Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی کرکٹ ٹیم خود اپنے کھودے گڑھے میں گر گئی، عامر خاکوانی کا تجزیہ

سیریز کے دوسرے میچ میں ویسٹ انڈیز نے پاکستان کو 120 رنز سے شکست دی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سچی بات تو یہ ہے کہ قصور ہم سب کا ہے، پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کی پے در پے شکستوں سے اس قدر مایوس اور شکست خوردہ ہو چکے تھے کہ جب عاقب جاوید نے انگلینڈ کے خلاف دوسرے اور تیسرے ٹیسٹ میچ میں ٹرننگ سپن پچوں کا فارمولا آزمایا اور پاکستان دونوں ٹیسٹ جیت کر سیریز جیت گیا تو پاکستان میں کرکٹ سے محبت کرنے والے لوگ خوشی سے اچھلنے لگے۔ تب کسی نے یہ نہ سوچا کہ اس قدر انتہائی سطح پر جا کر مشکل ٹرننگ پچز بنانا نہ انصاف ہے اور نہ ٹیسٹ کرکٹ کی خدمت۔
دنیا میں کہاں ایسا ہوتا ہے کہ پچ بڑے ہیٹر فین لگا کر خشک کی جائے یا پھر کسی پانچ روزہ میچ کھیلے جانے کے بعد اسی پچ پر دوبارہ میچ کرایا جائے۔ ایسا کہاں ہوتا ہے؟ ہم نے مگر یہ سب کیا۔ لوگ اسی پر خوش تھے کہ چلیں پاکستان جیتا تو سہی، کوئی جیت کا فارمولا ہمارے ہاتھ بھی آیا۔
فارمولا اس بار نہیں چل پایا
ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں بھی انگلینڈ کے خلاف جیت والا فارمولا آزمایا گیا بلکہ اس بار تو یہ غضب ہوا کہ پہلے دن ہی گیند ٹھیک ٹھاک ٹرن ہونا شروع ہو گیا۔ پاکستان کی خوش قسمتی کہ پہلی اننگ میں سعود شکیل اور محمد رضوان وکٹ پر ٹھہر گئے اور اچھی ذمہ دارانہ اننگ کھیل ڈالی جس کا فائدہ ہوا اور پاکستان ٹیسٹ جیت گیا۔
دوسرے ٹیسٹ میں مگر بساط الٹ گئی۔ ہمارے مہرے پٹ گئے اور ویسٹ انڈین ٹیم کے وزیر، رخ اور فیل کارگر ثابت ہوئے۔ آج دوسرے ٹیسٹ کا فیصلہ کن دن تھا اور پاکستانی ٹیم صرف 133 رنز پر ہمت ہار گئی، 120 رنز سے شکست ہوئی۔ یاد رہے کہ ویسٹ انڈیز کو پاکستان میں 34 برس بعد کسی ٹیسٹ میچ میں فتح حاصل ہوئی ہے۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ مہمان ٹیم میں بعض ناتجربہ کار کھلاڑی بھی شامل تھے۔
پاکستان سے کیا غلط ہوا؟
دوسرے ٹیسٹ میچ کی بات کریں تو پاکستانی ٹیم کی پلاننگ اور کھیل میں دو بڑی غلطیاں نظر آئیں۔ ٹاس پاکستان ہار گیا، جیت جاتا تو اس نے بھی پہلے خود ہی بیٹنگ کرنا تھی۔ ویسے تو اس پچ پر اس سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑا، کیونکہ پہلے گھنٹے ہی سے ٹرن ہونا شروع ہو گیا تھا۔
پاکستان نے ٹیسٹ ڈیبیو کرانے والے فاسٹ بولر کاشف علی سے صرف تین اوور کرائے، حالانکہ اس نے ایک وکٹ بھی لے لی۔ فیصلہ ٹھیک رہا کیونکہ فوری بعد نعمان علی کی گھومتی گیندوں نے ویسٹ انڈینز بلے بازوں کو چکرا دیا۔ نعمان نے ٹیسٹ ہیٹرک بھی کی، وہ واحد سپنر بنے جنہوں نے ٹیسٹ میں ہیٹرک کی۔

بابر اعظم نے صرف 31 رنز سکور کیے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان نے ویسٹ انڈین ٹیم کے صرف 54 رنز پر آٹھ آوٹ کر لیے تھے۔ تب لگ رہا تھا کہ 60، 70 پر پوری ٹیم آؤٹ ہو جائے گی۔ ایک زمانے میں عبدالقادر نے اپنی بولنگ سے یہ کارنامہ انجام دیا تھا اور ویوین رچرڈ جیسے بلے باز کی موجودگی میں بھی ان کی ٹیم بمشکل 50 کا ہندسہ عبور کر پائی تھی۔
پاکستانی سپن بولرز ایسے میں چوک گئے اور ضرورت سے زیادہ پرجوش ہو گئے۔ انہوں نے ہر گیند پر وکٹ لینے کی کوشش میں ایسی ترغیب آمیز گیندیں کرائیں جن پر ویسٹ انڈین لوئر آرڈرز نے تیزی سے رنز بنائے، یہ غلطی تھی۔ وہ نپی تلی گیندیں کراتے رہتے، پچ ایسی تھی کہ گیند ازخود ٹرن ہو رہی تھی اور باؤنس بھی غیر یقینی تھا۔ لوئر آرڈر بلے باز اپنی وکٹیں خود تھرو کر دیتے مگر پاکستانی بولرز نے رنز لیکیج خاصی کی۔ آخری پارٹنر شپ میں ویسٹ انڈیز نے 68  رنز بنائے جو ایسی پچ پر بہت زیادہ تھے۔
دوسری بڑی غلطی ویسٹ انڈیز کی دوسری اننگ میں کی گئی جب ویسٹ انڈین کپتان بریتھویٹ نے جارحانہ بیٹنگ شروع کی، تو پاکستانی سپنرز گھبرا کر فلائٹ دینے کے بجائے تھوڑی تیز اور گیند پیچھے کرنے لگے۔ کرکٹ کی اصطلاح میں لینتھ کھینچ لی۔ اس سے نقصان ہوا، ویسٹ انڈیز نے تیزی سے رنز سکور کیے اور پاکستانی سپنرز پہلی اننگ کی جادوگری نہ دکھا پائے۔ کپتان شان مسعود کی بھی غلطی کہ وہ اچھا پلان بی نہ بنا پائے۔ ملتان جیسی پچ پر اگر کوئی ٹیم دوسری اننگ میں ڈھائی سو کے قریب رنز کر جاتی ہے تو پھر اس کی جیت تقریباً یقینی ہوجاتی ہے۔ ویسے ہی ہوا۔
لیفٹ آرم سپنر کا جادو
یہاں یہ فیکٹر بھی ذہن میں رکھیں کہ پاکستانی بیٹنگ ہمیشہ سے لیفٹ آرم سپن بولنگ کے مقابلے میں قدرے کمزور اور متزلزل رہی ہے۔ حتیٰ کہ مصباح الحق کے دور میں بھی سری لنکن کھبے سپنرز پاکستانی ٹیم کو پریشان کر دیتے تھے۔
نیوزی لینڈ کا سینٹنر ہو یا انڈین کلدیپ یادو، جنوبی افریقن کیشو مہاراج، بنگلہ دیشی شکیب الحسن اور حتیٰ کہ انگلینڈ کا مونٹی پنیسر جیسا اوسط لیفٹ آرم سپنر بھی پاکستان کے خلاف خاصا کامیاب رہا۔ حالیہ سیریز میں بھی ویسٹ انڈین سپنر وراکین نے پاکستانی بلے بازوں کو بہت پریشان کیا۔ دوسرے ٹیسٹ میں 9 وکٹیں جبکہ پہلے میں 10 وکٹیں لیں اور اس کے بعد کیچز ڈراپ بھی ہوئے۔

ویسٹ انڈیز نے تیزی سے رنز سکور کیے اور پاکستانی سپنرز پہلی اننگ کی جادوگری نہ دکھا پائے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دیگر کمزوریاں کیا رہیں؟
ایک بڑی کمزوری تو خود کپتان ہیں۔ وہ اچھی فارم میں ہیں، ابھی پچھلے مہینے جنوبی افریقہ کے خلاف سنچری بنائی۔ پچھلے میچ میں نصف سنچری بھی بنائی مگر نجانے کیوں شان مسعود کے اعصاب پر انگلش جارحانہ بیٹنگ سٹائل بیز بال چھایا ہوا ہے۔ پچ خواہ جیسی ہو، شان مسعود غیر ضروری جارحانہ شاٹس کھیل کر اپنی وکٹ گنوا بیٹھتے ہیں۔ جب کپتان خود اچھی بیٹنگ نہ کر رہا ہو تو وہ باقی بلے بازوں کو کیا ٹوکے گا؟
پاکستان کے سپرسٹار بلے باز بابراعظم کی بری فارم بھی بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ پچھلے دو برسوں سے وہ کوئی سنچری نہیں بنا سکے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف نسبتاً بہتر کھیلے، نصف سنچریاں بنائیں، مگر حالیہ ٹیسٹ سیریز میں پھر بری طرح ناکام رہے۔ چار اننگز میں صرف 45 رنز بنائے۔ بابر جیسا بلے باز جو سپن بولنگ کو بہت اچھا کھیلتا تھا، وہ اگر یوں فیل ہو جائے تو پھر ٹیم کی بیٹنگ کا بوجھ اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس میچ کی دوسری اننگ میں بابر اچھا کھیل رہے تھے، پراعتماد شاٹس کھیلیں مگر پھر گزشتہ روز اختتامی لمحات میں وکٹ گنوا بیٹھے۔ کامران غلام کو ڈومیسٹک کرکٹ کا طویل تجربہ ہے، مگر ابھی تک وہ خود کو ٹیسٹ کرکٹ میں منوا نہیں سکے۔ یہ سیریز سلمان آغا کے لیے بھی بہت بری رہی، حالانکہ وہ سپنرز کو اچھا کھیلتے ہیں۔
پاکستانی ٹیم مینجمنٹ کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ابرار احمد کو ٹیسٹ کرکٹ میں کیسے موثر بنایا جائے؟ دراصل مسٹری سپنرز کو وائٹ بال کرکٹ میں زیادہ کامیابی ملتی ہے، ٹیسٹ کے لیے انہیں زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان کو ایک اچھے لیگ سپنر کی ضرورت ہے۔ زاہد محمود انگلینڈ کے خلاف زیادہ کامیاب نہیں ہوئے۔ ابرار کو محنت کرنا ہوگی، ورنہ وہ ٹیسٹ ٹیم سے باہر ہوجائے گا۔ نوجوان فاسٹ بولر کاشف علی نے چند اوورز ہی کرائے، ان کی لائن لینتھ اچھی ہے، گیند کو سوئنگ بھی کرا لیتے ہیں، مگر سپیڈ خاصی کم ہے۔ ایک سو تیس بتیس کی سپیڈ سے ٹیسٹ میں وکٹیں لینا خاصا مشکل ہے، اگر آپ محمد آصف یا میگرا جیسے غیر معمولی بولرز ہوں تو الگ بات ہے، ورنہ بات لانگ ٹرم میں بنے گی نہیں۔
عاقب جاوید کا سپن فارمولا بدلنا ہوگا
اس سیریز کا حتمی نتیجہ یہی ہے کہ عاقب جاوید کے فارمولے میں تبدیلی کر کے اسے بیلنس بنانا ہوگا۔
عاقب جاوید کا فارمولا سادہ ہے کہ پاکستان کو سپن فرینڈلی پچز بنانی چاہییں، کیونکہ ہمارے پاس اس وقت اچھے ٹیسٹ فاسٹ بوولرز موجود نہیں جبکہ دو اچھے تجربہ کار سپنرز موجود ہیں اور ہماری بیٹنگ سوئنگ فرینڈلی پچز کی نسبت سپن پچوں پر بہتر کھیل جائے گی۔
یہ بات اصولی طور پر درست ہے مگر اب ٹُو مچ ہو رہا ہے۔ سپن فرینڈلی پچ ضرور ہو، مگر ایسی وکٹیں بھی نہ بنیں جہاں فاسٹ بولر بولنگ ہی نہ کرا پائے اور پہلے گھنٹے سے گیند گز گز ٹرن لے اور ایک دن میں 20 وکٹیں گر جائیں اور دو ڈھائی دن میں ٹیسٹ میچ ختم۔ یہ ناانصافی اور غلط ہے۔
دنیا میں جہاں سپن فرینڈلی پچز ہیں وہاں پہلے دو ڈھائی دن پچ پر بیٹنگ اور فاسٹ بولنگ کو تھوڑی بہت مدد ملتی ہے، تیسرے دن سے گیند ٹرن کرنا شروع کرتا ہے اور چوتھا اور پانچواں دن مشکل ہوجاتا ہے۔

مصباح الحق اور یونس خان اپنے وقت کے بہترین بلے باز تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

مصباح الحق کے دور میں متحدہ عرب امارات میں ایسی پچیں بنتی تھیں، یونس، مصباح، اظہر علی، اسد شفیق کی صورت میں مضبوط مڈل آرڈر تھی، پہلی اننگ میں لمبا سکور کر لیتے اور پھر سعید اجمل کا سپن ہتھیار دوسرا اور عبدالرحمان کی گھومتی گیندیں کام کر دیتیں۔ پاکستان نے انگلینڈ کو وائٹ واش کیا تھا اور کئی دیگر اہم سیریز بھی جیتی تھیں۔
اب جو ہو رہا ہے وہ ٹھیک نہیں۔ سپنرز کو مدد ملے مگر پہلے دو دن تو وکٹ نارمل رہے۔ جو میچز ہم دیکھ رہے ہیں وہ تو مذاق ہیں۔ سپنرز کو محنت کرنے کی ضرورت ہی نہیں، سب کچھ پچ ہی کر رہی ہے۔ یہ تو ویسا میچ ہے جیسا پاکستان نے ستاسی اٹھاسی کی انڈیا سیریز میں بنگلور میں کھیلا تھا۔ یہ مگر یاد رہے کہ وہ پانچ ٹیسٹ کی سیریز تھی، چار ٹیسٹ ڈرا ہوگئے تھے اور آخری ٹیسٹ تھا، جسے نتیجہ خیز بنانے کی خاطر ویسی ٹرننگ پچ بنائی گئی۔
ہم یہ بھی یاد رکھیں کہ ہمارے پاس جاوید میانداد، سلیم ملک جیسے بلے باز نہیں۔ انضمام الحق، محمد یوسف نہیں اور یونس خان، مصباح الحق جیسے بلے باز بھی نہیں جو سپن کو بہت اچھا کھیلتے ہوں۔ بابر واحد تکنیکی طو رپر سالڈ بلے باز ہے مگر اس سے رنز نہیں بن رہے۔
جب ایسی مشکل ترین ٹرننگ پچز بنائیں گے تو مخالف ٹیم کے سپنرز بھی فائدہ لیں گے اور ہماری کمزور بیٹنگ لائن ڈھیر ہوجائے گی۔ یہی دوسرے ٹیسٹ میں ہوا، پہلے میں بھی اگر سعود شکیل اور رضوان کی پارٹنر شپ نہ بن جاتی تو وہ میچ بھی ہاتھ سے جاتا۔ اب شکر کریں کہ سیریز نہیں ہارے۔
کیا کرنا ہوگا؟
ہمیں اعتدال کی راہ اپنانی چاہیے، بیلنس میں رہیں۔ پچ سپن فرینڈلی بنائیں مگر وہ یکطرفہ نہ ہو۔ کچھ جان ہو اور فاسٹ بولرز کو کم از کم پہلی اننگ میں تو تھوڑی بہت مدد ملے۔
دوسرا ہمیں اب ڈومیسٹک کرکٹ میں بعض گراؤنڈز میں ٹرننگ پچز بنانی چاہییں تاکہ سپن بولنگ کو اچھا کھیلنے والے بلے باز سامنے آئیں۔ ہمیں اچھے ٹیسٹ فاسٹ بولرز کی بھی ضرورت ہے۔ جن کی کچھ سپیڈ بھی ہو ورنہ ایک سو تیس بتیس کی رفتار سے تو ریورس سوئنگ کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف پاکستانی ٹیم اپنے کھودے گڑھے میں خود گر گئی۔ ہم وائٹ واش کی امید لگائے بیٹھے تھے، سیریز برابر کرا بیٹھے۔ اب کچھ عرصہ وائٹ بال کرکٹ ہے تاہم چند ماہ بعد جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز ہے، اس کے لیے ابھی سے اچھا، سالڈ پلان بنا لیں۔

 

شیئر: