ٹوبہ ٹیک سنگھ: ایک دن میں مقامی عدالت نے ’ریکارڈ 132‘ مقدمات کے فیصلے سنائے
ٹوبہ ٹیک سنگھ: ایک دن میں مقامی عدالت نے ’ریکارڈ 132‘ مقدمات کے فیصلے سنائے
منگل 28 جنوری 2025 7:41
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
مقامی وکلا اور سائلین کے مطابق یہ دن بار ایسوسی ایشن اور عوام دونوں کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔ (فوٹو: فیس بک)
پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل کمالیہ میں ایڈیشنل اینڈ سیشن جج محمد اسحاق حاشر نے 25 جنوری کو ایک دن میں 132 مقدمات کے فیصلے سنا کر ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔
کمالیہ کے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج محمد اسحاق حاشر نے فیصلے سنانے سے قبل باقاعدہ منصوبہ بندی کی۔
انہوں نے عدالت کے تمام وکلا سے ملاقات کر کے 25 جنوری کو زیادہ سے زیادہ کیسز کے فیصلے سنانے کا عہد کیا تھا۔
بار ایسوسی ایشن کمالیہ کے جنرل سیکریٹری ایڈووکیٹ سردار عبدالرحمان ڈوگر کے مطابق ایک ہی روز میں مختلف کیسز کے فیصلے ضرور ہوئے لیکن اس کے لیے منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جج محمد اسحاق حاشر نے بار ایسوسی ایشن اور تمام وکلا کو بلا کر انہیں اپنے مقصد کے بارے میں آگاہ کیا۔ وہ ڈی این اے (ڈے آف نو ایڈجرنمنٹ) ماڈل کے تحت فیصلے کرنا چاہتے تھے۔ ہم وکلا نے بھی میٹنگز کیں اور یوں یہ تاریخی فرض انجام دیا۔‘
ان کے مطابق ڈی این اے (ڈے آف نو ایڈجرنمنٹ) ماڈل جج محمد اسحاق حاشر نے طے کیا تھا۔ ’اس دن کا مقصد ہی یہ تھا کہ کوئی بھی وکیل کسی بھی کیس میں کوئی نئی تاریخ نہیں لے گا بلکہ فیصلے سننے کے لیے تیار رہے گا۔‘
متعلقہ جج نے اس حوالے سے ایک ماہ پہلے سے کیسز سننے کی تیاری شروع کی۔ صدر بار ایسوسی ایشن کمالیہ ایڈووکیٹ مہر یاسین درسانہ کے مطابق تمام کیسز 25 جنوری سے پہلے سنے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ’جج نے کئی روز قبل سے 140 کے قریب کیسز سننے کی شروعات کیں اور 25 جنوری کے روز ان کے فیصلے سنانے کا حکم جاری کیا۔ عدالتوں میں کیسز کی سماعت کے وقت ایک وکیل کیس ہارتا ہے جب کہ دوسرا جیت جاتا ہے لیکن فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کیس ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے سب نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ کسی بھی صورت میں مزید تاریخ نہیں لی جائے گی۔‘
کمالیہ کے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج محمد اسحاق حاشر نے فیصلے سنانے سے قبل باقاعدہ منصوبہ بندی کی۔ (فوٹو: گیٹی امیج)
جنرل سیکریٹری بار ایسوسی ایشن کے مطابق 25 جنوری کے روز عدالت میں خصوصی تیاریاں کی گئی تھیں۔
فیصلوں کو سننے کے لیے عدالت کے باہر بڑی سکرینیں لگائی گئی تھیں اور مختلف رنگ کے جھنڈے لگائے گئے تھے۔
مہر یاسین درسانہ نے کہا کہ ’اس سے قبل پاکستان میں اس قدر بڑی تعداد میں فیصلے کبھی ایک ساتھ نہیں سنائے گئے۔ قتل، منشیات سمیت دیگر کیسز کے فیصلے سنائے گئے۔ عدالت میں بڑی سکرین لگائی گئی تھی تاکہ سائلین اپنے کیسز سن اور دیکھ سکیں اور اپنی باری آنے پر کمرۂ عدالت میں داخل ہو سکیں۔‘
بار ایسوسی ایشن کمالیہ کے مطابق کمالیہ سیشن کورٹ میں ایسے کیسز کے فیصلے سنائے گئے، جو عرصہ دراز سے زیر التوا تھے اور وکلا مسلسل تاریخیں لے رہے تھے۔
ایڈووکیٹ عبدالرحمان ڈوگر کے مطابق، مختلف کیسز کی نوعیت جاننے کے لیے جھنڈوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔ دیوانی کیسز کے لیے ایک رنگ کے جھنڈے تھے جب کہ منشیات کے لیے کوئی اور رنگ منتخب کیا گیا تھا۔ سائلین اور وکلا اپنے جھنڈوں کی پہچان کر کے کارروائی آگے بڑھاتے تھے۔
مقامی وکلا اور سائلین کے مطابق یہ دن بار ایسوسی ایشن اور عوام دونوں کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔
صدر بار ایسوسی ایشن کمالیہ کے مطابق، 25 جنوری کو کسی وکیل نے اگلی تاریخ کی اپیل نہیں کی، جس نے انصاف کی فوری فراہمی کو ممکن بنایا۔ یہ تو ورلڈ ریکارڈ بھی بن گیا کیونکہ ہم نے آج تک کبھی ایسا ہوتا ہوا نہیں دیکھا۔
’ہم چاہتے ہیں کہ یہ ماڈل پورے پاکستان میں بڑے پیمانے پر اپنایا جائے، تاکہ پاکستان پر ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہوا زیر سماعت مقدموں کا بوجھ کم ہو سکے۔‘
مقامی وکلا اور سائلین کے مطابق یہ دن بار ایسوسی ایشن اور عوام دونوں کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔ (فوٹو: فیس بک)
بار ایسوسی ایشن کمالیہ کے مطابق 25 جنوری کو 132 کیسز کے فیصلے سنائے گئے جن میں 38 ضمانت، 13 اندراجِ مقدمہ، 3 ہراسانی، 2 قتل کے کیسز، 14 سیشن کیسز، 4 منشیات جب کہ 35 مقدمات دیوانی اپیل کے تھے۔
گذشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ میں فل کورٹ اجلاس ہوا جس میں 2024 میں مقدمات سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ پیش ہوئی۔
اس رپورٹ کے مطابق ہائی کورٹ کی پرنسپل سیٹ میں گذشتہ سال کے دوران ایک لاکھ 48 ہزار 453 نئے کیسز دائر کیے گئے جبکہ اس دوران ریجنل بینچوں نے ایک لاکھ 44 ہزار 122 کیسز کا فیصلہ کیا جبکہ 2024 کے دوران ضلعی عدلیہ نے 36 لاکھ 57 ہزار مقدمات سنے تاہم مزید 37 لاکھ 90 ہزار نئے مقدمات دائر کیے گئے۔
لاہور ہائی کورٹ میں اس وقت ایک لاکھ 98 ہزار اور ضلعی عدلیہ میں 14 لاکھ 49 ہزار مقدمات زیر التوا ہیں۔
صدر بار ایسوسی ایشن کمالیہ بتاتے ہیں کہ ’اس قدر بڑی تعداد میں کیسز کی سماعت در سماعت اگر ہوتی رہے تو معاملہ حل نہیں ہوگا۔ ہم نے مثال قائم کر دی ہے اب یہ ہر عدالت پر منحصر ہے کہ وہ اسی ماڈل کو اپناتے ہوئے مقدمات کا بوجھ کم کرے۔‘