Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معانقہ

جب ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی نے ’’دہشتگردی کیخلاف متحد ہوکر جدوجہد کرنے کا عہد کرتے ہوئے ایک دوسرے سے معانقہ کیا تھا تو میرے سوال کی سمت تبدیل ہوگئی تھی
* * * *جاوید اقبال* * *
انٹرنیٹ پر تقریباً5منٹ کی فلم تھی۔ دیکھتے ہی مجھے ڈاکٹر عبدالقیوم کی مہربان شخصیت یاد آگئی۔ شاہ ظاہر شاہ کے دور اقتدار میں افغانستان کے وزیر تعلیم تھے۔ سوویت افواج کے کابل میں داخلے سے پہلے وہاں سے نکلے اور ریاض پہنچ گئے۔ عمر کے ابتدائی برسوں میں کابل میں انگریزی کے استاد رہے تھے چنانچہ جامعہ الملک سعود کیلئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئے۔ ہمارے شعبے میں تقرری ہوئی تھی۔ 80کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں سوویت اتحاد نے کرہ ارض پر کہرام مچا رکھا تھا۔ آنے والے برسوں کا سوچ کر دل افسردہ ہوتا تو ڈاکٹر عبدالقیوم حسب معمول فارسی میں دلجوئی کرتے اور پھر انگریزی پر آتے ’’آقای اقبال! شما چرامی ترسید؟ چرانمی فہمید؟ (مسٹر اقبال، آپ کیوں ڈرتے ہیں؟ یہ کیوں نہیں سمجھتے) کہ’’ پاکستان اور افغانستان جڑواں بھائی ہیں اور ہم یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ افغانستان کی دیوار کو اس کا بھائی گرنے نہیں دیگا اور اسی طرح ہم سوویت ریچھ کو طورخم پار کرنے نہیں دینگے‘‘۔ اور پھر انٹرنیٹ پر تقریباً5منٹ کی وڈیو فلم دیکھ کر مجھے وہ نوجوان افغان طالب علم محمد نسیم اور اسکے درجنوں ساتھی بھی یاد آئے۔
وہ سب 80کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ہی سعودی وزارت تعلیم کے وظائف پر ہماری جامعہ میں حصول تعلیم کیلئے آئے تھے۔ جونہی انہیں ہفتے بھر کی تعطیلات ہوتیں پشاور پہنچ جاتے اور جہادی تنظیموں میں شامل ہوکر سرحد پار کرتے اور شانوں پر بندوقیں رکھے پہاڑیاں پھلانگتے رہتے یا اپنے ہی ساتھیوں کے دریدہ بدن سمیٹتے قبروں میں اتارتے رہتے۔ سکوت ہوتا تو پشاور لوٹتے اور نیا اسلحہ اٹھائے پھر سرحد پار کر جاتے۔ ریاض واپسی پر کبھی میرے کمرے میں آتے تو جنگ کی حیرت انگیز داستانیں سناتے۔ معرکوں کی تفصیل ہوتی جلال آباد، خوست، قندھار ، کابل ، پشاور ، پشاور.....پشاور!!‘‘ اور اب بات انٹرنیٹ پر چلنے والی اس تقریباً5منٹ طویل وڈیو فلم کی ہے اس کا آغاز کابل میں گزشتہ دنوں ہونے والے دہشتگردی کے واقعہ سے ہوتا ہے۔ آتشگیر مواد سے بھرا ایک ٹرک پھٹتا ہے ۔ 90لوگ جاں بحق او ر400سے زیادہ زخمی ہوتے ہیں۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی دکھائے جاتے ہیں جو اس دھماکے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہیں۔ تب تبصرہ نگار کی آواز ابھرتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس اندوہناک واقعہ اور اسی طرح کے دوسرے واقعات کے بعد کابل نے پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کردی ہے تاہم مغربی تجزیہ کاروں کے مشاہدات ایک مختلف صورتحال کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ رابرٹ لیگا مور ایک سابق برطانوی فوجی افسر ہیں۔
انہیں افغانستان میں جنگ کا بہت تجربہ ہے۔ لیگا مور کہتے ہیں افغانستان کی حکومت دہشتگردی کے ہر واقعہ میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتی ہے۔ میں اس سے متفق نہیں ہوں اگرچہ ہمیں متعدد بار کہا گیا کہ ایسے واقعات کے پیچھے پاکستانی ہاتھ تلاش کریں۔ حقیقت ہے کہ دہشتگردی کے کسی بھی واقعہ میں پاکستان ملوث نہیں تھا ۔ہم معرکوں کے دوران اپنے حریف طالبان کی باتیں سن لیتے تھے۔ وہ ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرتے تھے۔ ہم نہ صرف انکی گفتگو سنتے تھے بلکہ ان کے لہجوں سے یہ بھی سمجھ جاتے تھے کہ وہ کس علاقے سے ہیں۔ کبھی بھی ، کسی بھی جگہ ہمیں وہاں پاکستان کے شمالی علاقوں کے جنگجو افراد یا آئی ایس آئی کے ارکان کی موجودگی کا احساس نہیں ہوا۔ اس کے بعد وڈیو فلم میں ڈیوڈ پٹرایاس کا بیان دکھایا گیا۔ پٹرایاس سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور امریکی افواج کے کمانڈر انچیف رہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ، افغانستان میں کسی بھی دہشتگرد تنظیم کی حمایت نہیں کررہا۔ انہوں نے واضح کیا کہ انہیں کبھی بھی اس بات پر یقین نہیں آیا کہ افغانستان میں دہشتگردی کی مرتکب تنظیموں کو پاکستان سے یا آئی ایس آئی سے کوئی مدد مل رہی ہے۔وہاں حالات انتہائی سخت ہیں اور ان تنظیموں اور آئی ایس آئی کے درمیان کوئی رابطے نہیں ہیں۔ وڈیو میں ڈیوڈ پٹرایاس کے بیان کے بعد امریکی وزیر خارجہ چک ہیگل کا وہ خطاب دکھایا گیا ہے جو انہوں نے اپنے ملک کی خارجہ پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے ایوان نمائندگان میں کیا تھا۔
افغانستان میں روز افزوں دہشتگردی پر بات کرتے ہوئے چک ہیگل نے کہا تھا کہ ہندوستان، پاکستان کیلئے افغانستان میں مشکلات پیدا کررہا ہے۔ ہندوستان نے ہمیشہ افغانستان کو استعمال کیا ہے اور پاک افغان سرحد کے دونوں طرف دہشتگردوں کی ہر ممکن مدد کی ہے۔ وڈیو میں چک ہیگل کی تقریر کا اختتام ہوا اور پھر تبصرہ نگار کی آواز آئی ’’ پاکستان اور افغانستان ہمیشہ ہی یک جان دو قالب رہے ہیں کیونکہ دونوں ممالک ایک ہی خدا اور ایک ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
میرے علم میں نہیں ہے کہ آجکل ڈاکٹر عبدالقیوم کہاں ہیں؟ ہوسکتا ہے کہ کسی امریکی یا یورپی کنج عافیت میں خاموش بیٹھے اپنے افغانستان کا سوچ کر مغموم ہوتے ہوں لیکن اگر وہ ریاض میں ہوتے تو میں ضرور ان کے انداز میں ہی ان سے سوال کرتا’’آقای دکتور! شما چرانمی فہمید؟‘‘ ذرا اپنے موجودہ صدر اشرف غنی سے یہ تو پوچھیں کہ جب روسی جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر افغان شہروں پر شب و روز بمباری کرکے انہیں تاراج کررہے تھے اور افغانی ضعیف عورتیں اور بچے مہاجر ہوئے پاکستان کی آغوش مادر میں پناہ پا رہے تھے تو ہندوستان نے لیونڈ برزنیف کے اس ستم کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھائی تھی؟ سلامتی کونسل میں روس کے خلاف پیش کی گئی قرارداد پر خاموشی کیوں اختیار کی تھی؟ توکل جب ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی نے ’’دہشتگردی کیخلاف متحد ہوکر جدوجہد کرنے کا عہد کرتے ہوئے ایک دوسرے سے معانقہ کیا تھا تو میرے سوال کی سمت تبدیل ہوگئی تھی۔ میں نے طورخم کے پار والوں سے پوچھا۔ ’’آقا ی اشرف غنی! شماچرانمی فہمید؟‘‘ (جناب اشرف غنی! آپ کیوں سمجھ نہیں پارہے؟)

شیئر: