کراچی کی انسداد منشیات عدالت میں مصطفیٰ عامر قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کے خلاف دو منشیات کیسز کی سماعت ہوئی۔ دورانِ سماعت تفتیشی حکام نے عدالت میں چالان اور مقدمات کی تفصیلات پیش کیں، جن کے مطابق ملزم ارمغان گذشتہ آٹھ سال سے ویڈ (چرس کی ایک قسم) منگوا کر نشہ کر رہا تھا۔
چالان کے متن میں یہ بات سامنے آئی کہ ملزم نے یکم جولائی 2017 سے 24 اپریل 2019 کے دوران 9 پارسل منگوائے، جو اس نے اپنے اور اپنے والد کے نام پر منگوائے تھے۔ مزید یہ بھی انکشاف ہوا کہ اس کیس میں دیگر ملزمان بھی شامل ہیں، جو مختلف کیفے اور پارٹیوں میں نشہ کرتے رہے ہیں۔ عدالت نے ارمغان کو 18 مارچ کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
پولیس کے مطابق گرفتار ملزمان ارمغان اور شیراز کو مصطفیٰ عامر کے قتل کے بعد اسکردو فرار ہونے میں مدد ملی تھی۔ وہاں یہ دونوں ایک بنگلے میں مقیم رہے اور بعد ازاں ایک لال رنگ کی فورڈ گاڑی میں خود ڈرائیو کر کے اسلام آباد واپس آئے۔ پولیس اس بات کی تفتیش کر رہی ہے کہ انہیں یہ بنگلہ اور گاڑی کس نے فراہم کی۔
مزید پڑھیں
تفتیش کے دوران شہر کے 18 داخلی و خارجی راستوں پر لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ حاصل کر لی گئی ہے۔ تاہم پولیس کے مطابق حب ٹول پلازہ سے پہلے ہی ملزمان کی گاڑی ایک متبادل راستے پر مڑ گئی، جس کے باعث وہ ٹول پلازہ کے کیمروں کی ریکارڈنگ میں نہیں آ سکے۔
مزید برآں پولیس نے ملزم ارمغان کے گھر سے برآمد بھاری اسلحے کو فرانزک کے لیے بھیج دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی زخمی ڈی ایس پی احسن ذوالفقار کو لگنے والی گولی کا سکہ بھی فرانزک جانچ کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں یہ معلوم ہوا ہے کہ ارمغان کے گھر سے برآمد ہونے والا اسلحہ پشاور سے منگوایا گیا تھا۔
ارمغان کے غیر قانونی اقدامات اور رہائشیوں کی شکایات
کامران قریشی کے بیٹے ارمغان کے حوالے سے مزید سنسنی خیز تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ اہل علاقہ کے مطابق ارمغان نے 100 سے زائد نجی سکیورٹی گارڈز رکھے ہوئے ہیں، جو خواتین اور گھریلو ملازمین کو ہراساں کرتے رہے ہیں۔
اس ضمن میں ڈی ایچ اے انتظامیہ کو ایک خط لکھا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 8 فروری کو کامران اصفر قریشی کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا، اس دوران گھر سے فائرنگ کی گئی اور غیر قانونی ہتھیار برآمد ہوئے۔

علاقے کے رہائشی اس واقعے کے دوران گھروں میں محصور ہو گئے تھے اور بے امنی کی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ رہائشیوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے اور کامران اصغر قریشی کو اس گھر سے بے دخل کر کے اصل مالک کی شناخت کی جائے۔
ڈی آئی جی ساؤتھ اسد رضا کے مطابق مذکورہ گھر کا مالک پاکستان میں مقیم نہیں ہے، اس حوالے سے ایک خلیجی ملک کے سفارتی عملے کو بھی خط لکھ دیا گیا ہے تاکہ مالک سے رابطہ کر کے ارمغان کے پڑوسیوں کے تحفظات پر بات کی جا سکے۔
پولیس کی مزید تحقیقات جاری
پولیس کی جانب سے مصطفیٰ عامر قتل کیس کے تمام پہلوؤں کی جانچ کی جا رہی ہے، اور مختلف شواہد کی روشنی میں مزید انکشافات متوقع ہیں۔ گرفتار ملزمان سے تحقیقات جاری ہیں اور ان کے سہولت کاروں کو بھی قانون کی گرفت میں لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔