیل الدین عالی نے لکھا جبکہ موسیقار سہیل رعنا نے اس کی دھن ترتیب دی۔ (پاکستانی سینما ڈاٹ نیٹ)

مہدی ظہیر کے انتخاب کی وجہ ان کی عربی زبان و ادب میں ماسٹر ڈگری اور عربی موسیقی کی روایت اور آہنگ سے واقفیت بنی۔ انہیں عربی دھن ترتیب میں دینے میں کمال حاصل تھا مگر گلوکاری ان کا پیشہ نہ تھا۔
موسیقار سہیل رعنا بضد تھے کہ اس نغمے کے لیے مہدی ظہیر کی آواز کے سوا کوئی آواز موزوں نہیں۔ ان کی شیریں آواز، مخصوص لے اور عربی الفاظ کی مخصوص طرز ادائیگی دلوں کو چھو گئی۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے اس نغمے نے لاہور کے علاوہ دوسرے شہروں میں بسنے والوں کو جذباتی اور روحانی طور پر کانفرنس میں شریک کیے رکھا۔
کانفرنس کی کارروائی انگریزی، عربی اور فرانسیسی میں تھی۔ جن کو اس مقصد کے لیے کانفرنس کی سرکاری زبانیں تسلیم کیا گیا تھا۔
پی ٹی وی نے ان تینوں زبانوں میں خصوصی نشریات اور خبروں کا اہتمام کیا۔ یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ معروف سیاستدان بیگم عابدہ حسین نے اس کانفرنس کے لیے پی ٹی وی پر فرانسیسی میں خبریں پڑھیں۔ ان کے علاوہ معروف اداکار خالد سعید بٹ بھی فرانسیسی زبان میں خبریں پڑھنے والوں میں شامل تھے۔
کانفرنس کا آغاز مختلف سربراہان کی جانب سے تشکر اور خیرسگالی کے جذبات کے اظہار سے ہوا۔ مہمانوں نے سعودی عرب اور پاکستان کی حکومتوں کا شکریہ ادا کیا۔ بطور خاص سعودی عرب کے سربراہ شاہ فیصل کو اسلامی ملکوں کی یکجہتی اور تعاون کے لیے گراں قدر خدمات پر خراج عقیدت کا حقدار قرار دیا گیا۔
اس دور میں یہ دونوں شخصیات شاہ فیصل اور ذوالفقار علی بھٹو اپنے ملکوں میں نئے نظام کے قیام اور اصلاحات کے ذریعے معاشرتی تبدیلیوں کے حوالے سے جانے جاتے تھے۔
عالمی سطح پر مسلم ممالک کے اتحاد اور ان کے مسائل کے بارے میں دونوں کے خیالات اور حکمت عملی کے خدوخال میں مماثلت کی وجہ سے مسلم دنیا کو ان سے بہت توقعات وابستہ تھیں۔
لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کا روح پرور منظر شاید ہی دنیا کو کبھی دوبارہ دیکھنے کو ملے۔ اس روز لاہور کی وسیع شاہراہوں کے دونوں اطراف کھڑے لاکھوں لوگوں کے وفور جذبات سے بلند اور پرجوش نعروں کا لامتناہی سلسلہ بڑھتا جا رہا تھا۔
اس کانفرنس کے لیے انتظامیہ کے ساتھ عام شہریوں کے رضاکارانہ تعاون کی پہلے کوئی مثال موجود نہ تھی۔ اس دور میں لاہور کے ایس ایس پی اور پنجاب کے سابق آئی جی سردار محمد چودھری اپنی آپ بیتی میں شہریوں کی جانب سے امن و امان اور نظم و ضبط میں انتظامیہ کے ساتھ تعاون کی تفصیل بیان کی ہے۔

آغا ناصر کے بیان کردہ واقعے میں معروف براڈ کاسٹر عبید اللہ بیگ کی قلبی کیفیت کا ذکر ہوا ہے۔ (فوٹو: فیس بک)

ان کے مطابق مہمانوں کی بادشاہی مسجد روانگی کے دوران استقبال کے لیے شہریوں کو سڑک کے دونوں جانب قطاروں میں کھڑا کرنے کا پروگرام بنایا گیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو مہمانوں کے کھلی سڑک پر مجمع کے درمیان سکیورٹی کے بارے میں متفکر تھے۔
سردار چودھری کے بقول انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ کانفرنس سے قبل خود لوگوں میں جائیں اور کانفرنس کے حوالے سے ان کے جذبات اور رویے کا مشاہدہ کریں۔
ایک دن ذوالفقارعلی بھٹو وزیراعلیٰ غلام مصطفیٰ کھر کے ساتھ بغیر سکیورٹی داتا دربار چلے گئے۔ سڑک کے اطراف میں قطاروں میں کھڑے ہزاروں لوگوں نے انہیں والہانہ انداز میں خوش آمدید کہا۔ مہمانوں کے استقبال کے لیے لاہور کے باسیوں کے اس والہانہ انداز اور نظم و ضبط کے مظاہرے نے وزیراعظم کے سکیورٹی کے بارے میں خدشات دور کر دیے۔
دوران کانفرنس ایک بڑی اور رنگا رنگ تقریب شالیمار باغ کا استقبالیہ تھا۔ عمائدین شہر رنگ برنگی خوبصورت پوشاکوں میں ملبوس شالیمار باغ کی سنگ مرمر کی نہروں کے ساتھ لگی میزوں کے گرد بیٹھے تھے۔
مہمانوں کے لیے بارہ دری میں بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ جب کوئی نیا مہمان آتا بھٹو صاحب اس کا استقبال کرتے اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بارہ دری کے جھروکے میں آ جاتے۔
مسلم سربراہوں کے اس انداز پر حاضرین میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی اور دیر تک خیرمقدمی نعروں اور تالیوں کا سلسلہ جاری رہتا۔
شاہ فیصل، یاسر عرفات، معمر قذافی، انور السادات اور دیگر رہنماؤں کی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے تصاویر اور ویڈیوز آج بھی دیکھنے والوں کو مِلی یکجہتی اور اتحاد کے تصور سے سرشار کر دیتی ہیں۔
لاہور کے زندہ دل باسیوں نے اس کانفرنس کو کامیاب کروانے میں صدق دل سے حکومت کا ساتھ دیا۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی مخالفین تک اس موقع پر رضاکارانہ طور پر انتظامیہ کا ہاتھ بٹانے میں لگے تھے۔ اس طرح کا نظم و ضبط اور رضاکارانہ جذبہ اس سے قبل 1965 کی جنگ میں دیکھا گیا تھا۔
بقول آغا ناصر پانچ چھ دن شہر میں لڑائی جھگڑے کی کوئی واردات نہیں ہوئی اور نہ ہی چوری اور ڈاکہ زنی کا کوئی کیس رپورٹ ہوا۔ لاہوریوں نے اس عظیم اجتماع کی کامیابی اپنے شہر کی عزت و ناموس کا سوال سمجھا۔
چوہدری سردار لکھتے ہیں کہ لاہور کے تانگوں کے کوچوانوں اور ریڑھی بانوں نے بغیر کہے رضاکارانہ طور پر کانفرنس کے دنوں میں اپنے تانگے سڑکوں سے ہٹا دیے تاکہ مہمانوں کے استقبال میں رکاوٹ نہ بنے۔

اس دور میں شاہ فیصل اور ذوالفقار علی بھٹو اپنے ملکوں میں نئے نظام کے قیام اور اصلاحات کے ذریعے معاشرتی تبدیلیوں کے حوالے سے جانے جاتے تھے۔ (فائل فوٹو: وکی میڈیا)

22 فروری 1977 کو بھٹو نے اس کانفرنس کی تیسری سالگرہ کے موقع پر لاہور میں تعمیر ہونے والے اسلامک سمٹ مینار کا افتتاح کیا۔
اس مینار کا ڈیزائن ترکی کے مشہور آرکیٹیکٹ ویدت دلو نے تیار کیا تھا۔ فیصل مسجد اسلام آباد کا ڈیزائن بھی انہیں کا تیار کردہ ہے۔
پنجاب اسمبلی کے قریب فیصل اسکوائر پر تعمیر کیے جانے والے اس مینار کی اونچائی 150 فٹ ہے۔ اسی موقع پر حکومت پاکستان نے چاندی اور سونے کے دو خصوصی یادگاری سکے جاری کیے۔
اسلامی سربراہی کانفرنس بلاشبہ مسلم دنیا کی تاریخ کا ایسا اجتماع تھا جس کے نتائج کے اثرات آج تک موجود ہیں۔ اس کا انعقاد کرنے والے اور اس میں شرکت کرنے والے تمام نمایاں مسلم رہنما اس دنیا میں موجود نہیں ہیں۔
مگر مسلمانوں کے اتحاد اور یکجہتی کے لیے ان کی کوششوں کا تذکرہ آنے والی نسلوں تک چلتا رہے گا۔

شیئر: