وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے مصطفیٰ قتل کیس کے مرکزی ملزم کا ریمانڈ نہ دینے پر سوال اٹھاتے ہوئے فاضل عدالت کے ریمارکس کو نامناسب قرار دیا ہے۔
انہوں نے سوال اٹھائے ہیں کہ مصطفیٰ قتل کیس کے ملزم کو عدالت نے جسمانی ریمانڈ پولیس کے حوالے کیوں نہیں کیا؟
مصطفیٰ قتل کیس میں جسمانی ریمانڈ کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے اور کسی بھی مقدمے کی تفتیش کے دوران ملزم سے پوچھ گچھ کے لیے ریمانڈ کی درخواست پولیس کے لیے ایک اہم قانونی عمل کیوں ہوتا ہے؟
کسی بھی مقدمے کی تفتیش کے دوران ملزم سے پوچھ گچھ کے لیے ریمانڈ کی درخواست پولیس کے لیے ایک اہم قانونی عمل ہوتا ہے۔
عدالت کی جانب سے ملزم کو ریمانڈ پر اس لیے دیا جاتا ہے تاکہ کیس کی بہتر انداز میں تفتیش ہو سکے۔ اگر عدالت کسی مقدمے میں پولیس کو ریمانڈ نہ دے تو کیا یہ تفتیشی عمل پر منفی اثر ڈال سکتا ہے؟
یہ جاننے کے لیے اردو نیوز نے قانونی ماہرین سے بات کی، جس میں انہوں نے مختلف نکات پر بات کی ہے۔
مزید پڑھیں
-
لاہور میں 13 سالہ ارسلان نسیم کیس کے حقائق کیا ہیں؟Node ID: 787881
-
لاہور کی خاتون وکیل کا قتل جو پولیس کے لیے معمہ بن گیاNode ID: 885986
قانونی امور کے ماہر فاروق احمد ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ’قانون کی شق 167 کے مطابق کوئی قتل یا کسی دوسرے سنگین جرم کے مقدمے میں تفتیشی افسر کو 14 دن کا ریمانڈ درکار ہوتا ہے تاکہ وہ اہم شواہد جمع کر سکے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر تفتیشی افسر کو ریمانڈ نہیں دیا جاتا تو اس سے کیس متاثر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔‘
اسی طرح معروف وکیل اور قانونی امور کے ماہر محمد عامر کا کہنا ہے کہ ’پولیس کے تفتیشی عمل کا اہم حصہ ملزم سے شواہد کا حصول اور آلات جرم کی برآمدگی ہے۔ ریمانڈ کے بغیر پولیس ملزم سے مزید معلومات حاصل نہیں کر پاتی، جس کے نتیجے میں ممکنہ اہم شواہد یا جرم کے آلات برآمد نہ ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے، جس سے عدالت میں مقدمہ کمزور پڑ سکتا ہے اور ملزم کو بری ہونے کا موقع مل سکتا ہے۔‘

انہوں نے کراچی میں ان دنوں جاری ایک اہم مقدمے مصطفی قتل کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے مقدمے میں تفتیشی عمل تاخیر کا شکار نظر آیا ہے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اس سے قبل بھی کئی ایسے کیسز ہیں جن میں ملزم کا ریمانڈ حاصل نہ ہونے کی وجہ سے کیس کمزور ہوا اور اس کا فائدہ ملزمان کو پہنچا۔‘
سندھ پولیس کے سابق تفتیشی افسر زبیر علی کے مطابق ’مقدمات میں اکثر جرم کے پیچھے چھپی سازش یا جرم کا مقصد معلوم کرنا تفتیش کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ پولیس عام طور پر ریمانڈ کے دوران مختلف سوالات کے ذریعے جرم کے پس منظر اور اس میں شامل دیگر افراد کا پتہ لگاتی ہے۔ ریمانڈ نہ ہونے کی صورت میں یہ عمل تعطل کا شکار ہو سکتا ہے اور پولیس جرم کی مکمل نوعیت کو سمجھنے میں ناکام رہ سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اکثر اوقات ایک مقدمے میں دیگر شریک ملزمان کا پتہ مرکزی ملزم سے پوچھ گچھ کے دوران چلتا ہے۔ اگر ریمانڈ نہ دیا جائے تو پولیس کو دیگر شریک ملزمان کی گرفتاری میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں دیگر ملزم فرار ہو سکتے ہیں یا شواہد کو ضائع کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

ان کے مطابق ’اس کے علاوہ بعض کیسز میں ملزم ریمانڈ کے دوران جرم کا اعتراف کر لیتا ہے، جو کیس کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر پولیس کو ریمانڈ نہ ملے تو ملزم سے اعترافِ جرم یا وضاحت حاصل کرنے کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں جس سے مقدمے کا فیصلہ متاثر ہو سکتا ہے۔‘
قانونی ماہر امین الدین ایڈووکیٹ نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’عدالتیں ریمانڈ دینے سے پہلے کیس کی نوعیت، شواہد، اور پولیس کی درخواست کو باریک بینی سے دیکھتی ہیں، تاکہ ملزم کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ ریمانڈ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ عدالت کے صوابدیدی اختیارات میں شامل ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ریمانڈ کی درخواست کو مسترد کیا جائے تو پولیس کو متبادل ذرائع سے تفتیش کو مکمل کرنے کے طریقے اپنانا چاہییں تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔
ان کے بقول ’اگرچہ ریمانڈ کے بغیر تفتیش میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں لیکن جدید تفتیشی تکنیکوں اور فرانزک شواہد کے استعمال سے پولیس تفتیش کے عمل کو بہتر بنا سکتی ہے۔ تفتیشی ادارے اب ڈیجیٹل شواہد، سی سی ٹی وی فوٹیجز، اور موبائل فون ڈیٹا کے ذریعے بھی شواہد اکٹھے کر سکتے ہیں، جو عدالت میں مقدمے کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔‘