Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نہیں کاٹنے دوں گی‘، امریکی لڑکی جو دو سال قدیم درخت سے نہیں اُتری

ایک ہزار سے 1200 سال تک پرانے درختوں کی کٹائی کا ٹھیکہ دیا جا چکا تھا (فوٹو: روئٹرز)
کسی کٹے درخت کے اردگرد  کئی روز تک ان پرندوں کا منڈلانا نئی بات نہیں جس پر ان کا گھونسلہ ہو، وہ شور مچانے اور پھر کسی اور  طرف ہجرت کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں، مگر وہ پرندہ تھی نہ ہی بے زبان، اسی لیے اس قدیم درخت پر ’گھونسلہ‘ بنانے کا قصد کیا جس کو گرانے کی تیاری ہو چکی تھی۔
یہ دلچسپ واقعہ بھی اسی دلچسپ سرزمین کا ہے جسے امریکہ کہتے ہیں، یہ کہانی ہے ایک ایسے احتجاج اور سول نافرمانی کی جس میں ایک لڑکی نے دو سو فٹ اونچے درخت پر 738 دن گزارے اور اپنا مطالبہ منوایا۔
مشہور برطانوی ویب سائٹ بریٹینکا کے مطابق مسوری کے ماؤنٹ ورنن علاقے میں 18 فروری 1974 کو پیدا ہونے والی جولیا لیرون ہل نامی بچی اگرچہ عام سی ہی لگتی تھی مگر اس کے اندر کچھ خاص تھا ضرور، جس کا اندازہ خود اسے بھی نہیں تھا مگر پھر ایک حادثہ ہوا۔
1996 میں ایک گاڑی کی ٹکر سے ان کی گاڑی الٹ گئی اور سر پر چوٹ لگی، ڈاکٹرز نے کو ان کو کسی پرفضا مقام پر لے جانے اور فطرت کے قریب رکھنے کا مشور دیا، جس پر وہ اچھل پڑیں کیونکہ بقول ان کے ’اندر سے بھی کچھ ایسی ہی آواز آ رہی تھی۔‘
’ ایسا لگا پاس بلا رہا ہے‘
کیلیفورنیا میں ریڈ وڈ درختوں کے جنگل کے پاس سے گزرتے ہوئے انہوں نے گاڑی روکنے کا کہا۔ اس کو اردو میں امریکی تاڑ کہا جاتا ہے، اس کی لکڑی کی رنگت سرخی مائل ہوتی ہے، یہ پھیلا ہوا نہیں بلکہ سیدھا اور بہت بلند ہوتا ہے۔

جولیا ہل نے دو سال سے زائد کا عرصہ درخت پر ایک چھوٹے سے پلیٹ فارم پر گزارا (فوٹو: ارتھ مشن)

یہاں ان کو ایک قدیم درخت دکھائی دیا جو ہزار سے بارہ سو سال پرانا تھا، جس کو انہوں نے لونا کا نام دیا۔ ان کے مطابق ’ایسا لگا جیسے پاس بلا رہا ہو۔‘
انہیں وہاں کافی سکون ملا، کچھ وقت گزارا اور واپس ہو لیے۔
انہی دنوں ان درختوں کی کٹائی کی خبر سامنے آئی اور ایک مشہور کمپنی کو اس کا ٹھیکہ دیا گیا تھا۔
دوسری طرف جولیا ارادہ کر چکی تھیں کہ وہ صرف اسے ہی نہیں بلکہ اردگرد موجود دوسرے درختوں کو بھی نہیں کٹنے دیں گی۔
اس دوران ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی کچھ تنظیمیں متحرک ہوئیں جنہوں نے جولیا کا کام کسی حد تک آسان بنا دیا جو بظاہر ناممکن دکھائی دے رہا۔

خاموش منصوبہ

پھر بنا ایک پلان، دوسری جانب کٹائی کے انتظامات ہو رہے تھے مگر اس سے ایک روز قبل ہی پلان پر عملدرآمد شروع ہو گیا جو کسی کو معلوم نہ تھا۔
جولیا 10 دسمبر 1997 کو تنظیموں کے چند کارکنوں کے ہمراہ وہاں پہنچیں جن کے پاس بیگز میں کچھ سامان بھی تھا۔ پھر جولیا نے ایک رسہ لیے درخت پر چڑھنا شروع کیا اور جلد ہی درخت کے بلند ترین حصے پر پہنچ گئیں اور رسے کا ایک سرا نیچے پھینکا، اس کے ساتھ کچھ سامان باندھا گیا، جیسے کھینچا گیا اور پھر یہ سلسلہ کچھ دیر تک چلا۔

جولیا ہل کے احتجاج نے جلد ہی میڈیا اور عوام کی توجہ حاصل کر لی (فوٹو: پی آر نیوز)

درخت پر ایک چار بائی چھ فٹ کا پلیٹ فارم بنایا گیا، اس پر ایک چھوٹی سی کینوپی لگائی گئی، ان کے پاس کپڑے اور کتابوں کے  علاوہ ایک پروپین گیس  والا چولہا اور سلیپنگ بیگ تھا۔ تنظیموں کے کارکنوں کے واپس جانے کے بعد انہوں نے چائے بنائی اور کپ تھام کر اوپر سے دکھائی دینے والے منظر سے لطف اندوز ہونے لگیں۔  ان کا کہنا ہے کہ ’پہلی رات سوتے جاگتے اور مختلف خواب دیکھتے ہوئے کٹی۔‘

دن ہفتے اور مہینے 

صبح کٹائی کے لیے آنے والے کارکنوں نے درخت پر کینوپی دیکھی تو آواز دی کہ درخت کاٹنے لگے ہیں نیچے آ جائیں ، انہوں نے جوباً کہا ’کاٹ دو میں نیچے نہیں آوں گی‘ اور ساتھ ہی سولر پاورڈ موبائل سے اس نیوز چینل کا نمبر ملایا جو پہلے سے ہی منصوبے میں شامل تھا، خبر نشر ہوتے ہی بھونچال آ گیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔لوگ باہر نکلے اور بحث شروع ہو گئی کہ قدیم درختوں کو کیوں کاٹا جا رہا ہے۔
کئی چینلز نے ان سے بات کی اور ان کا پیغام جگہ جگہ نشر ہونے لگا۔
کمپنی نے وقتی طور پر اس خیال سے کام روک دیا کہ ایک آدھ روز میں تھک کر نیچے آ جائیں گی، مگر دن ہفتوں میں بدلتے رہے۔

جولیا ہل ماحولیات کے تحفظ کے لیے دنیا بھر میں ایک توانا آواز ہیں (فوٹو: جولیا بٹرفلائی ہل ڈاٹ کام)

اب یہ معاملہ سیاسی ایوانوں تک بھی پہنچ چکا تھا، ان کو پیسےکی آفرز ہوئیں مگر ان کا ایک ہی جواب تھا کہ درخت نہیں کٹیں گے۔
اس دوران تنظیموں کے کارکن آتے اور ضرورت کی چیزیں پہنچاتے رہے۔

ہراساں کرنے کی کوششیں

  پھر کمپنی کے کارکنوں نے ان کو ڈرانے کا فیصلہ کیا، ان پر تیز روشنیاں ڈالی گئیں۔ ہراساں کرنے کے لیے قریب ہیلی کاپٹر اڑائے گئے، پانی پھینکا گیا۔ تقریباً ایک ہفتے تک ان کی سپلائی چین روکی گئی۔کچھ کمپنی ملازمین نے اوپر چڑھنے کی بھی کوشش کی مگر وہ میڈیا کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھیں اور کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔
سپلائی چین روکنے کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ انہیں پتہ تھا کہ ایسا ہو گا اس لیے انہوں نے سامان بچا کر رکھ لیا تھا۔
پھر سیاسی ایوانوں میں بیٹھے کمپنی کے حامیوں نے سوچا کہ بیٹھی رہیں خود ہی تھک ہار کر نیچے آ جائیں گی۔
مگر اس کے امکانات اس وقت معدوم ہوتے دیکھ گئے جب دن ہفتوں، ہفتے مہینوں اور مہینے سال میں بدلا۔

مہم کے دوران موسموں کی شدت بھی استقامت کے ساتھ برداشت کرتی رہیں (شٹرسٹاک)

درخت پر سالگرہ اور موسموں کی شدت

انہوں نے اپنی سالگرہ درخت پر ہی منائی جس کی خبریں نشر ہوئیں اور یہ بحث مزید تیز ہو گئی کہ ایسا کب تک رہےگا۔
اس دوران موسم بھی بدلتے رہے، طوفان بھی آئے اور برفباری بھی ہوئی مگر ان کا ارادہ نہ بدلا۔
وہ کہتی ہیں کہ سخت سردی میں خود کو کینوپی کے اندر سلیپنگ بیگ میں اچھی طرح پیک کر لیتی اور اس سے پہلے چولہا بھی جلائے رکھتی۔
ایک برس پورا ہونے کے بعد اگلا شروع ہوا اور وہ بھی انہی حالات میں بیت گیا۔

مذاکرات اور معاہدہ

اب سب تھک چکے تھے، کمپنی بھی اور شاید جولیا بھی مگر ان کا ارادہ اپنی جگہ سے نہیں ہلا تھا۔
اور دو سال پورے ہونے کے بعد معاملے کو انجام تک پہنچانے کے لیے کمپنی نے جولیا کے ساتھ مذاکرات شروع کیے اور بات اس قانونی معاہدے تک پہنچی جس میں کمپنی نے لکھ کر دیا کہ وہ لونا کو نہیں کاٹے گی اور اردگرد کے تین ایکڑ ایریا میں بھی کٹائی نہیں ہو گی۔

ان کی کتاب لیگیسی آف لونا بیسٹ سیلر ہے (فوٹو: ریڈنگ اینڈ واکنگ)

738 روز بعد زمین پر قدم

اس کے بعد وہ روز بھی آ گیا جب جولیا نے 18 دسمبر 1999 کو تقریبا دو سال بعد زمین پر قدم رکھنا تھا، اس وقت وہاں کافی لوگ جمع ہوئے، جنہوں نے ان کے حق میں نعرے لگائے، وہ اب کوئی عام لڑکی نہیں بلکہ سلیبرٹی بن چکی تھیں۔
آج کل وہ اکیاون برس کی ہیں او ر ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک اہم آواز کے طور پر جانی جاتی ہیں جبکہ بمع لونا کے وہ درخت بھی موجود ہیں جن کے لیے انہوں جان داؤ پر لگا دی تھی۔

لیگیسی آف لونا

واپس آنے کے بعد انہوں نے لیگیسی آف لونا کے نام سے انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی جو بیسٹ سیلر ہے جبکہ اس پر ایک ٹی وی سیریل بھی بن چکی ہے۔
انہوں نے بعدازاں ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ’اگر آپ اکیلے بھی رہ گئے ہیں مگر آپ کی امید زندہ ہے تو سمجھیں سب ٹھیک ہے کیونکہ دنیا امید پر قائم ہے۔‘
جولیا کا ایک مشہور قول ہے کہ ’چڑھائی جس قدر مشکل ہوتی ہے وہاں سے نظارہ اس سے بھی زیادہ دلکش ہوتا ہے۔‘

شیئر: