ہزاروں برس قدیم نسوانی سنگھار خواتین میں بے حد مقبول ہے، نئی نویلی دلہنوں کا خاصہ شمار ہوتی ہے
* * * *شہزاد اعظم ۔جدہ* * * *
مہندی ، اک نسوانی سنگھار جو پیا کے گھر روانگی کے لئے ناگزیر تصور کیا جاتا ہے ۔اسے ماضی اور حال کی دلہنیں تو ببانگِ دہل استعمال کرتی ہیں مگر مستقبل کی دلہنوں کو مہندی کے محدود استعمال کی اجازت دی جاتی ہے۔ مہندی لگانے کوزمانۂ قدیم اور خصوصاً قدیم ہندوستان میں پایاجانے وا لا ایسا فن قرار دیا جاتا ہے جس میں ہاتھوں، پیروں اور بازوؤں کی آرائش و زیبائش کے لئے گلکاری کی جاتی ہے اورمختلف قسم کے دیدہ زیب نمونے بنائے جاتے ہیں جنہیں ’’انسانی کینوس پر مصوری‘‘کا نام دیاجا سکتا ہے۔
یہ نمونے حنا نامی پودے کے خشک پتوں کو باریک پیس کر ، اس میں پانی ملا کر گاڑھا پیسٹ تیار کر کے بنائے جاتے ہیں۔ حنا کو علم نباتات کی زبان میں ’’لاسونیاانرمس‘‘ کہا جاتا ہے۔مہندی آج بھی برصغیر کے علاوہ افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک کی خواتین میں بے حد مقبول سنگھار ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ مہندی کا لفظ سنسکرت لفظ’’مندھیکا‘‘سے ماخوذ ہے ۔ قدیم کتابوں میں مہندی اور ہلدی کے استعمال پر مبنی تحاریر موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قدیم زمانے میں خواتین اپنی ہتھیلیوں پر مہندی لگایا کرتی تھیں ۔
گاہے مرد بھی اس کا استعما ل کر لیا کرتے تھے تاہم جیسے جیسے وقت کا پہیا گھومتا گیا، مردوں میں بھی اسکا استعمال عام ہوتا گیا۔مہندی اور اُبٹن کی شکل میں ہلشی کا استعمال بھی ہندوستان کی قدیم رسموں میں شامل ہے ۔ ہندوستان میں عام طور پر مہندی کے ذریعے ہتھیلی پر سورج نما ڈیزائن بنایاجاتا تھا۔ مہندی کے نمونوں میںبے حد تنوع پایاجاتا ہے ۔ انہیں 3اہم حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جن میں حنا کے عربی ڈیزائن، ہندوستانی ڈیزائن اور پاکستانی ڈیزائن شامل ہیں۔ خواتین زیادہ تر ہاتھوں اور پیروں پر ’’حنائی مصوری‘‘ کراتی ہیں جو نئی نویلی دلہنوں کا خاصہ شمار ہوتی ہے ۔ جلد کے سنگھار کے لئے مہندی کا رنگ استعمال کرنے کے حوالے سے اختلاف پایاجاتا ہے ۔
حنا کے پتوں کو پیس کر ان سے جلد پر مختلف نمونے بنانے کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اس کی ابتداء مصری ممیوں سے کی گئی تھی جن کے ناخن اور بالوں میں سرخی مائل بھوری رنگت کی حنا لگائی جاتی تھی۔ ماہرین ِ نباتیات کا کہنا ہے کہ مہندی کا پودا مصر میں پایاجاتا تھا جہاں سے اسے باقاعدہ طور پر ہندوستان لایاجاتا رہاجہاں خواتین اپنے ہاتھوں اور پیروں کے سنگھار کے لئے مہندی کا استعمال کرتی ہیں اور یہ سلسلہ ہزاروں سال قبل سے جاری ہے ۔
مہندی کو طبی مقاصد کے لئے بھی استعمال کیاجاتا رہا ہے ، اس کے علاوہ بال، جلد اور کپڑے رنگنے کے لئے بھی حنا استعمال کی جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ گھوڑوں کی گردن پر پائے جانے والے’’ ایال‘‘ اورمختلف جانوروں کی جلد کے بال رنگنے کے لئے بھی مہندی کا استعمال کیاجاتا ہے۔ مہندی کی ایک اور تعریف یوں کی گئی ہے کہ یہ جلد کی عارضی زیبائش کے کام آتی ہے۔مغربی ممالک میں مہندی یا حنا کومقبول بنانے میں ہندوستانی سینمااور تفریحی صنعت کا اہم کردار ہے۔ نیپال کے علاوہ بنگلہ دیش اور مالدیپ کے عوام بھی مہندی کا استعمال کرتے ہیں۔انسانی جلد پر مہندی سے مصوری کاسلسلہ 1990ء کی دہائی کے اواخر میں مغربی ممالک میں فیشن کے طور پر معروف ہواجہاں اسے ’’حنا ٹیٹوز‘‘ کا نام دیا گیا۔
ہندوستان اور پاکستان میں خواتین مختلف تہواروں اور شادی تقریبات میں مہندی کا خصوصی اہتمام کرتی ہیں۔ عید الفطر اور عید الاضحی کے مواقع پر بھی خاص طور پر مہندی لگائی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والی ترقی کے باعث حنا نے بھی ترقی کی ہے ۔ آج کل کیمیکل سے تیار کردہ مہندی خصوصی کونز میں بھر کر فروخت کی جاتی ہے ۔ یہ نہ صرف جلد خشک ہوجاتی ہے بلکہ کون کے باعث اس سے انسان کے ’’جیتے جاگتے کینوس ‘‘پر مصوری بھی آسان ہو جاتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ آج کل خواتین ہاتھوں، پیروں کے علاوہ نہ صرف بازوئوں اور بانہوں پر مہندی لگاتی ہیں بلکہ بیوٹی پارلرز جا کرشانوں کی پشت پر بھی مہندی کے ڈیزائن بنواتی ہیں۔ مرد صاحبان بھی خواتین سے پیچھے نہیں، وہ بھی اپنے بازوئوں، ٹانگوں، کمر اور سینے پر مہندی کے ڈیزائن بنواتے ہیں۔ کون مہندی کا رواج زیادہ تر شہروں تک ہی محدود ہے ۔
گاؤں میں تو آج بھی خواتین مہندی کے تازہ پتے لے کر انہیں تیل کے ساتھ چکی میں پیستی ہیں اور مہندی کا پیسٹ بنا لیتی ہیں جو بلا شبہ کون مہندی کی طرح شفاف تو نہیں ہوتا مگر اس کا رنگ کون مہندی کے مقابلے میں کہیں زیادہ گہرا ہوتا ہے اس کے علاوہ مسحور کُن حنائی خوشبوبھی اس کا خاصہ ہوتی ہے۔ حنا پیسٹ پلاسٹک کون کے علاوہ عام طور پرکسی پینٹ برش یا تنکے سے لگایاجاتا ہے ۔ 15سے 20منٹ کے اندر اندر مہندی کا پیسٹ خشک ہو نے لگتا ہے اور اس میں شگاف نمودار ہو جاتے ہیں ۔ اس کے لئے لیموں کے عرق اور سفید شکر کے آمیزے سے مہندی کو نم کیاجاتا ہے جس کے باعث جلد پر اس کا گہرا رنگ چڑھتا ہے جو ایک سے 3ہفتے تک قائم رہتا ہے۔ اس کا انحصار مہندی کی قسم اور اس کے معیار پر ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ اگر زیتون، تل یا ناریل کے تیل سے نم کیا جائے تو اسکا رنگ نہ صرف مزید گہرا ہو جاتا ہے بلکہ دیر تک قائم بھی رہتا ہے۔ پاکستان میں لڑکی کی رخصتی سے پہلے ہونے والی تقریبات میں’’مہندی‘‘نامی تقریب کو اہمیت حاصل ہے جو دلہن والوں کے ہاں منعقد ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش میں مہندی کی تقریب کو دو حصوں میں تقسیم کر دیاجاتا ہے۔ ایک تقریب دلہن کے ہاں ہوتی ہے تو دوسری دولہا والوں کے ہاں بپا ہوتی ہے ۔