ماہرین سمجھاتے، بجھاتے اور بتلاتے ہیں کہ اگر کالا باغ جیسے ڈیم بنا دیئے جائیں تونہ صرف اربوں ڈالر کا پانی بچایاجا سکے گابلکہ وہ لاکھوں روپے بھی بچ سکیں گے
* * * * شہزاد اعظم* * * * *
زندگی میں بعض لمحات ایسے بھی آتے ہیں جب آدمی کہتا کچھ ہے جبکہ اس کا مقصد کچھ اور ہوتا ہے ، اسی طرح سننے والا سمجھتا کچھ ہے جبکہ اس کو توقع کچھ اور ہوتی ہے ۔اسی طرح ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی خرانٹ یا چلترشخصیت انتہائی سادہ جملہ کہہ بیٹھتی ہے اور گاہے ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی سادہ ومعصوم ہستی کی زبان اچانک پھسل جاتی ہے اور اس سے کوئی بہت ہی بامعنی جملہ ادا ہو جاتا ہے۔ایسا ہی کل ہمارے ساتھ بھی ہوا۔واقعہ یوں ہے کہ ہم اپنے’’ لمحاتِ فرصت غلط کرنے‘‘ کیلئے قدیم دوست ’’اَچھن‘‘کے گھر پہنچ گئے۔یہاں اس امر کی وضاحت ہم اپنا فرضِ تصنیفی سمجھتے ہیں کہ آخر ’’اَچھن‘‘ کا نام ’’اَچھن‘‘کیوں پڑا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ نجیب الطرفین فرمانبردار تھا یعنی اسکے والد اپنے والدین کے انتہائی فرمانبردار اور اس کی والدہ اپنے والدین کی بے حد فرمانبردار تھیں اس لئے جب’’اَچھن‘‘ پیدا ہوا تو والدین نے اس کا نام ’’چمن گل‘‘ رکھا مگر جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا گیا، فرمانبرداری اس پر مسلط ہوتی گئی ۔ وہ ہر کسی کی بات پر ’’اچھا‘‘کہا کرتا ۔
ناں یا نفی کا کلمہ تو گویا اس کی لغت میں شامل ہی نہیں تھا حتیٰ کہ کوئی شخص اسے غصے میں کہہ دیتا کہ تم حقیقی معنوں میں گدھے ہو۔ وہ جواباً کہتا ’’اچھا۔‘‘کوئی کہتا کہ تم نے تو جاہلوں والی بات کی تو وہ کہتا ’’اچھا‘‘۔ اس کی زبان سے اچھا اچھا سن کر سب نے اس کا نام ہی’’اَچھن‘‘ رکھ دیا۔ بہرحال ہم’’اَچھن‘‘ کے گھر میں مہمان خانے کی ایک کرسی پر براجمان چائے کی آمد کا انتظار کر رہے تھے ۔ اسی دوران ’’اَچھن‘‘ کے ساتھ وطن کی سیاسی صورتحال پر گفتگو کا سلسلہ بھی جاری تھا ۔ ہم نے کہا کہ ’’اَچھن‘‘ !سچ یہ ہے کہ ہمارے ہاں نظام باقی نہیں رہا۔ اسی دوران چلمن کی اوٹ سے ’’اَچھن‘‘ کی نانی کی آواز آئی کہ آ کر چائے لے جاؤ ۔ اس کے ساتھ انہوں نے ہماری گفتگو میں لقمہ دیا کہ ’’ہاں بیٹے! تم صحیح کہہ رہے ہو، اب نظام کہاں رہا، وہ تو بے چارہ برسوں قبل ہی انتقال کر گیا تھا۔
مجھے یاد ہے ،یہ اس وقت کی بات ہے جب میری شادی بھی نہیں ہوئی تھی ،ریڈیو پاکستان ، لاہور سے پروگرام نشر کیاجاتا تھا ’’جمہور دی آواز‘‘، اس میں’’نظام ‘‘نامی صاحب تھے جو حکومت ِ وقت کے اچھے کاموں کی اچھائی اور برے کاموں کی برائی کیا کرتے تھے ۔ایک دن ’’نظام ‘‘ کے ’’فوت‘‘ ہونے کی خبر آئی ۔ بس اُسی روز سے نشریات ’’جمہور دی آواز‘‘بھی بند ہوگئی کیونکہ پاکستان میں ’’نظام ‘‘ نہیں رہا تھا۔ وہ دن سو آج کا دن،وطن عزیز میں سب کچھ ’’نظام‘‘ کے بغیر ہی چل رہا ہے ۔‘‘
نانی کی باتیں سن کرنہ صرف ہمارے بلکہ ’’اَچھن‘‘ کے بھی ہاتھوں کے توتے اُڑ گئے ، پیروں تلے سے زمین کھسکتی محسوس ہوئی ۔ہکا بکا ہونے کے باعث ہم دونوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے ۔ہم نے ’’اَچھن‘‘سے کہا کہ نانی تو اُس افسانوی شہرت یافتہ صداکار نظام کی بات کر رہی تھیں ۔ ابھی ہماری بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ ’’اَچھن‘‘نے قطع کلامی کی معافی مانگ کر بولنا شروع کر دیا کہ محترم!
ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ نانی اماں بلا شبہ نظام نامی عظیم فنکار کی بات کر رہی تھیں لیکن اگر ہم ان کی گفتگو میں نظام سے مراد ملکی نظام لے لیں تو بھی نانی کا بیان دورِ حاضر کی ’’زمینی حقیقت ‘‘قرارپائے گا کیونکہ وطن عزیز میں جمہور یعنی عوام کی آواز کو بند کر دیاگیا ہے، عوام کا گلا گھونٹ دیاگیا ہے ۔ کوئی صاحبِ اختیار عوام کی پکار سننے یا ان کے مسائل پر توجہ دینے کی زحمت نہیں فرماتا۔22کروڑ پاکستانیوں کو سیاسی نقار خانے کی توتیاں بنا کر رکھ دیاگیا ہے جن کی صدا سننے کیلئے تیار کوئی نہیں۔ہمارے پاکستان میںطرح طرح کے شہر آباد ہیں، کوئی جڑواں شہر ہے، کوئی فرانسیسی شہر’’پیرس‘‘ کی بہن توکوئی برطانوی شہر مانچسٹر کاپاکستانی ورژن، کوئی 2شہر بلحاظِ عمر کئی دہائیوں کے تفاوت کے باوجود ’’جڑواں‘‘ ہیں۔ کوئی شہروں کا دولہا ہے ، کوئی شہروں کی دلہن، کوئی سالہ ہے،تو کوئی شہروں کا بہنوئی ۔یہ سب باتیں ہیں، حقیقت کیا ہے اس کیلئے آ ج صرف اور صرف کراچی کی مثال پیش کی جا رہی ہے جسے’’عروس البلاد‘‘ یعنی ’’ پاکستان کے شہروں کی دلہن‘‘ کہا جاتا ہے مگر یقین جانئے یہ دلہن آج کسی’’ بیوہ، مطلقہ یا مخلوعہ‘‘ جیسی دکھائی دے رہی ہے۔
کتنے دن سے ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا کہ کراچی میں مون سون آنے والے ہیں اور یہ بھی علم تھا کہ شہر کی گلیوں ا ور چھوٹی موٹی سڑکوں کا تو مذکور ہی کیا، شاہراہوں پر بھی کچرا ’’ببانگِ دہل‘‘ یوں پھیلا ہوا ہے کہ جیسے یہ شہر کا حصہ نہیں بلکہ ’’کچرستان ‘‘ ہے۔ اس پر جب مون سون کی برسات ’’کریلا ، نیم چڑھا‘‘ کے مصداق ہوگی اور شہریوں کو تو یوں لگے گا جیسے شہر کے تمام کریلے ، جا بجا موجود نیم کے درختوں پرچڑھے بیٹھے ہیں۔عظیم تر کراچی کی عظیم ترین بلدیہ کو اچھی طرح علم تھا کہ شہر کے تمام برساتی نالوں میں غٹے اڑے ہوئے ہیں، پانی کی نکاسی ناممکن ہے جس کیلئے کروڑوں روپے کے فنڈز جاری کئے گئے پھر بھی نالے بند، سڑکوں پر آبِ گند،کہاں ہیں عوام کے خادمانِ ارجمند؟یہی بات ہے کہ ہمارے ہاں سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ بھی نہیں، نانی نے ٹھیک کہا ناں کہ ’’نظام فوت ہو گیا۔‘‘
ایک اور مثال پیش ہے ۔ ہمارے وطن میں ہر سال سیلاب آتا ہے، اس سے کھڑی فصلیں بہہ جاتی ہیں، کچے مکانات بہہ جاتے ہیں، پانی کے ریلے مویشی بہا کر لے جاتے ہیں، انسانی جانیں بھی ضائع ہوتی ہیں، پھر خادمانِ عوام ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر سیلابی تباہ کاریوں کا فضائی جائزہ لیتے ہیں، تمام ٹی وی چینلز صاحبِ اختیار کی جانب سے کی جانے والی ہیلی کاپٹر کی سیر کو چقا چق کی وحشتناک صداؤں کے ساتھ ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے زیر عنوان’’ اسکرین نواز ‘‘کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ موصوف کے جائزہ لیتے ہی سیلاب شرمندگی کے باعث منہ چھپا لے گا۔وہ صاحبِ اختیار ، نام کے ذمہ دار8، 8انچ کھڑے پانی میں گھس کر کسی بچی کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں، کسی بڑھیا سے دعائیں لیتے ہیں اور ان تصاویر کوٹی وی چینلز پر کئی روز تک باربار نشر کرنے کا حکم دے کر لوٹ جاتے ہیں پھر ایک اور خبر آتی ہے کہ سیلاب میں مرنے والے کے لواحقین کو ایک لاکھ فی کس اور زخمی ہونے کے باوجود بچ جانے والے کو 50ہزار روپے امداد دی جائے گی۔ دوسری جانب ماہرین سمجھاتے، بجھاتے اور بتلاتے ہیں کہ اگر کالا باغ جیسے ڈیم بنا دیئے جائیں تونہ صرف اربوں ڈالر کا پانی بچایاجا سکے گابلکہ وہ لاکھوں روپے بھی بچ سکیں گے جو سیلاب سے مرنے والوں کے لواحقین کو ایک لاکھ روپے فی کس کے حساب سے ادا کرنے پڑتے ہیں۔
پھر یوں ہوتا ہے کہ سال گزرجاتا ہے اور پھر سیلاب آتا ہے، فصلیں تباہ ہوتی ہیں،مویشی بہہ جاتے ہیں، انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ صاحبِ اختیارہیلی کاپٹر سے فضائی جائزہ لیتے ہیں، پانی میں گھستے ہیں، بڑھیا دعا دیتی ہے، بچی شفقت لیتی ہے، فی مرگ ایک لاکھ اور فی گھائل نصف لاکھ کا اعلان ہوتا ہے،ماہرین ڈیم کی تعمیر ناگزیر قرار دیتے ہیں، وقت گزر جاتا ہے اور پھر اگلا سیلاب آجاتاہے۔ یہ سلسلہ یونہی جاری ہے۔ آپ ہی بتائیے کہ نانی نے صحیح کہا ناں کہ’’نظام فوت ہو چکا ہے۔‘‘ یقین نہیں تو اس مرتبہ غورکر لیناکیونکہ سیلاب کا موسم آنیوالا ہے۔’’اچھن‘‘ نے کہا کہ میری نانی نے بالکل صحیح کہا’’نظام‘‘ بھی فوت ہو چکا اور’’ نظام‘‘ بھی فوت ہو چکا ۔