Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کٹھن سفر لیکن شمالی غزہ واپس جانے والے فلسطینیوں کے جذبے ماند نہ پڑ سکے

اقوام متحدہ کے مطابق ایک دن میں دو لاکھ فلسطینیوں نے واپسی کا سفر اختیار کیا۔ فوٹو: اے پی
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت فلسطینیوں کی شمالی غزہ کو واپسی کا سلسلہ پیر کے روز سے شروع ہو گیا تھا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اقوام متحدہ کے حکام نے اندازہ لگایا ہے کہ ایک دن میں دو لاکھ افراد نے اپنے گھروں کو واپسی کا سفر اختیار کیا۔
جنگ کے دوران نقل مکانی کرنے والے یہ فلسطینی اپنے ساتھ محدود سامان اٹھائے اب اپنے گھروں کو واپس جا رہے تھے۔
خوشی کے یہ مناظر اُس وقت سے بہت مختلف ہیں جب دس لاکھ سے زائد فلسطینیوں نے خوف اور مصیبت کی حالت میں اسی راستے پر پیدل چلتے ہوئے کسی محفوظ مقام کی تلاش میں نقل مکانی کی تھی۔
ان کا یہ سفر بھی کئی گھنٹوں کی پیدل مسافت پر محیط ہے لیکن اکثر ہنستے، مسکراتے اور ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہوئے اپنی منزل کی جانب گامزن دکھائی دیے۔
غزہ کی مرکزی ساحلی سڑک شمال جانے والے ہزاروں فلسطینیوں سے بھری ہوئی تھی جو اپنے گھروں کو واپس جانے کے لیے پرجوش دکھائی دے رہے تھے۔
اگرچہ اکثر کو معلوم تھا کہ ان کا گھر تباہ ہو چکا ہے اور شہر کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر ہے لیکن اس کے باوجود واپسی کا سفر خوشی کا منظر پیش کر رہا تھا۔
ان فلسطینیوں کے لیے واپس جانا ہی سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے بالخصوص جب اپنی سرزمین سے مستقل بےدخلی کا خوف سر پر سوار ہو۔
واپسی کے اس سفر میں شامل فلسطینی رانیہ مقداد نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’واپس جانا ہی ہماری جیت ہے۔‘

جنگ بندی معاہدے کے بعد شمالی غزہ کو واپسی کا سلسہ شروع ہو گیا ہے۔ فوٹو: اے پی

واپس جانے والوں میں اسماعیل ابو مطر، ان کی اہلیہ اور چار بچے بھی شامل ہیں۔ اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنے تباہ شدہ گھر کے باہر خیمہ لگائیں گے اور ملبے کو صاف کرنا شروع کریں گے۔
جنوبی غزہ کا حوالہ دیتے ہوئے ابو مطر نے کہا ’یہاں خیمہ لگانے سے بہتر ہے کہ وہاں پر خیمہ لگاؤں۔‘
شمالی غزہ سے نقل مکانی کرنے والوں کو کئی ماہ تک شہر کے وسطی اور جنوبی حصے میں رہنا پڑا تھا۔
ابو مطر نے کہا ’ہمارا خیال تھا کہ ہم واپس نہیں جا سکیں گے جیسا کہ ہمارے آباؤ اجداد کے ساتھ ہوا تھا۔‘
ابو مطر کے نانا دادا کا شمار ان ہزاروں فلسطینیوں میں ہوتا ہے جنہیں 1948 کی جنگ میں ان علاقوں سے نکال دیا گیا تھا جہاں اب اسرائیلی ریاست قائم ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی تصاویر، ویڈیوز اور ڈرون فوٹیج میں فلسطینیوں کو ساحلی سٹرک پر پیدل چلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جہاں ایک طرف بحیرہ روم ہے تو سڑک کے دوسری طرف ملیا میٹ ہوئی عمارتیں دکھائی دے رہی ہیں۔
حماس کے مسلح جنگجوؤں کو بھی راستے میں کہیں نہ کہیں کھڑے دیکھا جا سکتا ہے جس سے یہ واضح ہے کہ عسکری گروپ کی غزہ میں طاقت ابھی تک برقرار ہے جس کو اسرائیل نے ختم کرنے کا عہد کیا تھا۔

فلسطینیوں کو کئی ماہ تک جنوبی اور وسطی غزہ میں پناہ لینا پڑی تھی۔ فوٹو: اے پی

واپس جانے والوں کو شمال جانے کے لیے نتساريم کوریڈور سے گزرنا پڑ رہا ہے جو دراصل غزہ کی پٹی کو تقسیم کرنے کے لیے اسرائیل نے بنایا تھا تاکہ شمالی حصے کو بالکل بند کر دیا جائے۔
جنگ کے دوران غزہ کے شمالی حصے کو شدید ترین اسرائیلی جارحیت کا سامنا رہا جس کا مقصد حماس کے جنگجوؤں کو گنجان آباد علاقے میں ختم کرنا تھا۔
جنگ کے دوران اسرائیل نے کئی مرتبہ شہریوں کو شمالی غزہ خالی کرنے کے احکامات جاری کیے تھے لیکن ان کی واپسی میں رکاوٹیں پیدا کرتا آیا ہے۔ تاہم جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیلی فوج کو مرکزی راستوں سے پیچھے ہٹنا پڑا ہے تاکہ فلسطینی اپنے علاقے کو واپس جا سکیں۔ معاہدے میں اسرائیلی فوج کے انخلا پر بھی اتفاق ہوا ہے۔
تاہم غیریقینی کی صورتحال برقرار ہے کہ جنگ بندی معاہدہ ختم ہونے کی صورت میں انہیں ایک مرتبہ پھر اسرائیلی جارحیت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور اگر امن برقرار رہتا ہے تو یہ نہیں معلوم کہ وہ کب اپنے گھر دوبارہ تعمیر کرنے کے قابل ہوں گے اور کب اپنے زندگی کو معمول پر لاسکیں گے۔

 

شیئر: