وہ انکشاف کررہی تھی،عمیر کے خواب بکھر رہے تھے
اس ”مہارانی “ کا لینز کھو گیا، ہ اس کی مٹیالی آنکھوں نے اسے پچھتاوے سے آشنا کردیا
عنبرین فیض احمد۔ کراچی
عمیر کی نوکری لگتے ہی اس کی بہنوں اور والدہ کو اس کی شادی کی فکر لاحق ہوگئی ۔ وہ انجینیئر بن چکا تھا او ر ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کررہا تھا۔دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔اس کی شادی کا ارمان بھلا سب کو کیوں نہ ہوتا۔سب گھر والوں کی متفقہ رائے تھی کہ عمیر کے لئے اس کی کزن یعنی پھوپھی کی بیٹی کا رشتہ مانگ لیا جائے مگرعمیرکو کوئی اور لڑکی پسند آگئی تھی جس کی آنکھیں نیلی، گوری رنگت، سنہرے بال تھے، وہ اس کے خیالوں پر چھائی ہوئی تھی۔اس نے اپنے خاندان میں ہونے والی ایک تقریب میں اسے دیکھا تھا۔ دور سے پڑنے والی ایک نظر میں ہی وہ اس پر فدا ہو گیا اس کی وہ نیلی آنکھیں گوری رنگت کا ندھوں پر پھیلے ہوئے سیدھے گولڈن براﺅن بال فیشن ایبل ڈریس عمیر کو بے حد بھا گیا تھاتو وہ اس کے سحر میں ایسا کھویا کہ وہ اس کی ضدبن گئی۔ اسی وقت اس نے دل میں ارادہ کر لیا کہ وہ اسی ”نیلی آنکھوں والی مہارانی “سے شادی کرے گا۔ اس کے بعد اس کی گھروالو ںسے ایک ہی تکرار تھی کہ وہ شادی صر ف اسی نیلی آنکھوں والی سے کرے گا حالانکہ وہ اسے اچھی طرح سے واقف بھی نہ تھا صرف دور سے دیکھ کر ہی وہ اس کے طلسم میں جکڑا گیا تھا اور اس کے دل ودماغ پر نیلی آنکھیں گوری رنگت اور گولڈن بال چھا گئے تھے کہ وہ ان خیالات سے نکل نہیں پا رہاتھا۔
وہ ہر طرح سے اپنی ماں اور بہنوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتا کہ وہ خاندان کی سب سے خوبصورت لڑکیوں میں سے ایک ہے۔ وہ سوچتا رہتا کہ اس کو وہ ہر قیمت پر حاصل کرکے رہے گا اس کے لئے خواہ اس کی کچھ بھی کرنا پڑے۔ اس کے لئے چاہے کوئی خوش ہو یا خفا اس کو کسی کی پروا نہیں تھی۔وہ کہتا کہ بس امی میں نے کہہ دیاہے کہ میں شادی کروں گا تو اسی سے۔ وہ کہتیں کہ میں بھی تمہاری ماں ہوں تمہارا برا نہیں چاہتی ، بیٹاکہتاکہ آخر اس میں برائی کیاہے؟ وہ جواباً کہتیں کہ اس میںکوئی برائی نہیں لیکن ہم ٹھہرے متوسط طبقے کے لوگ ، ہم اس کے فیشن کے خرچے پور ے نہیں کر سکتے۔انہوں نے بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی کہ تمہارے ابو کوئی وزیر نہیں اور نہ ہی تم کسی ملک کے مہاراجہ ہو۔ ہمیں تو اپنے ہی جیسے متوسط طبقے کے لوگ چاہئیں اور اپنے جیسی ہی لڑکی چاہئے تا کہ وہ گھر میں ہم سب کے ساتھ مل جل کر رہے۔
امی جان اس کے ابو کون سے کمپنی کے مالک ہیں، ہمارے جیسے سیدھے سادھے ہی ہیں ،نوکری پیشہ لوگ ہیں ۔پھر امی وہ ہے بھی تو کتنی خوبصورت کہ جس کی نظر اس پر پڑجائے ، ہٹتی ہی نہیں ۔عمیر نے التجاءکے ا نداز میں اپنی ماں کاہاتھ تھام لیا۔ وہ کہنے لگیں تو یہ ہے آج کل کی اولاد کاحال، ہمارے خاندان میں ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی موجود ہے ،پڑھی لکھی ،خوبصورت ،سادہ صورت شکل والی اور سب سے بڑھ کر حیا دار۔ اس نے جواب دیا کہ امی آپ خواہ مخواہ کی ضد کر رہی ہیں، وہ بھی تو ہمارے ہی خاندان سے ہے۔
ماں نے بیٹے کو لاکھ سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانا وہ صرف اس کی ظاہری خوب صورتی سے متاثر ہوگیاتھا ورنہ وہ تو اس لڑکی کو صحیح طور سے جانتا بھی نہیں تھا۔ اس کی عادات واطوارکااس کو کچھ علم نہیں تھا۔ امی جان نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ ظاہری حسن تو صرف وقتی ہوتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی کشش کھو دیتا ہے اور آج کل خوب صورت لگنا کوئی مشکل کام بھی نہیں ۔سب میک اپ اور مصنوعی طریقوںکا کمال ہوتا ہے ۔اصل خوبصورتی تو دل کے اندرپوشیدہ ہوتی ہے۔ ظاہری خوبصورتی تو چند روزہ ہوتی ہے جو بہت جلد ماند پڑ جاتی ہے۔
امی آپ کو تو خوش ہونا چاہئے کہ میں نے خاندان ہی کی لڑکی کو پسند کیا ہے۔ ماں نے کہا کہ ہمیں تو گھر بسانے والی لڑکی چاہئے ۔ہم نے کوئی اسے سجا کر شو کیس میں نہیں رکھنا ۔وقت گزرتا گیا۔سب لوگ عمیر کو سمجھا سمجھا کر تھک گئے مگر اس کی ایک ہی رٹ تھی کہ مجھے صرف نیلی آنکھوں والی سے شادی کرنی ہے۔ امی ،ابو، بہنیں اور پھر خاندان کے بزرگ رشتہ دار، جب سب نے دیکھا کہ معاملہ کسی طرح حل ہوتا نظر نہیں آرہاتو خاندان کے بزرگوں نے جا کر رشتہ طے کیا اور لڑکی کو انگوٹھی پہنا آئے۔ منگنی والے دن ہی شادی کی تاریخ بھی طے کر دی گئی۔
اب یوں ہوا کہ سسرال کے چکر کاٹنا عمیر کا معمول بن گیا ۔تب بھی اسے اپنی ہونے والی دلہن کی ایک جھلک دیکھنے کا انتظار رہتا تھا۔ وہ اس محبت کے اس جنون میں اپنے امی ابو کی محبت اور بہنوں کے ارمان سب کچھ بھلا بیٹھا تھا ۔وہ بہت کچھ پیچھے چھوڑ آیا تھااور پھر وہ دن بھی آ گیا جب شادی ہونی تھی۔بالآخر وہ نیلی آنکھوں والی، گوری رنگت اور گولڈن بالوں والی لڑکی اس کی دلہن بن کر اس کے آنگن میں اتر آئی۔
شادی کے بعد شروع شروع میں کچھ دن تو وہ ہواﺅں میں اڑتا رہا۔ گھومنے پھرنے کے لئے بیرون ملک بھی گیا اور پھر دعوتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔آہستہ آہستہ یہ سارے سلسلے کم ہوتے گئے ۔رفتہ رفتہ زندگی کی گاڑی روٹین پر آنے لگی۔عمیرصبح کو آفس جاتا تواس کی بیوی کی بجائے اس کی امی ہی اس کےلئے ناشتہ تیار کرتیں ۔عمیر کی دلہن نے ایک دن بھی شوہر کے لئے ناشتہ تیار کرنے کی غرض سے اٹھنا اپنی ذمہ داری نہ سمجھا عمیر اپنی امی کے سامنے شرمندگی سے نظریں جھکا کر رہ جاتا۔
جب وہ شام کو دفتر سے گھر لوٹتا تو اس کی بیگم اس کو تیار ملتی کہ بس آج یہاں جانا ہے تو کل وہاں جانا ہے۔ یونہی دن گزرتے جا رہے تھے ۔اکثر عمیر کی امی کو ناگوار گزرتا کہ گھر کے بزرگوں کے سامنے دلہن کا یوں گلے میں دوپٹہ لٹکا کر پھرنا درست نہیں مگر منہ سے وہ کچھ نہ کہتیں ۔
آج عمیر نے خود ہی اپنی بیگم کو آفس سے فون کر کے تیار رہنے کو کہا کہ آج اسے اپنے ایک دوست ،جو اس کا کزن بھی ہے اس سے ملنے کے لئے اس کے گھر جانا ہے ۔ وہ اس کا بچپن کا دوست بھی ہے۔ دونوں اکٹھے کھیلے پھر اسکول کالج میں بھی اکٹھے ہی رہے ۔کافی عرصہ ساتھ رہے، کافی دوستی تھی دونوں میںلیکن جب شام کو دفتر سے وہ گھر لوٹا تو حیران رہ گیاکہ اس کی بیگم تیار نہیں تھی ۔اس نے سوال کیا کہ جب تمہیں معلوم تھا کہ ہمیں جانا ہے تو تیارکیوں نہیں ہوئیں۔ اس کی بیگم نے جواب دیا کہ آج تو کہیں کی تیاری نہیں ہو سکتی ۔آپ نے اچانک ہی پروگرام بنا لیا۔ بجلی بھی نہیں ہے۔عمیر نے کہا کہ اس میں کیا قباحت ہے ؟الماری میں اتنے سارے جوڑے لٹک رہے ہیں، کوئی بھی پہن لو۔اس نے کہا کہ آج میں پارلر بھی نہیں جا سکی، وہ بھی بند تھا کیونکہ بجلی نہیں ہے ۔ایک اور مسئلہ ہے کہ آئی لینز بھی کہیں کھو گیا ہے اچانک ہی ہاتھ سے کہیں گر گیا ۔پتہ ہی نہیں چل سکا۔ عمیر نے استفسار کیا کہ اس سے میرے دوست کے گھر جانے کا کیا تعلق ہے۔ جواب ملا کہ ”بس ! میں نہیں جا سکتی۔“
عمیر نے جب غور سے اس کی طرف دیکھا تو حیرت سے کہا کہ بیگم تمہاری آنکھوں کی رنگت کیسے تبدیل ہوگئی ؟بیگم نے کہا کہ میری آنکھوں کی رنگت تبدیل نہیں ہوئی بلکہ یہ تو ہمیشہ سے ہی مٹیالی تھیں۔ میں مختلف رنگ کے لینز استعمال کرتی تھی۔ میری آنکھیں تو ایسی ہی ہیں۔ یہ سب کرعمیر کو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی بم اس کے سر پر گرگیا ہو۔اس کی بیگم نے کہا کہ میری جلد بھی بہت کھردری اور داغدار ہے اس لئے میں باقاعدگی سے پارلر جاتی ہوں۔ آج میں پارلر نہیں جا سکی اس لئے کہ بجلی چلی گئی تھی۔ میں کل صبح ہی صبح پارلر کا چکر بھی لگاﺅں گی اور نیا لینز بھی خرید کر لے آوں گی۔ ویسے اب کون سے کلر کالینزمجھ پر سوٹ کرے گا؟ وہ عمیر سے پوچھ رہی تھی اورعمیر یہ حالت ہو رہی تھی جیسے کسی نے اسے گہری کھائی میں دھکیل دیا ہو۔ وہ منہ کے بل اس کے اندر جا گرا ہو ۔
عمیر نے کہا کہ آج تمہارے بال بھی تو چڑیا کے گھونسلے سے کم معلوم نہیں ہو رہے ۔ بیگم نے کہا کہ میرے بال گھنگریالے ہیں مگر مجھے سیدھے بال اچھے لگتے ہیں جب ہی تو اسٹریٹنر یوز کرتی ہوں مگر اس بار میں گولڈن کلر نہیں کراﺅں گی بلکہ ڈارک براﺅن کلر کراﺅں گی، یہ زیادہ سوٹ کرے گا۔ وہ انکشاف پر انکشاف کئے جا رہی تھی اورعمیرکے خواب بکھر رہے تھے۔نیلی آنکھیں گوری رنگت اور گولڈن بالوں کی جگہ مٹیالی آنکھیں کھردری جلد اور چڑیا کے گھونسلے جیسے بالوں نے اسے ابدی پچھتاوے سے آشنا کردیا۔