غزل
- - - - -
نئے موسم کا آنکھوں میں دھواں ہے
کوئی پہچاننے والا کہاں ہے
عذابوں کابھرم رکھنے کی خاطر
ابھی زندہ جہاں میں ناتواں ہے
بلا نازل ہوئی ہے آسماں سے
تلاش اسکو کرو،دیکھو کہاں ہے
سبھی ہیں اجنبی صورت میں ملتے
نہ ہمدم ہے، نہ کوئی مہرباں ہے
سخن ہے جوابھی تک میرے لب پر
موقف وہ سبھی کے درمیاں ہے
میں کس سے خیر کی امید رکھوں
مرادل دوستوں سے بدگماں ہے
مذاق اچھا نہیں لگتا ہے شاہد
مری سوچوں کا جنگل بیکراں ہے
*شاہد نعیم۔جدہ