Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کارٹر پوری: انڈیا میں امریکی صدر کے نام پر گاؤں، معاملہ کیا ہے؟

امریکی صدر جمی کارٹر خاتون اول کے ہمراہ یکم جنوری 1978 کو انڈیا پہنچے تھے (فوٹو: ہندوستان ٹائمز)
تیسری دنیا کے کسی ملک میں پیدا ہو کر امریکہ جانے کی خواہش تو سمجھ آتی ہے، مگر امریکہ میں آنکھ کھولنے اور صدر تک بن جانے کے بعد انڈیا جیسے پسماندہ ملک اور وہ بھی نصف صدی قبل کا، میں جانے کی آرزو کچھ عجیب سی نہیں لگتی؟
ہے تو کچھ ایسی ہی بات، مگر اس وقت عجیب سے زیادہ دلچسپ لگتی ہے جب اس کی ڈوری سفارت کاری سے زیادہ جذبات سے جا ملتی ہو۔
یہ ذکر ہے چند روز پیشتر 100 برس کی عمر میں انتقال کر جانے والے سابق امریکی صدر جمی کارٹر کا، جن کا عہدہ سنبھالنے کے کچھ ہی عرصہ بعد انڈیا جانے کا دل کیا، جس پر مغربی میڈیا میں کُھسر پُھسر شروع ہو گئی کیونکہ اس وقت وہاں ایسی کوئی خاص بات تھی نہیں، نئی نئی ایمرجنسی ختم ہوئی تھی، ملک کے معاشی اور سکیورٹی کے حالات بھی زیادہ بہتر نہیں تھے۔

’ماں کی خواہش‘

جب جمی کارٹر نے بتایا کہ ان کی والدہ چاہتی ہیں کہ میں انڈیا جاؤں تو میڈیا میں ان کی والدہ کے انڈیا کے ساتھ لنک کی تلاش شروع ہوئی جو جلد ہی مل گیا۔
جمی کارٹر کی والدہ لیلین کارٹر جو پیشے کے لحاظ سے نرس تھیں، نے 60 کی دہائی میں پیس کورپس کی طرف سے انڈیا میں رضاکار کے طور پر اس وقت خدمات انجام دی تھیں جب ملک میں جزام کی بیماری پھیلی ہوئی تھی۔
لیلین کارٹر دارالحکومت دہلی سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہریانہ کے علاقے نصیر آباد کے صحت مرکز میں کام کرتی رہیں۔ لوگوں کے ساتھ ان کا تعلق انتہائی تیزی سے آگے بڑھا۔
 اس وقت جمی کارٹر تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے آبائی کام مونگ پھلیوں کی کاشت کاری سے وابستہ تھے اور کسی کو معلوم نہ تھا کہ ایک روز وہ صدر بھی بنیں گے۔

جمی کارٹر کی والدہ لیلین کارٹر نے 60 کی دہائی میں انڈیا کے علاقے نصیر آباد میں بطور رضاکار خدمات انجام دی تھیں (فوٹو: پیس کورپس)

لیلین کارٹر تقریباً دو سال اس علاقے میں رہیں اور واپس جانے کے بعد وہاں کے لوگوں سے خط و کتابت جاری رکھی۔ اس دوران جمی کارٹر نے سیاست میں قدم رکھا اور آگے بڑھتے بڑھتے صدر بن گئے۔
 

انڈیا کے لیے اڑان

یکم جنوری 1978 کو امریکہ کے 39ویں صدر جمی کارٹر خاتون اول اور وفد کے ہمراہ انڈیا پہنچے، اس وقت کے وزیراعظم مورار جی دیسائی نے ان کا استقبال کیا۔ سفارتی و ریاستی پروٹوکول کی سرگرمیاں نبھاتے ہوئے جب جمی کارٹر نے نصیرآباد کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو حکام کو خوشی ہونے کے ساتھ ساتھ فکر بھی ہوئی کیونکہ ایمرجنسی کے ’اثرات‘ ابھی پوری طرح ختم نہیں ہو پائے تھے۔

روایتی پگڑی اور رنگدار دوپٹہ

تین جوری 1978 کو جمی کارٹر اور اہلیہ روسالین کارٹر نصیر آباد پہنچے اور ان کی والدہ کی ’مسیحائی‘ سے متاثر مقامی لوگ انہیں دیکھنے کے لیے بے چین تھے۔
سخت سکیورٹی کی وجہ سے چند گنے چنے لوگوں کو ہی ان سے ملنے کی اجازت تھی تاہم اس کی زیادہ پابندی نہ ہوئی اور صدر بہت سے لوگوں سے ملے۔

خاتون اول روسالین کارٹر نے نصیر آباد کے دورے پر خوشی کا اظہار کیا تھا (فوٹو: فاکس نیوز)

اس موقع پر علاقے کے لوگوں نے صدر کو روایتی پگڑی پہنائی اور اہلیہ کو روایتی دوپٹہ اوڑھایا جو انہوں نے نصیر آباد سے جانے کے بعد بھی نہیں اتارا۔

نام کیسے پڑا؟

جمی کارٹر سے ملاقات کرنے والوں میں شامل قصبے کے سرپنچ نے خواہش کا اظہار کیا کہ ان کی والدہ کی خدمات اور جمی کارٹر کی محبت کے بدلے میں علاقے کا نام تبدیل کر کے ’کارٹر پوری‘ رکھنا چاہتے ہیں۔
اس پر جمی کارٹر نے حکومتی حکام سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ’کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘
اس کے کچھ ہی روز کاغذی کارروائی کے بعد علاقے کا نام تبدیل کر دیا گیا اور آج بھی اس کا نام کارٹر پوری ہی ہے۔

’گھر کی طرح ہی لگ رہا ہے‘

اس موقع پر خطاب میں جمی کارٹر نے کہا کہ ’میرے خاندان کو انڈیا سے خصوصی دلچسپی ہے اور اس کی وجہ والدہ کا یہاں قیام اور لوگوں کی جانب سے ملنے والا پیار ہے۔‘

گاؤں لوگوں کی جانب سے خاتون اول کو روایتی دوپٹہ اوڑھایا گیا (فوٹو: ہندوستان ٹائمز)

ان کے مطابق ’آج میری اور میری اہلیہ کی بڑی خواہش پوری ہو گئی اور گھر کی طرح ہی لگ رہا ہے۔‘

’جمی کارٹر سے جڑی ہر بات اہم ہے‘

کارٹر پوری میں آج بھی تین جنوری کو مقامی طور پر چھٹی ہوتی ہے اور جب نومبر 2002 میں ان کو نوبیل پرائز دیا گیا تو اس روز گاؤں میں جشن منایا گیا تھا اور ان کی سالگرہ کے موقع پر کیک بھی کاٹا جاتا رہا۔
آج قصبے کے چوک میں لگی جمی کارٹر کی تصویر پر لوگ پھول چڑھا رہے ہیں جبکہ ساتھ بورڈ پر لکھے یہ الفاظ بھی نظر آتے ہیں۔ ’دلی خراج تحسین، خدا ان کی روح کو سکون دے۔‘

جمی کارٹر اور خاتون اول کارٹر پوری کے رہائشیوں سے خطوط کے ذریعے رابطے میں رہے (فوٹو: انڈین ایکسپریس)

’وہ عام دن نہیں تھا‘

علاقے کے عمررسیدہ افراد آج بھی جمی کارٹر کی آمد کے دن کو یاد کرتے ہیں۔
اخبار ’دی ہندو‘ کے مطابق 71 سالہ اتر سنگھ کا کہنا ہے کہ جب سابق صدر کے انتقال کی صدر خبر سنی تو نظروں کے سامنے 46 برس قبل کے مناظر گھومنے لگے۔
’میں اور میرا بڑا بھائی کرتار سنگھ جن کا دو ماہ قبل ہی انتقال ہوا، سب سے پہلے جمی کارٹر سے ملے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کرتار پوسٹ ماسٹر تھا اور انہوں نے صدر کے دورے سے متعلق تحریری مواد کی فائل بنا رکھی تھی۔‘

علاقے کے عمررسیدہ افراد آج بھی جمی کارٹر کی آمد کے دن کو یاد کرتے ہیں (فوٹو: دی ہندو)

ان کے مطابق ’اب میں بھی ایسی فائل بنا کر اس روایت کو زندہ رکھوں گا اور اس کے بعد میرے بچے جاری رکھیں گے۔‘

گاؤں کے لوگوں سے خط و کتابت

جمی کارٹر نے واپسی کے بعد کئی برس تک لوگوں سے خطوط کے ذریعے رابطہ برقرار رکھا۔
ارجن سنگھ اور ان کے بھائی سورجن سنگھ جو اب 70 کے پیٹے میں ہیں، اس وقت کالج میں پڑھتے تھے۔
’والدین سے جمی کارٹر کی والدہ کے دور کی کہانیاں سن رکھی ہیں جب بطور رضاکار انہوں نے یہاں خدمات انجام دی تھیں۔‘

’دوپٹہ واپس نہیں آیا‘

67 سالہ بنساری دیوی نے دی ہندو کو بتایا کہ ’میرا بڑا بیٹا جو اب 50 سال کا ہے، اس وقت میری گود میں تھا اور اس روز گاؤں کے کچھ لوگ ان سے دوپٹہ ادھار مانگ کر لے گئے تھے جو صدر کی اہلیہ کو اوڑھانا تھا۔‘

کارٹر پوری کے رہائشی جمی کارٹر کی تصویر پر پھول چڑھا رہے ہیں (انڈین ایکسپریس)

انہوں نے ازراہ تفنن کہا کہ ’میرا دوپٹہ آج تک واپس نہیں آیا، مگر مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ اس نے مجھ سے زیادہ دنیا دیکھ لی۔‘

’سکیورٹی سخت، مگر پرسکون صدر‘

71 سالہ لالہ رام اس روز کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دورے سے دو روز قبل انتہائی سخت سکیورٹی کے انتظامات ہوئے۔ فوجی اور پولیس اہلکار گاڑیوں کے علاوہ گھوڑوں پر بھی گشت کر رہے تھے اور صدر کی آمد سے کئی  گھنٹے قبل ہی گاؤں والوں سے کہہ دیا گیا تھا کہ گھروں سے نہ نکلیں۔
ان کے مطابق ’صدر کافی پرسکون تھے، وہ سب سے ملے۔ گاؤں کے ایک ایک کونے تک گئے، یہاں تک کہ گوبر گیس پلانٹ بھی گئے اور کسی ناگواری کا اظہار نہیں کیا۔‘

یادوں میں محفوظ دورہ اور تحفے

رام سنگھ یادو اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ صدر کی آمد سے گاؤں کی اہمیت بڑھی۔
’اگرچہ وہ پھر کبھی نہیں آئے مگر خط کا جواب ضرور دیتے تھے۔‘
اس دورے کو علاقے کے لیے ’تحفہ‘ سمجھنے والے لوگوں کی جانب سے صدر اور اہلیہ کو مختلف تحفے پیش کیے گئے۔ جن میں مقامی موچی سے تیار کروائے گئے جوتے، سرخ اور پیلے رنگ کا دوپٹہ جو روایتی طور پر ماں بننے والی خواتین کو دیا جاتا ہے، بھی شامل تھا جبکہ کچھ مذہبی مورتیاں بھی دی گئیں۔
ان کو امید ہے کہ ’یہ چیزیں بھی جمی کارٹر کے گھر میں اسی طرح محفوظ ہوں گی، جیسا ان کا دورہ ہماری یادوں میں محفوظ ہے۔‘

شیئر: