عام موٹرسائیکل اب بن سکے گی الیکٹرک بائیک، لیکن کیسے؟
عام موٹرسائیکل اب بن سکے گی الیکٹرک بائیک، لیکن کیسے؟
جمعرات 9 جنوری 2025 5:57
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
مختار احمد راولپنڈی کے رہائشی ہیں اور اُن کے پاس ایک پرانی 70 سی سی موٹرسائیکل ہے جس کے انجن کی کارکردگی بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ متاثر ہوئی ہے۔
مختاز احمد اس بائیک سے تین کام لیتے ہیں۔ وہ دن میں اسے رائیڈ ہیلنگ پلیٹ فارم پر چلاتے ہیں، رات کے اوقات میں فوڈ ڈیلیوری کا کام کرتے ہیں اور بیوی بچوں کے ساتھ کہیں آنا جانا ہو تو یہ اُن کے گھریلو استعمال میں بھی آتی ہے۔
وہ انجن کی خراب ہوتی ہوئی کنڈیشن کے پیشِ نظر یہ چاہتے ہیں کہ وہ اسے فروخت کر کے نئی موٹرسائیکل خرید لیں لیکن اُن کے لیے فی الحال یہ ممکن نہیں۔
وہ نئی بائیک خرید بھی لیں تو اُس کی مرمت کے علاوہ فیول کا خرچ تو ہو گا ہی۔
وہ اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ انہیں کسی نے مشورہ دیا کہ وہ الیکٹرک بائیک خرید لیں۔
وہ جب الیکٹرک بائیک خریدنے گئے تو معلوم ہوا کہ اس کی قیمت تو شروع ہی اڑھائی لاکھ روپے سے ہوتی ہے اور اس پر صرف ایک سواری ہی بیٹھ سکتی ہے۔
مختار احمد اور ان جیسے لاکھوں شہریوں کی پریشانی کو مدّنظر رکھتے ہوئے اب پاکستان میں پیٹرول پر چلنے والی کسی بھی موٹر سائیکل کو الیکٹرک بائیک میں تبدیل کرنے کے لیے مکمل کٹ مقامی طور پر تیار کر لی گئی ہے جس کے بارے میں جلد ہی وزیراعظم شہباز شریف کو بریفنگ دی جائے گی تاکہ حکومت سے اس کے استعمال کی اجازت مل سکے۔
یہ کٹ 27 ممالک پر مشتمل ادارے کمیشن آن سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ اِن ساؤتھ (کامسیٹس) نے تیار کی ہے۔
کامسیٹس کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں اس وقت دو کروڑ اسی لاکھ 70 ہزار سے زیادہ موٹرسائیکلیں رجسٹرڈ ہیں جو پاکستان میں ٹرانسپورٹ کے شعبے میں استعمال ہونے والے ایندھن کا 60 فیصد استعمال کرتی ہیں۔
ان موٹر سائیکلوں کو اگر الیکٹرک بائیک میں تبدیل کر دیا جائے تو ناصرف پاکستان کے فیول بل میں تین سے چار ارب ڈالر کی کمی آ سکتی ہے بلکہ موٹر سائیکل رکھنے والے شہری کو بھی ماہانہ 10 ہزار روپے تک کی بچت ہو گی۔
اسی طرح پاکستان میں فضائی آلودگی اور متبادل توانائی کے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں بھی پیش رفت ہوگی۔
بائیک میں استعمال ہونے والی موٹر اور بیٹری مقامی طور تیار کی گئی ہے جو بیرون ملک سے منگوائی جانے والی کٹ سے کم و بیش 30 فیصد کم قیمت ہو گی اور کمرشل بنیادوں پر مینوفیکچرنگ کی صورت میں اس کی قیمت میں مزید کمی آنے کی بھی توقع ہے۔
الیکٹرک بائیک کٹ تیار کرنے والے کامسیٹس کے ٹیکنالوجسٹ محمد اسلم آزاد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم نے یہ کِٹ اس انداز سے ڈیزائن کی ہے کہ اس کٹ پر جو خرچ آئے گا وہ چھ ماہ سے ایک سال کے فیول کی بچت آنے سے پورا ہو جائے گا۔ اس وقت حکومت نے الیکٹرک وہیکل یا بائیک کے لیے جتنے بھی لائسنس دیے ہیں وہ سب درآمد پر انحصار کر رہے ہیں جب کہ ہم نے یہ کٹ مکمل طور پر پاکستان میں ہی تیار کی ہے۔‘
انہوں نے اس کِٹ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’موٹر بائیک درحقیقت فیملی کار کا کام کرتی ہے جب کہ درآمد شدہ کٹ پورے خاندان کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی۔ ہم نے اس کِٹ کو ڈیزائن ہی کچھ یوں کیا ہے کہ اس پر جتنا مرضی لوڈ ڈال دیا جائے تو پھر بھی اسے موجودہ گیئر کے ساتھ بیلنس کر کے چلایا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’الیکٹرک بائیک کٹ کے ساتھ ایک ایپ بھی تیار کی گئی ہے جو بیٹری کے ایک ایک سیل کے بارے میں اطلاع فراہم کرتی ہے۔ اس لیے اس میں کسی قسم کی دھوکہ دہی کا امکان نہیں ہے۔‘
محمد اسلم آزاد نے کہا کہ ’الیکٹرک کٹ تیار کرنے کے بعد ہم پچھلے آٹھ مہینے سے اس کی ٹیسٹ ڈرائیو کر رہے ہیں جسے آؤٹ سورس کرکے پاس بھی کروا چکے ہیں جب کہ وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے تمام کوالٹی چیکس بھی پاس کیے جا چکے ہیں۔ الیکٹرک بائیک کٹ کے پیٹنٹ کی منظوری لینے کے بعد ڈائی یعنی سانچوں کی منظوری بھی لے لی ہے اور حکومت کی جانب سے اجازت ملنے کے کچھ ہی مہینوں میں باضابطہ پروڈکشن شروع کرنے کے قابل ہو چکے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس وقت مارکیٹ میں اڑھائی لاکھ سے لے کر چار لاکھ روپے تک کی قیمت کی الیکٹرک بائیکس موجود ہیں۔ ان کی ایک چارجنگ میں 50 سے 100 کلومیٹر تک سفر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک بھی بائیک دو یا تین لوگوں کو بٹھا کر اوورہیڈ برج کراس نہیں کر سکتی۔ دامنِ کوہ یا مری جیسے پہاڑی علاقوں میں تو جانے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔‘
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ’اس بیٹری کی چارجنگ کے لیے کسی الگ چارجنگ سٹیشن کی ضرورت نہیں بلکہ گھر میں لگے ہوئے کسی بھی بجلی کے سوئچ میں پلگ لگا کر بیٹری چارج کی جا سکتی ہے اور اس سے بجلی کے بل پر بھی کوئی بڑا فرق بھی نہیں پڑے گا۔‘
محمد اسلم آزاد نے بتایا کہ ’ہم نے اس میں تین طرح کی بیٹریاں رکھی ہیں جو 50 سے 60 کلومیٹر سے لے کر 100 کلومیٹر تک کی طاقت کی حامل ہوں گی تو یوں قیمت میں بھی فرق آئے گا۔ کوئی اگر بعد میں بیٹری بدلنا چاہے گا تو بھی وہ صرف پہلے والی اور نئی والی بیٹری کی قیمت میں موجود فرق کی رقم ادا کرکے نئی اور بہتر پاور کی بیٹری لگوا سکے گا۔‘
کامسیٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نفیس زکریا نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پوری دنیا اس وقت الیکٹرک وہیکلز بنانے کی تگ و دو کر رہی ہے۔ ہم موٹربائیک کو الیکٹرک بائیک میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے موٹر سائیکل کا انتخاب اس لیے کیا کہ پاکستان میں اس وقت 28 ملین سے زائد موٹرسائیکلیں رجسٹرڈ ہیں اور دن کے کسی بھی حصے میں 22 سے 25 ملین موٹرسائیکلیں سڑکوں پر موجود ہوتی ہیں۔ 90 فیصد موٹرسائیکلیں ان لوگوں کے پاس ہیں جو ورکنگ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ بائیک اُن کے لیے فیملی کار کا کام کرتی ہے۔ یعنی میاں بیوی دو بچوں کے علاوہ سودا سلف کے ہمراہ اس پر سفر کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ انجینیئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ نے 51 کمپنیوں کو الیکڑک بائیک بنانے کے لائسنس دیے ہیں جو کہ تمام تر پرزے بیرون ملک سے منگوا رہے ہیں جسے مقامی طور پر اسمبل کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس وقت الیکٹرک وہیکل کی جو دوڑ ہے یہ اس کا جواب نہیں ہے بلکہ مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہم مقامی سطح پر ٹیکنالوجی تیار کریں اور موجودہ موٹرسائیکلوں کو الیکٹرک بائیک میں تبدیل کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مقامی طور پر کِٹ تیار کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ کو اب کسی اور پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔ آپ کے پاس اپنی ٹیکنالوجی ہو گی جس میں آپ بوقت ضرورت جدت لا سکیں گے۔‘
نفیس زکریا نے کہا کہ ’الیکٹرک بائیک سے متعلق جب وزیراعظم کو تجویز بھیجی تو انہوں نے اس تجویز کو پسند کیا اور کہا کہ آپ کی تجویز قبول کیے جانے کے قابل ہے، بس پریزنٹیشن تیار کریں۔ اب ہم وزیراعطم کو پریزینٹیشن دینے کے لیے تیار ہیں، وہ جب بھی بلائیں گے تو ان کو بریفنگ دیں گے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’ہم فوری طور پر جو پیداواری یونٹ لگانا چاہتے ہیں جس کی ایک دن میں 1500 کٹ تیار کرنے کی صلاحیت ہو گی۔ اگر صرف اسی پر انحصار کریں تو 50 سال لگ جائیں گے چناں چہ ضروری ہے کہ ایک کے بجائے کئی پلانٹس لگائے جائیں تاکہ جلد از جلد ای وی بائیکس سڑکوں پر لائی جا سکیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’وزیراعظم نے مجھ سے یہ بھی پوچھا تھا کہ ہم نئی بائیک کیوں نہیں لے کر آتے تو میں نے ان کو بتایا کہ ایک تو نئی بائیک مہنگی ہے اور جس کے پاس پہلے سے بائیک موجود ہے اس کی تو بالکل بھی استطاعت نہیں کہ وہ نئی ای وی بائیک لے۔ یہ بائیکس اگر سڑکوں پر موجود رہیں گی تو فیول بل، ماحولیاتی آلودگی سمیت دیگر کئی مسائل حل نہیں ہوں گے۔‘