Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں آٹوموبائل سیکٹر آسان شرائط پر گاڑیاں اور موٹرسائیکل کیوں آفر کر رہا ہے؟

کمپنیوں کی جانب سے آسان شرائط پر گاڑیوں کی پیشکش کی بڑی وجہ سیلز میں کمی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں گاڑیاں اور موٹر سائیکل بنانے والوں کی جانب سے آئے روز صارفین کے لیے نئی آفر دیکھنے میں آ رہی ہیں۔
ماضی میں نئی گاڑی کی خریداری پر 2 سے 5 لاکھ روپے اضافی وصول کرنے والی کمپنیاں اب نئی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں کم قیمت اور ایسی شرائط پر دینے کو تیار ہیں جس کا کچھ ماہ قبل تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
کراچی کے رہائشی محمد ہارون نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہیں پاکستان میں گاڑی اسیمبل کرنے والی کمپنی سے کال موصول ہوئی اور فکسڈ انٹرسٹ ریٹ پر نئی گاڑی کی پیشکش کی گئی۔
کمپنی کے سیلز مین نے رجسٹریشن اور دیگر ضروری دستاویزات کی مد میں بھی انہیں ڈسکاؤنٹ کی آفر کی۔
محمد ہارون کے لیے  یہ فون کال حیران کن تھی کیونکہ ڈھائی سال قبل وہ اپنے گھر کے استعمال کے لیے ایک ہزار سی سی کی گاڑی خریدنا چاہتے تھے لیکن بینک کی سخت شرائط اور کار کمپنیوں کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ تھی کہ وہ اسے پورا نہیں کر سکے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ نئی گاڑی کی خریداری پر گاڑی کی اصل قیمت سے 2 لاکھ روپے زیادہ وصول کیے جا رہے تھے جبکہ دیگر دستاویزات کی مد میں بھی 80 ہزار روپے کا خرچہ بتایا گیا تھا۔
محمد ہارون کا کہنا ہے کہ وہ ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان شرائط پر گاڑی نہیں خرید سکتے تھے۔ 
حال ہی میں سوزوکی، یاماہا اور چیری سمیت دیگر کمپنیوں نے نا صرف اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا ہے بلکہ آسان اقساط پر اور بنا سود موٹر سائیکلیں دینے کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی خریداری پر بینک کے مراحل میں سہولت کی بھی پیشکش کی ہے۔

ڈالر کی قیمت اور شرح سود میں اضافے کے باعث گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ فوٹو: اے ایف پی

آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر ایچ ایم شہزاد نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان میں مقامی سطح پر گاڑیاں اسمبل کرنے والی کمپنیوں نے صارفین سے ماضی میں اپنی مرضی سے پیسے وصول کیے ہیں لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔
ان کے مطابق ڈالر کے ریٹ اور شرح سود میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے پاکستان میں آٹو سیکٹر شدید بحران کا شکار ہے۔
ایچ ایم شہزاد  کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی فروخت میں کمی اور دیگر وجوہات کے باعث کمپنیاں اب آسان شرائط پر گاڑیوں کی پیکش کر رہی ہیں۔
مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں آٹو سیکٹر میں خریداری کا رجحان مسلسل 21 ویں مہینے میں بھی کم دیکھا جا رہا ہے۔ رواں مالی سال کے 9 ماہ کے دوران 69 ہزار 78 گاڑیاں فروخت ہوئی ہیں، جبکہ گزشتہ برس میں اسی عرصے کے دوران 1 لاکھ 10 ہزار 898 گاڑیاں فروخت ہوئی تھی۔
کنزیومر فناسنگ کی شرح سود میں اضافہ 
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے سخت مانیٹری پالیسی اختیار کیے جانے کے باعث اس وقت ملک میں کنزیومر فناسنگ کی شرح سود 25 فیصد سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے کنزیومر فناسنگ میں بڑی تیزی سے کمی دیکھی جا رہی ہے۔
رواں سال کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران کار فانسنگ میں 26 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ جون 2023 تک کے اختتام پر کارفنانسگ کا پورٹ فولیو 293 ارب 73 کروڑ تھا جو کم ہو کر 239 ارب 44 کروڑ روپے ہو گیا ہے
 بیرون ممالک سے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد
پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچرز ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل عبدالوحید خان کے مطابق پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیوں کی فروخت میں کمی کی ایک اہم وجہ بیرون ممالک سے استعمال شدہ گاڑیوں کا پاکستان میں درآمد ہونا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’حکومت کو آٹو سیکٹر کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ ملک میں ڈالر کی قدر میں اضافہ، شرح سود بڑھنے اور درمیانے طبقے کی قوت خرید متاثر ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کی فروخت میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔‘

سخت مانیٹری پالیسی کے باعث ملک میں کنزیومر فناسنگ کی شرح سود 25 فیصد سے زیادہ ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

آٹو سیکٹر کے ماہر مشہود خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت میں مسلسل نمایاں کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے لیکن انتظامیہ اس جانب توجہ نہیں دے رہی ہیں۔ 
’پاکستان میں کار فنانسنگ 22 سے 24 فیصد پر ہے، شرح سود بڑھنے کی وجہ سے لوگ اب گاڑیوں کی خریداری میں دلچسپی نہیں لے رہے۔ کچھ عرصہ قبل نئی گاڑی کے ماڈل آنے پر بکنگ کی کرنے والے بھی اب نئی گاڑیوں کی طرف نہیں جا رہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایک جانب ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے جس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب مرکزی بینک کی گاڑیوں کی خریداری پر کڑی شرائط ہیں۔
آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر ایچ ایم شہزاد کا کہنا ہے کہ مقامی سطح پر گاڑیاں بنانے والی کمپینیوں نے باہر سے سامان درآمد کرنے اور گاڑیاں اسمبل کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔
’اگر مقامی سطح پر کام کرنے والی کمپنیاں پاکستان میں سامان بنانے کے پلانٹ لگاتیں تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ انڈیا میں آٹو سیکٹر بہت آگے ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے وہ گاڑیاں اسمبل نہیں کر رہے بلکہ اپنے ملک میں بنا رہے ہیں۔‘

شیئر: