Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پہلا ون ڈے: فائٹنگ سپرٹ کے باوجود پاکستانی ٹیم میں کس چیز کی کمی رہی؟

جیسے آج نسیم شاہ نے آسٹریلین سپنرز کو چھکے لگائے، ویسے پاکستانی پارٹ ٹائم سپنرز کو بھی پڑ سکتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
  شعیب اختر مزے کے من موجی آدمی ہیں، کرکٹ کھیلتے تھے تو اپنی جارحانہ تیز ترین گیندوں سے مخالف بلے بازوں کو چکرا دیتے، کتاب لکھی تو اس میں بھی اتنا کھل کر بولے کہ کئی تنازعات کھڑے ہوئے۔ آج کل کمنٹری کرتے ہیں تو وہ بھی بن داس۔ جو جی میں آئے کہہ ڈالتے ہیں۔ باتیں ان کی مزے کی ہوتی ہیں۔
شعیب اختر کے زمانے میں جب آسٹریلیا دنیا کی سب سے مضبوط ترین کرکٹ ٹیم تھی، تب آسٹریلیا بمقابلہ آئی سی سی کرکٹ الیون کی سیریز ہوئی۔ میلبورن میں تین ون ڈے میچز کھیلے گئے اور سڈنی میں ایک ٹیسٹ ہوا۔
آسٹریلیا تمام میچز یک طرفہ طور پر جیت گیا، آئی سی سی کرکٹ الیون کے سپرسٹارز ڈھیر ہوگئے۔ ٹیسٹ میں برائن لارا، ڈریوڈ، انضمام الحق، گریم سمتھ، سہواگ، جیک کیلس، مارک باؤچر وغیرہ بری طرح ناکام ہوئے، ون ڈے میچز بھی یک طرفہ رہے۔
بولنگ میں شعیب اختر، نتنی، فلنٹوف، پولاک، ہارمیسن، مرلی دھرن، وٹوری وغیرہ تھے، ان کا جادو بھی نہیں چلا۔
  شعیب اختر ایک بار اس سیریزکا ذکر کر رہے تھے، بتانے لگے کہ پہلے میچ سے قبل میں نے نیٹ میں ڈریوڈ کو باؤلنگ کرائی تاکہ اس کا ردھم بنے۔ شعیب نے تیز رفتار شارٹ پچ گیندیں کرائیں جو اس کے سینے، پسلیوں میں لگیں۔ ڈریوڈ نے شکوے سے شعیب کی طرف دیکھا تو بقول شعیب انہوں نے پنجابی میں کہا، پائیان اے آسٹریلیا اے، ایتھے انج ای گینداں آن گیاں (بھائی جان یہ آسٹریلیا کی پچیں ہیں، یہاں ایسے ہی گیند اٹھ کر اوپر آئے گی)۔
 پاکستان اور آسٹریلیا کا میلبرن میں پہلا ون ڈے میچ دیکھ کر یہی واقعہ یاد آیا۔ پاکستانی مڈل آرڈر بلے باز کامران غلام جب آوٹ ہو کر جا رہے تھے تو سوچا کہ کوئی انہیں یہ بات یاد دلائے کہ بھائی صاحب یہ ملتان کی لو باؤنس سلو پچ نہیں بلکہ میلبرن ہے، جہاں گیند پڑ کر اٹھے گا تو پنجابی محاورے کے مطابق ناسوں میں آ کر لگے گا۔ کامران غلام مسکرا مسکرا کرآسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز سے جوک مار رہا تھا، مگر کمنز نے ہنستے ہنستے ہی ایسا تیز شارٹ پچ کرایا جو سیدھا بھائی کامران غلام کے ناک کی طرف لپکا، وہ کیپر کو کیچ دے کر تاسف سے سر ہلاتے چلتے بنے۔ ایسی شارٹ پچ گیندوں کو ڈیل کرنے کی کوشش میں نائب کپتان سلمان آغا بھی وکٹ گنوا بیٹھے۔

 پاکستانی ٹیم میں فائٹنگ سپرٹ نظر آئی

 پاکستان پہلا ون ڈے کلوز مارجن سے ہار گیا۔ آسٹریلیا جیت گیا، مگرمیچ میں پاکستانی ٹیم کی فائٹ نظر آئی۔ سب سے قابل تعریف یہی بات ہے۔ کپتان کی مثبت اپروچ، لوئر آرڈر کی بھرپور فائٹ اور فاسٹ بولرز کا میچ کے درمیان میں جان مار کر اس کا پانسہ پلٹنے کی کوشش قابل تعریف تھی۔
ایک وقت میں میچ یک طرفہ ہوچکا تھا، سٹیو سمتھ اور انگلس کی پارٹنرشپ نے میچ آسٹریلیا کے حق میں کر دیا تھا۔ پھر اچانک وکٹیں گریں۔ پہلے شاہین شاہ آفریدی نے آؤٹ کیا، پھر حارث رؤف نے دو گیندوں پر دو وکٹیں لے کر جھٹکا پہنچایا۔

آج کے میچ میں سب سے زیادہ تباہ کن بولنگ حارث روف کی رہی۔ ((فوٹو: اے ایف پی)

 ایک وقت میں لگ رہا تھا کہ پاکستان شاید یہ میچ جیت جائے۔ ہماری بدقسمتی کہ بعد چانسز مس ہوئے جو آسٹریلیا کے حق میں گئے۔ پھر آسٹریلوی کپتان کمنز کی پرسکون ذہن کے ساتھ کھیلی عمدہ اننگ آڑے آئی اور وہ فتح سے ہمکنار ہوئے۔
بہرحال یہ اندازہ ہوا کہ اگر سکور کچھ زیادہ ہوتا تو پاکستان میچ جیت بھی سکتا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ سب ایک ٹیم بن کر کھیل رہے ہیں۔ بابر، شاہین، نسیم، حارث، رضوان سب متحد اور یکسو نظر آئے۔

آسٹریلیا کی باؤنسی پچ تباہ کن رہی

آسٹریلیا میں ہمیشہ جنوبی ایشیائی ٹیموں کو وہاں کی باؤنسی اور تیز پچوں سے مسئلہ رہا ہے۔ پرتھ کی پچ تیز ترین سمجھی جاتی ہے، مگر میلبرن میں بھی پچ میں خاصا باؤنس ہے، گیند پڑ کر تیز نکلتی ہے۔ ایڈیلیڈ کی پچ درمیانے درجے کی ہے جبکہ سڈنی واحد شہر ہے جہاں کی پچ جنوبی ایشیا سے ملتی جلتی ہے۔
وہاں ٹیسٹ میں تیسرے دن سے گیند ٹرن لینا شروع کرتی ہے۔ آسٹریلیا شین وارن کے عروج میں بھی سڈنی میں دو سپنر (وارن، میکگل) کوکھلایا کرتا تھا۔
پہلا ون ڈے میلبرن میں تھا اور پچ تیز اور باؤنسی تھی۔ آسٹریلین فاسٹ بولرز کو ابتدا ہی میں بریک تھرو ملا، جب آوٹ آف فارم عبداللہ شفیق باہر جاتی گیند کو چھوڑتے ہوئے بلے کا کنارہ دے بیٹھے جبکہ صائم ایوب بولڈ ہوگئے۔ دونوں وکٹیں سٹارک نے لیں۔ پھر بابر اور محمد رضوان نے اچھی بیٹنگ کی۔ بابر اعظم اچھے ٹچ میں نظر آئے، انہوں نے چار خوبصورت چوکے بھی لگائے اور وہ فاسٹ بولرز کو اعتماد سے کھیل رہے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ بابر اعظم ٹیم کے واحد ورلڈ کلا س بلے باز ہیں، کچھ عرصے سے وہ آؤٹ آف فارم ہیں، مگر پہلے میچ میں وہ اچھا کھیلے۔
ایڈم زمپا کی ایک تیز لیگ بریک کو وہ بیک فٹ پر کھیلتے ہوئے بولڈ ہو گئے ورنہ ایک اچھی اننگ کھیلنے کے موڈ میں تھے۔
رضوان نے بھی سمجھداری سے اچھی بیٹنگ کی، وہ تیز باؤنسرز کو عمدگی سے چھوڑ دیتے، سنگلز لیتے رہے اور موقع ملنے پر شاٹ بھی۔ سٹارک کو فائن لیگ پر ایک خوبصورت چھکا لگایا۔ کمنٹیٹر بار بار اس سکوپ ٹائپ غیرروایتی شاٹ کو دکھاتے رہے۔

  یہ بات بار بار محسوس ہوئی کہ پاکستانی ٹیم کی آسٹریلین پچوں کے لیے مناسب تیاری نہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

 کامران غلام اور سلمان آغا کے آوٹ ہونے کا اوپر تذکرہ آ گیا۔ عرفان خان نیازی سمجھداری سے کھیلے۔ انہوں نے وکٹ پر ٹھیرنے کی کوشش کی اور سنگلز لیتے رہے، وہ اچھے ہٹر ہیں، مگر بلے کو روک کر کھیل رہے تھے کہ وکٹیں زیادہ گر گئی تھیں۔
عرفان نیازی کی بدقسمتی کہ ایک سنگل لیتے ہوئے وہ سلپ ہوگئے اور اس کی پاداش میں رن آوٹ ہونا پڑا۔ شاہین شاہ آفریدی نے تیز جارحانہ اننگ کھیلی،سٹارک کے ہاتھوں بولڈ ہونے سے پہلے وہ 18 گیندوں پر 24 رنز بنا چکے تھے۔ آج کا دن بیٹنگ میں نسیم شاہ کا تھا، انہوں نے سپنرز کو باہر نکل کر شاندار چار چھکے لگائے اور 40 رنز بنائے۔ اگر نسیم شاہ رنز نہ بناتے تو پاکستان کبھی 200 رنز تک نہ پہنچ پاتا۔ 160، 170 پر ڈھیر ہو جاتا اور میچ بالکل ہی یک طرفہ ہو جاتا۔

پاکستان کی ناکافی تیاری

  یہ بات بار بار محسوس ہوئی کہ پاکستانی ٹیم کی آسٹریلین پچوں کے لیے مناسب تیاری نہیں۔ دراصل پاکستان کے کئی کھلاڑی ابھی ملتان، پنڈی کی سلو، لوباؤنس پچوں پر ٹیسٹ کرکٹ کھیل کر آئے ہیں۔ پاکستان کی تقریباً پوری مڈل آرڈر بیٹنگ کا یہ حال تھا۔
عبداللہ شفیق، صائم ایوب، کامران غلام، سلمان آغا، محمد رضوان، ان سب کو سلو پچز کے بعد یکایک اتنی تیز اور مختلف پچوں پر کھیلنا پڑ رہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف بولرز کا معاملہ بھی دلچسپ ہے۔ شاہین شاہ اور نسیم شاہ کو آخری دو ٹیسٹ میچز میں باہر بٹھایا گیا۔ انہیں بھرپور ردھم میں آنے کے لیے دو تین میچز درکار ہیں اور تب تک ون ڈے سیریز ہی ختم ہوجائے گی۔
حارث روف نے ٹیسٹ سیریز نہیں کھیلی، البتہ وہ ڈومیسٹک ون ڈے ٹورنامنٹ کھیلے۔ حارث کو آسٹریلین پچوں پر کھیلنے کا خاصا تجربہ ہے، میلبرن میں وہ ویسے بھی بگ بیش کے بہت سے میچز کھیل چکے ہیں۔ آج کے میچ میں سب سے زیادہ تباہ کن بولنگ حارث روف کی رہی، پہلے چار اوورز میں وہ مہنگے رہے، 35 رنز دیے، تاہم بعد میں تین وکٹیں بھی لیں اور اپنی سپیڈ، باؤنس سے آسٹریلین ٹیم کو ہلا کر رکھ دیا۔ محمد حسنین ڈومیسٹک ٹورنامنٹ کے ٹاپ وکٹ ٹیکر رہے، اسی پرفارمنس پر ٹیم میں آئے۔

آسٹریلیا میں ہمیشہ جنوبی ایشیائی ٹیموں کو وہاں کی باؤنسی اور تیز پچوں سے مسئلہ رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

حسنین نے جن شارٹ پچ گیندوں پر ڈومیسٹک میچز میں وکٹیں لیں، آسٹریلیا کے خلاف میلبورن میں وہ ویسی گیندوں پر خوب پٹے۔ خاص کر انگلس نے زوردار شاٹس کھیلے۔ نسیم شاہ کی گیندوں کا اینگل بہتر نہیں تھا، پانچ وائیڈ گیندیں بھی کرائیں اور کئی لوز گیندوں پر چوکے کھائے۔ شاہین شاہ نے البتہ اچھی بؤلنگ کرائی اور وکٹیں بھی لیں۔

 سیریز کے لئے فیصلہ کن فیکٹرز

پاکستان کو اگلے میچز کے لیے سوچنا ہو گا کہ عبداللہ شفیق کو کتنے مزید چانسز دیے جائیں؟ دوسری طرف کامران غلام کو مزید میچ تو ملیں گے، مگر بہرحال تیز رفتار شارٹ گیندوں کے آگے وہ ایکسپوز ہوئے ہیں۔ وہ سپن کو زیادہ اچھا کھیلتے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ پاکستانی سلیکٹرز سعود شکیل کو ون ڈے سکواڈ کے لیے سلیکٹ کرتے۔ سعود کی تکنیک کامران غلام سے زیادہ بہتر ہے۔ پاکستانی مڈل آرڈر بیٹنگ کو وکٹ پر ٹھیرنا ہوگا۔ بابر اعظم کو بھی لمبی اننگ کھیلنا چاہیے۔
ایک اور فیکٹر جو آج کے میچ میں نمایاں نہیں ہوا، مگر وہ بہرحال کنسرن ضرور ہے۔ پاکستان نے آج چار فاسٹ باولرز کھلائے اور درحقیقت چار ہی سپیشلسٹ بولرز تھے۔ بیٹنگ مضبوط کرنے کے لیے سات بیٹر کھلائے، مگر سوچنا ہوگا کہ پانچویں بولر کے 10 اوورز کے لیے پارٹ ٹائم سپنرز سلمان آغا اور صائم ایوب پر انحصار خطرناک ہے۔
جیسے آج نسیم شاہ نے آسٹریلین سپنرز کو چھکے لگائے، ویسے پاکستانی پارٹ ٹائم سپنرز کو بھی پڑ سکتے ہیں۔ اس کا حل نکالنا ہو گا۔ پانچ سپیشلسٹ بولرز کھلائیں، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ چوتھا فاسٹ بولر عامر جمال کو کھلائیں، وہ بوقت ضرورت اچھی بیٹنگ کر لیتے ہیں، یوں بیٹنگ ڈیپتھ بہتر ہوجائے گی۔
عرفان خان نیازی کی تعریف کرنا ضروری ہے۔ اس نوجوان نے سمجھداری سے وکٹ پر ٹھیرنے کی کوشش کی۔ موقع ملتا تو شائد پاورہٹنگ بھی کرتا۔ فیلڈنگ میں عرفان نے کمال کر دکھایا۔ دو بہت اچھے کیچ پکڑے اور اپنی شاندار فیلڈنگ سے ٹیم میں جان ڈال دی۔
وائٹ بال کرکٹ میں پاکستان کو ایسے ہی فیلڈرز درکار ہیں۔

شیئر: