سنہ 1964 میں فاطمہ جناح صدر ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑنے پر آمادہ ہوئیں۔ فوٹو: سکرول
پاکستانی سیاست میں خواتین سیاست دانوں کے بارے میں جو بدزبانی آج ہو رہی ہے، اس کی روایت بڑی پرانی ہے۔ میں نے ماضی پر نظر دوڑائی تو بہت سے واقعات ذہن میں آئے، جن کی کتابوں اور اخبارات سے تصدیق بھی کی۔
پستی کا کسی نے حد سے گزرنا دیکھنا ہو تو ان اوراقِ پارینہ کی ورق گردانی کرلے۔ یوں لگتا ہے اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ یہ شرمناک تاریخ بڑی طولانی ہے جس کا ایک بابِ ندامت محترمہ فاطمہ جناح کے بارے میں نازیبا زبان کے استعمال پر مشتمل ہے۔
اس تحریر میں اسی بابت کچھ عرض کرنا ہے جس کے ساتھ کچھ ایسے سیاسی رویوں پر بھی بات ہوگی جنھوں نے آج بھی سیاسی ماحول کو آلودہ کر رکھا ہے۔
سنہ 1964 میں محترمہ فاطمہ جناح عملی سیاست کے بکھیڑوں سے دور زندگی بسر کر رہی تھیں لیکن اپوزیشن جماعتوں کے اصرار پر ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن لڑنے پر راضی ہوگئیں۔ انتخابی مہم شروع کی تو عوام نے بے پناہ محبت کا اظہار کیا۔
فاطمہ جناح کی مقبولیت دیکھ کر ایوب خان نے مایوسی اور جنجھلاہٹ میں فاطمہ جناح کے بارے میں قابل اعتراض گفتگو کی، جس کے بارے میں ان کے معتمدِ خاص اور سیکریٹری اطلاعات، الطاف گوہر نے اپنی کتاب ’فوجی راج کے پہلے دس سال‘ میں لکھا ہے۔
’۔۔۔اب ایوب خان کی برداشت جواب دینے لگی تھی۔ انہوں نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مس جناح کے غیر شادی شدہ ہونے کے حوالے سے ان پر ’خلاف فطرت‘ زندگی بسر کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ ’بدخصال لوگوں میں گھری ہوئی ہیں۔‘
’ایوب خان کے ان ناگفتنی کلمات پر سرکاری حلقے سکتے میں آگئے، تاہم ایوب خان کو اس کا کوئی ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچا، الیکشن کی گرما گرمی میں دونوں طرف سے ایک دوسرے پر گھٹیا الزام تراشی کی جارہی تھی اور متصادم جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف گالیوں اور ناشائستہ جملوں کا آزادانہ تبادلہ ہورہا تھا۔ ایوب خان کے غیر محتاط جملے اسی گہما گہمی میں دب گئے۔‘
ایوب خان نے جلسوں میں بھی فاطمہ جناح کے بارے میں پست گفتگو کی جس کی مستند گواہی مادرِ ملت کی تقریروں کے متن سے ملتی ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
وہ کہتی ہیں کہ ’مسٹر ایوب خان یہ بھی کہتے ہیں کہ قائد اعظم مجھے کمرے میں بند کرکے تالا لگا دیا کرتے تھے۔‘
’مسٹر ایوب نے مجھے ووٹروں کی نگاہوں میں فروتر ثابت کرنے کے لیے بڑے بچکانہ انداز میں کچھ کہانیاں شروع کردی ہیں، انہی میں سے ایک کہانی یہ ہے کہ قائد اعظم مجھے تالے میں بند کردیا کرتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے بتایا گیا ہے کہ صدر ایوب نے مجھ پر سخت حملے کیے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ صدر ایوب کی تلخ کلامی ان کی آنے والی ناکامی کا پیش خیمہ ہے، ہمیں کہا جاتا ہے کہ انتخابی مہم میں شائستگی اور شرافت کو ملحوظ رکھنا چاہیے لیکن خود صدر نے دوسروں پر حملہ کرتے وقت شائستگی کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔‘ بحوالہ ’شمع جمہوریت: مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی تقریروں کا مجموعہ‘(مرتب: وکیل انجم)
حریف کے بارے میں بدزبانی کی طرح غداری کا الزام بھی وہ ہتھیار ہے جس سے ہمارا سیاسی ماحول مکدر رہا ہے۔ حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ بانیِ پاکستان کی بہن بھی اس الزام سے بچ نہ سکیں۔
فاطمہ جناح نے اس بارے میں جس متین لہجے میں اپنا نقطہ نظر بیان کیا اس سے ہم چاہیں تو آج بھی رہنمائی لے سکتے ہیں۔ ان کے بقول ’سیاست دانوں پر غداری کے الزامات کی زبان کا استعمال نہ تو ماضی میں ملکی مسائل حل کرسکا اور نہ آئندہ کسی مسئلے کو حل کر سکے گا۔‘
انتخابی جلسوں سے خطاب میں بھی انھوں نے اس پہلو پر گفتگو کی:
’صدر ایوب یہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھ جو پارٹیاں ہیں وہ وطن دشمن ہیں۔ اگر یہ واقعی ملک دشمن ہیں تو چھ سال میں ان کے خلاف کیوں کارروائی نہیں کی گئی؟ کیا اب ہمارا ساتھ دینے کی وجہ سے یہ وطن دشمن بن گئی ہیں؟‘
’قابل افسوس رجحان یہ ہے کہ ہر اس شخص کو انتشار پسند اور ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے جو مختلف رائے رکھتا ہو۔ حکومت پر نکتہ چینی اور اختلاف رائے کو ملکی استحکام کے خلاف اور ملک سے غداری تصور کیا جاتا ہے۔ یہ نظریہ آمرانہ فلسفے کے مطابق تو ہوسکتا ہے مگر جمہوری تصورات کے خلاف ہے کیونکہ حب الوطنی کسی کی اجارہ داری نہیں۔‘
حریف کے بارے میں بدزبانی اور اسے غدار قرار دینے کے ساتھ ساتھ ہماری سیاست کا ایک لازمی جزو سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال ہے جسے سیاسی لغت میں مذہب کارڈ کہا جاتا ہے۔
افسوس کی بات ہے فاطمہ جناح کے خلاف یہ کارڈ بھی کھیلا گیا۔ ایوب خان کی ایما پر فتوے جاری ہوئے کہ عورت کی حکمرانی کی اسلام میں گنجائش نہیں۔
اپنے سیاسی فائدے اور حریف کو زیر کرنے کے لیے ہمارے سیاسی کلچر میں مذہب کا استعمال عصر حاضر کی قومی سیاست میں بھی بہت عام ہے جس کے مظاہر حالیہ سیاسی کشمکش میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
اسی طرح پاکستان میں سنسرشپ آج بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، فاطمہ جناح کو اس کا سامنا لیاقت علی خان کے دور میں اس وقت کرنا پڑا جب ریڈیو پر افسرِ اعلٰی ذوالفقار علی بخاری نے ان کی تقریر سنسر کی۔ الیکشن مہم کے دوران بھی فاطمہ جناح کے بیانات توڑ مروڑ کر شائع کیے جاتے۔
’اخبارات میری تقریروں پر غلط سرخیاں لگاتے ہیں‘
اخباروں میں جلسوں کو ڈاؤن پلے بھی کیا گیا۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ قصہ ممتاز فوٹو گرافر ایف ای چودھری نے منیر احمد منیر کو انٹرویو میں کچھ یوں سنایا۔
’دو ڈھائی بجے مس جناح نے موچی دروازے پر اپنی الیکشن مہم کے سلسلے میں تقریر کرنا تھی، پبلک میٹنگ۔ خواجہ محمد آصف ایڈیٹر( پاکستان ٹائمز) تھے۔ انہوں نے مجھے بلایا: چودھری صاحب، مس جناح نے تقریر کرنی ہے موچی دروازے۔ میں نے کہا: ہاں میں جاؤں گا وہاں۔ کہنے لگے: ایسی فوٹو کھینچنا جس میں کراؤڈ تھوڑا نظر آئے۔ میں نے کہا: خواجہ صاحب ! آپ کو پتا ہے یہ اس شخص کی بہن ہے جس نے ملک بنایا۔ لوگ تو پاگلوں کی طرح جائیں گے ساری سڑکیں بھری ہوں گی۔ کہنے لگے کوشش کرو۔ میں نے کہا: کوشش نہیں ہوسکتی۔‘
ایف ای چودھری نے ایڈیٹر کی بات ماننے سے انکار کردیا اور نوبت ان کے استعفے تک آن پہنچی جو قبول نہ ہوا اور ان سے کہا گیا کہ اچھا چلیں وہ اپنی مرضی کریں۔ ایف ای چودھری نے بتایا کہ ان کی تصویر دو یا تین کالم چھپی اس پر بھی ایڈیٹر نے بتایا کہ اوپر سے فون آیا تھا کہ آپ نے اتنا بڑا کراؤڈ دکھایا جبکہ اخبار میں ایوب خان کی تصویر چار کالم، پانچ کالم اور چھ کالم شائع ہوتی تھی۔
لاہور میں فاطمہ جناح کی مقبولیت کا ذکر نامور ادیب مستنصر حسین تارڑ نے اپنی کتاب ’لاہور آوارگی‘ میں کچھ یوں کیا ہے۔
’فاطمہ جناح اسی جعلی فیلڈ مارشل کے سامنے اپنے بھائی کے پاکستان اور جمہوریت کے لیے اپنے ناتواں بدن کے ساتھ کھڑی ہوگئیں...اور لاہوریوں کی محبوب ہوگئیں۔ لاہوری لڑکیاں لکشمی مینشن کے مال روڈ والے رخ پر واقع ’صوبہ خان ٹیلر‘ سے فاطمہ جناح سٹائل کے لیڈیز کوٹ سلواتی تھیں اور انہیں زیب تن کرکے بالوں کو سفید دوپٹے سے ڈھانک کر فاطمہ جناح ایسی لُک دینا چاہتی تھیں۔‘
لاہور میں فاطمہ جناح کی مقبولیت کے بارے میں آپ نے جان لیا، اب معروف براڈ کاسٹر اور سینیئر صحافی علی احمد خاں کی کتاب ’جیون ایک کہانی‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ کریں جس سے بنگالیوں کی فاطمہ جناح سے محبت کا پتا چلتا ہے۔
’صدارتی انتخابات کے بعد صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہو رہے تھے اور بنگالی روزنامہ سنگ باد کے مینجنگ ڈائریکٹر احمد الکبیر نیشنل عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر امیدوار تھے۔ اتفاق سے میجر اسحاق بھی ان دنوں مشرقی پاکستان آئے ہوئے تھے چنانچہ پروگرام بنا کہ ان کی انتخابی مہم میں ہم سب جائیں گے۔ دو گاڑیوں میں بھر کر ہم سارے لوگ روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک جگہ سڑک کٹی ہوئی تھی اور گاڑی کو گزارنے کے لیے تختوں کی ضرورت تھی۔ قرب و جوار کے گاؤں والے جمع ہوگئے تھے اور خاموش کھڑے ہماری پریشانی کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ گاڑی کے ڈرائیور نے جب ان سے تختوں کے لیے کہا تو انھوں نے بغیر کسی تکلف کے پوچھا: کس کی طرف سے آئے ہو؟‘
’جب ڈرائیور نے بتایا کہ فاطمہ جناح کی طرف سے آئے ہیں تو ان میں سے ایک بوڑھے سے آدمی نے بنگالی میں کہا، ’یہ بولو نا! تمھاری گاڑی کو تو ہم کندھے پر اٹھا کر پار کرا دیتے ہیں۔‘ اور دیکھتے دیکھتے تختوں کا انتظام ہوگیا اور دونوں گاڑیاں پار کرا دی گئیں تاہم فاطمہ جناح کے انتخابات کے بعد بنگالی آبادی میں مایوسی جس تیزی سے بڑھی اسی تیزی سے مجیب الرحمان اور عوامی لیگ کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔‘
فاطمہ جناح سے عوام کی الفت کے بہت سے واقعات کتابوں میں رقم ہیں، ہم نے نمونے کے طور پر دو واقعات بیان کیے۔
الطاف گوہر نے لکھا ہے کہ ’ملک کے دونوں حصوں کے گورنر جنہوں نے اپنے صوبے میں پوری سختی سے امن عامہ کو برقرار رکھا ہوا تھا اور جو حکومت کی مخالفت میں بلند ہونے والی ہر آواز کو دبا دیتے تھے، محترمہ کے نام پر عوام کے والہانہ ردعمل کو دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ وہ حیران تھے کہ لوگ اپنے ’محبوب قائد‘ اور ’سپہ سالار سیاست دان ‘ کو بھول کر محترمہ فاطمہ جناح کے پیچھے کیسے لگ گئے۔‘
ایوب خان سیاسی حمایت کے لیے مخدوم حسن محمود کے در پر بھی گئے جنہیں پہلے ایبڈو کے تحت نااہل قرار دیا جا چکا تھا۔ مولانا عبدالحمید بھاشانی سے ملنے کی کوشش بھی کی۔وہ بیمار ہوئے تو ان کے لیے ڈاکٹر بھجوایا جس پر فاطمہ جناح نے سوال اٹھایا: اگر واقعی مولانا بھاشانی وطن دشمن ہیں تو ان کے علاج کے لیے ڈاکٹر کیوں بھجوایا گیا؟
صدارتی الیکشن بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوتے تو ایوب خان اپنی تمام تر چالوں اور حربوں کے باوجود ہار جاتے لیکن اس الیکشن میں بنیادی جمہوریت کے 80 ہزار ارکان نے ووٹ ڈالنا تھا اس لیے ایوب خان نے دھونس اور دھاندلی سے الیکشن جیت ہی لیا۔
اور یہ ہونا ہی تھا کیونکہ نامور شاعرہ فہمیدہ ریاض کے بقول ’کرسی نشین فوجی جنرل ہار نہیں سکتے۔‘ لیکن یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ فاطمہ جناح کی دلیری اور استقامت نے ایوب خان کے اقتدار کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔