Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش کی ’خفیہ جیلوں‘ میں بچوں کو قید کرنے کا انکشاف: تحقیقاتی رپورٹ

حسینہ واجد کی حکومت پر بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
بنگلہ دیش میں جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم حسینہ واجد کے دورِ حکومت میں بچوں سمیت سینکڑوں افراد کو خفیہ حراستی مراکز میں رکھا گیا۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق کمیشن نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں کہا کہ کم از کم چھ بچوں نے اپنی ماؤں کے ساتھ کئی ماہ گزارے، اور بچوں کو دودھ فراہم نہ کر کے تفتیش میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔
بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت نے طلبہ تحریک کے بعد انڈیا فرار ہونے والی سابق وزیراعظم حسینہ واجد کے وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔ ان کی حکومت پر بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی، سیاسی مخالفین کے ماورائے عدالت قتل اور سینکڑوں افراد کو اغوا اور لاپتا کرنے کے الزامات ہیں۔
کمیشن نے کہا کہ اس کے پاس ’کئی تصدیق شدہ کیسز ہیں جن میں مائیں بچوں سمیت لاپتا ہو گئیں۔‘ ایک کیس کا حوالہ دیا گیا جس میں ایک حاملہ ماں کو دو بچوں سمیت حراست میں لیا گیا اور تشدد کیا گیا۔
کمیشن کے مطابق ایک عینی شاہد نے تحقیقاتی ٹیم کو ’ریپڈ ایکشن بٹالین‘ نامی فورس کے حراستی مرکز میں ایک کمرہ دکھایا جہاں ایک بچی کو ماں سمیت رکھا گیا تھا، جو کبھی واپس نہیں آئی۔
ایک اور کیس میں ایک شای شدہ جوڑے اور ان کے بچے کو حراست میں رکھا گیا اور ’ذہنی تشدد‘ کے لیے بچے کو دودھ دینے سے انکار کیا گیا۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی طرف سے اغوا کیے جانے والے دو سو افراد ابھی تک لاپتا ہیں۔
کمیٹی ممبر شہزاد حسین نے کہا کہ بچ جانے والے افراد تشدد کرنے والے افسران کی درست شناخت نہیں کر سکے لیکن ان کی گواہی سے ذمہ داران کی نشاندہی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’اس طرح کی کیسز میں کمانڈر کو جوابدہ ٹھہرائیں گے۔‘

 

شیئر: