Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عدالتوں سے باہر تنازعات کا حل، متبادل ’مصالحتی نظام‘ کی راہ میں رکاوٹ کیا ہے؟

اسلام آباد میں بھی قانون منظور ہونے کے بعد اے ڈی آر نافذالعمل ہے (فائل فوٹو: فری پِکس)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کے اقبال ٹاؤن کے علاقے میں ایک نجی عمارت میں ہر سنیچر اور اتوار کو ایسے افراد اکھٹے ہوتے ہیں، جو عدالتوں سے دور بھاگتے ہیں اور اپنے مسائل بغیر مقدمے کے حل کرنا چاہتے ہیں۔ اس نجی عمارت میں تمام سائلین اپنے وکلا کے ہمراہ آتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسے افراد کی ہے جن کے مقدمات فیملی کورٹس سے متعلق ہیں۔
آمنہ بی بی (فرضی نام) دو بچوں کی ماں ہیں اور اس وقت ان کا اپنے شوہر کے ساتھ تنازع چل رہا ہے۔ ان کے وکیل نے انہیں مشورہ دیا کہ مقدمہ درج کرنے سے پہلے عدالت سے باہر معاملات حل کرنے کی ایک کوشش کر لیں اور وہ مان گئیں۔
آمنہ بی بی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرے وکیل نے میرے خاوند کو ایک لیگل نوٹس بھیجا اور اس میں لکھا کہ اس مقدمے کی نوعیت یہ ہے، اگر عدالت جانے سے پہلے اس کو حل کر لیں تو اس میں اتنے فوائد ہیں اور اس لیگل نوٹس کو اپنے وکیل سے پڑھوا لیں۔‘
’اس کے بعد غیرمتوقع طور پر میرے شوہر نے کچھ دن کے بعد اپنے وکیل کے ذریعے عدالت سے باہر راضی نامے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ پھر ایک ہی دن میں ہم ایسے نتیجے پر پہنچ گئے جو سب کے لیے قابل قبول ہے۔ یہی کام عدالتوں میں کئی سال کے بعد ہونا تھا۔‘
کچھ ایسی ہی کہانی محمد فراز کی بھی ہے۔ انہوں نے بھی فیملی عدالت جانے سے قبل اپنے وکیل کے مشورے پر عدالت کے باہر ہی معاملے کو حل کرنے کی ہامی بھری۔ گزشتہ ہفتے ایک ہی روز میں انہوں نے بات چیت سے یہ مسئلہ حل کر لیا۔‘
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں سال 2019 میں اسمبلی نے الٹرنیٹو ڈسپیوٹ ریزولیشن (تنازع کا متبادل حل / مصالحتی نظام) ایکٹ پاس کیا تھا جس کے بعد عدالتوں کے باہر سول معاملات کو حل کرنے کے لیے قوانین پاس کیے گئے تھے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ایکٹ بننے کے باوجود یہ قانون آج تک نوٹیفیکشن جاری کرکے لاگو نہیں کیا جا سکا۔
جب اس قانون کی منظوری کا عمل پنجاب اسمبلی میں جاری تھا  تو لاہور ہائی کورٹ نے جوڈیشل اکیڈمی میں ججوں اور وکلا کی مصالحتی نظام کی تربیت کا آغاز کر دیا اور ماتحت عدلیہ کے سینکڑوں ججوں اور وکلا کو تربیت دی گئی۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 22 لاکھ مقدمات زیر سماعت ہیں (فائل فوٹو: کورٹنگ دا لا)

اب چھ برس گزرنے کے باوجود یہ نظام نافذ نہیں ہو سکا اور اس کو قانونی کور حاصل نہیں تاہم پھر بھی تربیت یافتہ وکیل اپنے مؤکلوں کو عدالت سے باہر مسئلہ حل کرنے کی تربیت دیتے ہیں جو کہ کافی کارگر ہے۔ اور اب کئی این جی اوز بھی اس پر کام کر رہی ہیں۔
مصالحتی نظام ہے کیا؟
اردو نیوز نے پنجاب میں مصالحتی عدالتی نظام کی بنیاد رکھنے والے لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس انوار الحسن سے اس نظام کو سمجھنے اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر طویل گفتگو کی ہے۔
جسٹس ریٹائرڈ انوار الحسن کا کہنا ہے کہ ’اس وقت پوری دنیا آلٹرنیٹو ڈیسپیوٹ ریزولیشن یا اے ڈی آر پر جا چکی ہے۔ کوئی ایسا ملک نہیں جہاں یہ نظام کام نہ کر رہا ہو۔ ہمارے اسلام آباد میں بھی یہ قانون منظور ہونے کے بعد نافذالعمل ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’سول مقدمات سب سے زیادہ طوالت اختیار کر جاتے ہیں جن میں فیملی کیسز، رینٹ کیسز، ہرجانے اور جائیداد کے کیسز دس دس سال چلتے ہیں جس کی وجہ سے نظام انصاف دباؤ کا شکار رہتا ہے۔ اے ڈی آر کے تحت مقدمہ درج کرنے سے پہلے ہی فریقین اپنے وکلا کے ذریعے بیٹھتے ہیں اور ہر قانونی پہلو کو کھوج کر اپنے سامنے رکھ لیتے ہیں۔ یوں کیس کا مستقبل بھی نظر آنا شروع جاتا ہے اور دونوں کو سمجھ آ جاتی ہے کہ کیس کو چلانے کی ضرورت نہیں اور دونوں پارٹیاں ایک ایک قدم پیچھے ہٹ کر کسی درمیانے نقطے پر متفق ہو جاتی ہیں۔ یوں کیس چلنے سے پہلے ہی حل ہو جاتا ہے۔‘

اے ڈی آر کے تحت مقدمہ درج کرنے سے پہلے ہی فریقین اپنے وکلا کے ذریعے بیٹھتے ہیں (ایشیا فاؤنڈیشن)

سابق چیف جسٹس نے مزید بتایا کہ ’اس سلسلے میں باقاعدہ قانون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک تو اے ڈی آر کےعمل کے دوران ماحول کیسا ہو، وکیل سمیت کوئی شخص کوئی الیکٹرانک ڈیوائس نہیں رکھ سکتا۔ اسی طرح کیس دائر ہو بھی گیا تو اسے اے ڈی آر کی طرف کیسے بھیجنا ہے۔ ہر قدم پر قانونی طور پر چیزیں واضح ہونا ضروری ہیں۔ اب جو لوگ مصالحتی عمل سے مسئلے حل کر رہے ہیں، انہیں چونکہ ٹریننگ ہم نے دلوائی تھی۔ اس لیے وہ بین الاقوامی معیار کو مدنظر رکھتے ہیں۔‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 22 لاکھ مقدمات زیر سماعت ہیں۔ جبکہ پاکستان کے سول پروسیجر کوڈ یا ضابطۂ دیوانی میں عدالت سے باہر معاملات حل کرنے کا فریم ورک تو موجود ہیں لیکن اس کی نسبت باقاعدہ قانون آج بھی موجود نہیں ہے۔
مصالحتی عدالتوں میں رکاوٹ کیا ہے؟
سابق چیف جسٹس کہتے ہیں کہ اس سوال کا جواب دینا ذرا مشکل ہے۔ ’پہلے جب ہم نے اس کی بات کی تو وکلا کو لگا کہ جیسے ان کے پیٹ پر لات ماری جا رہی ہے لیکن جب انہیں سمجھایا کہ بھائی اس سے تو آپ کا بھلا ہی ہو گا۔ ایک کیس کی فیس لے کر کھانے کے بعد جب اس کیس کی برسوں پیروی کرنا اپنی جیب پر بوجھ لگتا ہے تو اے ڈی آر میں ایک چوتھائی فیس لو اور ایک ہی دن میں کیس حل کرواؤ۔ پھر انہیں بات سمجھ آئی۔‘
’اب تو وکیل چاہتے ہیں کہ یہ قانون بنے اور  اے ڈی آر فرمیں اور ان کا کام بھی چلے۔ عام لوگوں کو بھی اس میں کم سے کم فیس دینا پڑے گی اور وکیلوں کو بھی تھوڑے کام کے بعد جلد اور مناسب فیس ملے گی اور پھر عدالتوں پر بوجھ کم ہو جائے گا۔‘

کئی برس قبل لاہور میں اے ڈی آر کی تربیت کے لیے سیشن بھی ہوئے (فائل فوٹو: پنجاب یونیورسٹی)

دوسری رکاوٹ پر بات کرتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ انوار الحسن کا کہنا تھا کہ ’اگر پنجاب میں 2019 میں اس قانون کو نوٹیفائی کر دیا جاتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔ اب اصل سوال تو یہ ہے کہ اس قانون کو اسمبلی سے پاس ہونے کے باوجود نافذ کیوں نہیں کیا گیا؟ اس کی وجہ پاکستان کے انتخابی نظام سے جڑی ہے۔ میں خود چیف جسٹس رہا ہوں اور میں آپ کو بتاتا ہوں کہ سارے الیکشن معاملات اے ڈی آر میں حل ہو سکتے ہیں اور انتخابات کے دنوں میں جو جھگڑے حل کروا کر ووٹ لیے جاتے ہیں تو یہ پیچیدہ عمل اور سیاست دانوں پر منحصر ہے۔‘

 

شیئر: