Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حج کا اولین سبق ، اخلاص وللّٰہیت

یہ محبت کا مر کز ہی نہیں بلکہ عا لمگیر تحر یک کا مرکز بھی ہے جس کی ابتدا حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے کی اور جس کی تکمیل حضرت محمد نے کی
* * * * *ڈاکٹر رخسانہ جبین* * * *
لبیک اللہم لبیک کا ورد کر تے ہو ئے قا فلے دنیا کے کو نے کو نے سے ایک حر م ،ایک قبلے کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں ۔دن بدن حجاج کرا م کی تعداد بڑ ھتی جا رہی ہے ۔تقر یبا ً ایک لاکھ صحا بہ کرام ؓ نے نبی اکرم کے ساتھ حجتہ الو داع ادا کیااور آج 15سو سال بعد یہ تعداد 35 لا کھ سے تجا وز کر چکی ہے ۔ ایام حج میں حر مین شر یفین کے ارد گرد ہر جا نب سر ہی سر نظر آتے ہیں ۔انسا نوں کا ایک سیلا ب ،سمندر کی جھا گ کے برابر انسان اور یہ سب وہ انسان ہیں جو اللہ و رسول کی محبت میں عبادت وریا ضت کے ذریعے اللہ کو را ضی کر نے کے لئے کر تے ہیں اور آتش دو زخ سے بچنے اور جنت کے حصول کی تڑپ و خو اہش لئے آتے ہیں۔گو یا سب نیکی کے طلب گار ہیں،رب کی رضا جوئی ہی انکا مقصد ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اتنے کثیر تعدادمیں نیک لو گوں کی مو جو دگی کے باوجودامت مسلمہ ابتلا وآزما ئش میں مبتلا ہے ؟ امت پر ذلت ونکبت طاری ہے ،مسلما ن دنیابھر میں مظلوم اور معتوب ہیں؟ یہ سوالا ت ہر ذی شعور حا جی کو پر یشان کر تے ہیں ۔
کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس حج سے مسلمان کوئی ایسی تر بیت لے کر جا ئیں ،ایسا عالمگیر پیغام لے کر جا ئیں ،ایسا مشتر ک لا ئحہ عمل لے کر جا ئیں کہ امت کی سر بلندی کے لئے دنیا بھر میں بیک وقت محنت شروع ہو جا ئے! یہ درست ہے کہ اسلام میں ہر عمل کا اصل مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے ،ہر عبادت اللہ کاحق ہے ۔اسکی عظمت ، حا کمیت ،خلاقیت اوراسکی ربو بیت کا تقا ضا ہے یعنی کہ انسا ن اس کے آگے نما ز میں سر بسجود بھی ہو،اس کے خا طر روزے کی مشقتیں بھی بر داشت کر ے اور ما ل بھی اس کی رضا جو ئی کے لئے ہی خر چ کر ے،سفرِحج کا اصل مقصد بھی اسکی رضا کا حصول اور اسکا حق عبا دت ادا کر نا ہی ہے۔ ’’واتموالحج والعمرۃ ﷲ ‘‘لیکن اسلام کی تمام عبادات ایک نظام تر بیت کا حصہ ہیں اور ہر عبادت کے پس پر دہ بے شمار تر بیتی مقا صد پو شیدہ ہیں ۔ حج ایک ایسی جا مع تر بیت گاہ ہے کہ اگر حجاج کی اکثر یت اس تر بیت گاہ سے پورے شعور کے ساتھ گزر جائے تو شاید امت کی محکو میت چند سالوں میں غلبہ اسلام سے بد ل جائے لیکن بد نصیبی سے اس وقت عبادات ،عادات بن چکی ہیں ،جسم با قی ہے، رو ح نکل چکی ہے یا روح ہے تو جزوی اور بیمار حا لت میں ۔ وا ضح رہے یہ مضمون کوئی علمی مو شگا فی نہیں نہ عا لمانہ بحث ہے،یہ ایک تذکیرہے اور ان جا نفروشوں کی نذر ہے جو اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کے غلبے کے لئے کو شاں ہیں اور امت مسلمہ کی سر بلندی کے لئے جدو جہد جن کی زند گی کا مشن ہے ۔ حج کا اولین سبق للہیت ہے ، ارشاد ربانی ہے’’ اور حج اور عمرہ اللہ کی خو شنودی کے لئے پورا کرو ‘‘(البقرہ196 ) ایک اور جگہ ارشاد ہوا ’’’’لو گوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت ر کھتا ہو وہ اس کا حج کر ے اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کر ے تو اسے معلوم ہو جا نا چا ہئے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے ‘‘(آل عمران97 )
حج اورعمرہ اللہ کے لئے ،اخلا ص کے ساتھ مطلوب ہے۔ سفر حج کا مقصد سیر و سیا حت نہیں ، ریا اور دکھا وا نہیں ، تجارت نہیں ،صرف اللہ وحدہ لا شر یک کی عبادت اوراسکی رضا جوئی ہے۔ گو یا اخلاص نیت پہلا تقا ضا اور للہیت پہلا سبق ہے ۔ کوئی عبادت ،کوئی نیک عمل اس وقت تک قبول نہیں ہو تا جب تک اس کے اندر خا لص اللہ کی رضا مقصود نہ ہو ،تما م عبادات بے روح ہیں اگر ان میں رجو ع الی اللہ کی تڑپ نہیں اور انسا نی زند گی کی تمام نیکیاں اس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہو سکتیں جب تک ان کی تہہ میں’’ اللہ کے لئے ‘‘کا جذبہ نہیں ہو گا ۔ ’’للہیت‘‘ اور ’’ا للہ کے لئے‘‘ وہ جذبہ ہے جو ہر نیک عمل کو نفسا نی خواہش ، ذاتی مفاد اور ریا و نما ئش سے پا ک کر تا ہے ۔جو تکمیل ایمان کی نشانی ہے۔ نبی کریم کے مطابق’’جس نے ﷲ کے لئے محبت رکھی، ﷲ کے لئے دشمنی کی، ﷲ کے لئے دیا اور ﷲ کے لئے روکا تواس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا‘‘(ابوداؤد، ترمذی) حج کا پہلا اور ابتدا ئی سبق بھی یہی ہے کہ مسلما نوں کا ہر ہر عمل صرف اور صرف اللہ کے لئے خا لص ہو جائے ،ان کا سفر ،انکی محبت ، ان کا ما ل خر چ کر نا ،انکی زند گیوں اور معا ملا ت کا رخ سب کا سب اللہ کی طرف ہو ،اللہ کے لئے ہو ۔کوئی طا غوت ،کو ئی طا غو تی طا قت ان کا مقصود نہ ہو ۔دنیا ان کا مطلوب و مقصود نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے فر ما یا’’کہو! میری نماز میرے تمام مر اسمِ عبو دیت، میرا جینا اور میرا مر ناسب کچھ اللہ رب العا لمین کے لئے ہے ‘‘( الانعام 162) ا س کلمہ پرمثالی عمل حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے کر کے دکھایا ۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جن کی پیروی میں آج حج کی عبادت ادا کی جا تی ہے ۔ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جنہیں ’’ ابراہیم حنیف ‘‘ کے نام سے اللہ تعالیٰ خو دیا د کرتا ہے جنہوں نے خاندان ،قبیلہ ،وطن ،جاہ و دولت ،دنیا کی محبتیں ،اولا د ہر چیز اللہ پر قر با ن کر دی ۔بت پر ستوں کے گھر پیدا ہو ئے اور ہر طرح کے شر ک سے پا ک ر ہے ۔
ایک اللہ کی خا طر انہوں نے پورے نظام سے بغاوت کی ،مصا ئب کے پہا ڑ عبور کئے، ہر طرح کی آسائشوں اور مادیت پر ستی کولا ت مار کر اللہ کی راہ میں ہجرت کی ۔اللہ کے کلمے کو بلند کر نے کے لئے اپنی زند گی اور آل اولاد کو وقف کیا۔ گویا جس وقت جو قر با نی اللہ نے مانگی، اقا مت دین کی جد وجہد نے ما نگی بغیر کسی حیل و حجت کے پیش کر دی ،جو حکم اللہ نے دیا اس پر بلا چوں و چرا ں سرِ تسلیم خم کردیااور اللہ نے انکی تعر یف اس طرح فر مائی کہ ’’ اس کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اس سے کہا ’مسلم ہو جائو ‘تو اس نے فورا ً کہا میں ما لکِ کا ئنات کا مسلم ہو گیا‘‘( البقرہ131 )حتیٰ کہ اللہ نے ان کی سخت تر ین آزما ئش کا فیصلہ کیا کہ اپنی بڑھا پے کی اولاد کو بھی اللہ کی محبت میں قربا نی کے لئے پیش کر دیں اور وہ ابراہیم حنیف علیہ السلام اس آزمائش میں بھی پورے اترے ۔ یہ تصویر تھی مکمل ’’للہیت‘ ‘ کی ،مکمل سپر دگی کی ،کیا عشق تھا کیا محبت تھی ،کیا ایمان کا مل تھا اور کتنے سچے جذ بے تھے اور انہی کی بدولت وہ پوری دنیا کے پیشوا اور امام قرار دیئے گئے۔
انکی امامت یعنی دنیا بھر کےلئے انکی صلب سے انبیا ء کا سلسلہ چلا ،انکی جدو جہد ،انکا اخلاص ،ا نکی قر بانی اللہ کو اتنی پسند آئی کہ اللہ نے اس کو قیا مت تک کے لئے دہرا نے کا حکم دے دیا اور اِسی کا نام حج قرار دیا اس حج کا مر کز خا نہ کعبہ قرار پا یا جس کا انتخا ب خو د اللہ تعا لیٰ نے کیا ۔یہ وہ مقام ہے جہاں ابرا ہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر ،اللہ کی محبت پر دنیا کی سب سے قیمتی متا ع ،اولا د اور اس کی محبت بھی قر بان کر دینے کا مظا ہرہ کیا ۔گو یااتنی بڑی قربانی اور اللہ کی محبت کا اتنا بڑا ثبوت جس جگہ پیش کیا گیا اِسی کو اللہ نے دنیا والوں کے لئے ’’ مر کز ‘ ‘قرار دے دیا ۔اِسی کو بیت اللہ کا مقام قرار دے دیا اسی کو مقام امن اور حر م بنا دیا ۔ یہ مر کز محض محبت کا مر کز ہی نہیں بلکہ اس عا لمگیر تحر یک کا مرکز بھی بنا جس کی ابتدا ء حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے کی اور جس کی تکمیل حضرت محمد نے کی ۔
گو یا اللہ سے محبت ،ا للہ کے لئے محبت کا ثبوت اس در جے کی محنت اور قر با نی سے مشرو ط ہے ،جس کے نتیجے میں اللہ کا دین غا لب آجائے اور امت کا بھٹکا ہو اآہو پھر سے سوئے حر م آجائے ۔کا ش امت حج کے اس ابتدائی سبق کو سمجھ لے اور حکمرانوں اور عوام حقیقی قبلے کی طرف اپنا رخ کرلیںجس کی طرف سفر کا قصدہر سال لا کھوں افراد کر تے ہیں۔کاش یہ افراد عہد کر کے لو ٹیں کہ’’ اللہ با قی زند گی کے تمام اعمال کا منبع و مقصود بھی تو ہی رہے گا‘‘ لیکن ابھی شاید مسلمانوںمیں اسی جذ بے کی سب سے زیادہ کمی ہے اسی لئے نہ دلوں کے جڑ نے کی وہ کیفیت ہے کہ بنیان مر صو ص بن سکیں ،نہ اللہ کی طرف سے وہ نصرت ہے کہ 100 ،دو سو پر ہی غا لب آسکیں،نہ قر با نی کا وہ جذبہ ہے نہ محبت کا ،جو اس راہ میں کا میا بی کی اولین ضرورت ہے ۔
اس لئے حجاج کرام ! ذرا حج پر جانے سے قبل اپنی زند گی کے تمام معا ملات پر ایک نظر ضرور ڈال لیں ۔ کیاکیا اللہ کے لئے خالص ہے اور کہاں کہاں کوئی اور مقا صد در آئے ہیں ۔کیا اسوہ ٔ ابر ا ہیمی نظر میں ہے ؟ کیا سنت ِ امام الا نبیاء کی پیروی کا جذبہ دل میں مو جزن ہے ؟ پھر سفر حج کی تیاری میں ایک اور ہی لذت ہوگی ،ایک شو ق ہی نہ ہو گا ، ایک محبوب مقصد بھی ہم سفر ہو گا اور زند گی بھر کے لئے اخلا ص نیت بھی ہم رکاب ہو گا ۔ نیت کے بعد سفر حج کی تیاری شروع ہو گئی ۔سفر طو یل ہے پر مشقت ہے ،کئی دنوں کے لئے خر چہ ،کھا نا ،لبا س ،بستر ،چٹا ئیاں ہر چیز مطلوب ہے ۔تمام جسمانی ضرور یات کی فہر ست بنتی ہے۔جو انسا نی ضرورت ہیں ،(اس کے بغیر گزارہ نہیں )لیکن حج تو انو کھا سفر ہے یہ تو اللہ کی طرف جا نے والا سفر ہے ۔اللہ خو د ہی بتا تا ہے اس کے لئے کیا زادِراہ لو ’’سفر حج کے لئے زادِراہ ساتھ لے لواور بہتر ین زادِراہ تقویٰ ہے ۔ پس اے ہوشمندو ! میری نا فر مانی سے بچو ‘‘( البقر ہ 197 )
اس آیت پر غور فر مائیے، حج کا سا مان ِسفر تقویٰ ہے یعنی اللہ کی نا فرمانی سے بچنے کا عزم، اللہ کا وہ خوف جو سفر و حضر ، تنہا ئی و محفل ہر جگہ گناہ سے ر و ک دے ۔حج وہ عبادت ہے جس میں انسان کا وا سطہ عام طور پر دوسر ے انسانوں کے جم غفیر سے رہتا ہے اور با ہمی معا ملات میں اگر اللہ کا خوف اور صبر کا جذبہ نہ ہو تو لڑا ئی جھگڑا اور فساد بر پا ہوسکتاہے ۔ قر آن کر یم میں جہاں کہیں بھی با ہمی معاملات سے متعلق بیان آیا ہے وہاں تقویٰ کی تا کید ضرور آئی ہے ۔ مثلا ً سورۃ البقرہ میں جہاں عا ئلی قوا نین کا ذکر آتا ہے تقر یبا ً ہر آیت کا اختتام ’’تقویٰ ‘‘ کی تا کید پر ہو تا ہے ۔ سورۃ النسا ء جس میں ورا ثت ،نکاح و دیگر قوا نین بیان کئے گئے ہیں اس کا آغا زہی تقویٰ کی تا کید سے ہو تا ہے ۔
آج کی انسا نیت ، عدم بر دا شت کی وجہ سے جس فساد ،معا شر تی انتشار اور بڑھتے ہوئے گھر یلو اور معا شر تی لڑا ئی جھگڑوں سے دو چار ہے، اسکی بڑی وجہ خشیتِ الہٰی کا اٹھ جا نا ہے ۔اگر ہر انسان اپنے اپنے مقا م پر اللہ سے ڈر کر دوسروں سے معا ملہ کر نے والا ہو تو گھر اور معا شرہ دو نوں انتشار سے بچ کر ، اتحاد اور امن کی راہ پر آسکتے ہیں ۔’’تقویٰ ‘‘ اسلامی قو انین کی قوت نا فذہ ہے اور ’’احسان‘‘ اسلامی معا شرے کا حسن ہے اس لئے حج جیسی اجتماعی عبادت میں بہتر ین زادِ راہ تقویٰ کو قرار دیا اس لئے بھی کہ حج کا حسن اس میں ہے کہ دوران حج فسق و نا فر مانی اور با ہمی جنگ و جدل اور لڑا ئی جھگڑے سے بچنے کے لئے ’’تقویٰ ‘‘ کا ہو نا ضروری ہے ۔ اب یہ تقویٰ کہاں سے ملے گا ؟ اسکی دکان کو نسی ہے ؟ خشیت الٰہی کہاں سے ملتی ہے ؟ اللہ فر ماتا ہے’’علم ر کھنے والے اللہ سے ڈرتے ہیں ‘‘لہذا تقویٰ کا حصول علم سے ممکن ہے ۔اسے ہم حج کی علمی تیاری بھی کہہ سکتے ہیں ۔حج سے قبل بالکل ایسے ہی تیاری کر نا ہم پر فرض ہے جیسے دوسری ضروریات کی تیاری ہم کر تے ہیں ۔قرآن ،حدیث لٹر یچر سے حج کی تفصیلا ت جا ننا ۔
تمام مطلوب جزئیات کا علم حاصل کر نا، اس کے ساتھ ساتھ وہاں پیش آنے والے تمام ایسے معاملات جنکی وجہ سے کوئی گناہ ،شہوانی فعل یا باہم جھگڑے کی نوبت آسکتی ہے اس کو جا ننا ۔اس لئے کہ حج ایسی عبادت ہے جو روزروززممکن نہیں،زند گی میں ایک دو مر تبہ موقع ملتا ہے چنانچہ یہ معلوم کر نا ضروری ہے کہ تمام افعالِ حج میں تقویٰ کا مقام کیا ہو گا ۔سفر حج کے آغا ز سے لے کر طوافِ وداع تک !اس مقصد کے لئے حج پر جانے سے کئی ماہ قبل یہ تیاری شروع ہوجانی چاہئے ۔ قرآن و حدیث کے ان منتخب حصوں کا مطا لعہ جو حصولِ تقویٰ میں معاون ہوں ،نمازوں میں خشوع (جویوں بھی ہر وقت مطلوب ہے ) کے لئے سنجیدہ عملی کو شش کر نا ، قر آن کے کچھ حصے یاد کر نے کی کو شش کر نا کیو نکہ دوران حج ’’ذکر‘ ‘کی تا کید بار بار کی گئی ہے ۔ حج کی عبادت کی اہمیت ،للہیت اور اللہ کے در پر حا ضری کا استخصار یعنی اس کو اپنے اوپر طاری کر کے ایک کیفیت اپنے اندر پیداکر نے کی کو شش کر نا تا کہ صحیح معنوں میں اس حاضری کو محسوس کر کے وہ جذبہ بیدار کیا جا سکے جو وہاں مطلوب ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو جاننا بہت ضروری ہے کہ عبادات میں تقویٰ کیا ہے ۔لباس میں تقویٰ کیا ہے (خصوصا ً خواتین کے لئے) معاملات میں تقویٰ کیا ہے ؟ مسجد میںحاضری اور مسجد کے آداب میں تقویٰ کیا ہے ؟ نبی کر یم کے روضہ مبار ک اور آپ کے در پر حا ضری میں تقویٰ کے تقا ضے کیا ہیں ؟ یہ بہت ضروری ہے کیو نکہ اللہ جو بہت کر یم ہے اس نے حج کے احکامات میں بار بار تقویٰ کی تعلیم دی ہے ،بعض مقا مات پر بڑی سخت آیات ہیں مثلاً: ’’ اللہ کے ان احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خو ب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے‘‘( البقرہ 196 ) ’’ یہ گنتی کے چند دن ہیں ، ان کو اﷲ کی یاد میں بسر کرو…بشر طیکہ یہ دن اس نے تقویٰ کے ساتھ بسر کئے ہو ں اور اﷲ کی نا فر مانی سے بچو اور خوب جان ر کھو کہ ایک رو ز اس کے حضور میں تمہاری پیشی ہو نے والی ہے‘‘ ( البقرہ 203 )
لہذا اللہ کے غضب سے بچنے کے لئے حج پر جانے سے قبل ذہنی اور علمی تیاری ضروری ہے لیکن اگر سارے مناسک حج ادا کر لئے ، نہ دل کی کیفیت بد لی ،نہ خشیت الٰہی پیدا ہوئی ،نہ حج سے آکر افعال بد لے (نہ تو بہ و انا بت کی کیفیت پیدا ہوئی ) تو گو یا صرف جسمانی حج کیا، عملاً کوئی تربیت حا صل نہ کی ۔ پھریہ عبادت نہیں بلکہ عا دت کی تکمیل ہے ۔ایسے حجاج بھی نظر آتے ہیں جو ہر سال حج کر تے ہیں لیکن نہ حرام ذرائع آمدن چھوڑتے ہیں نہ دیگر قبیح افعال،نہ عورتیں حج سے آکر لباس و عادات میں تبد یلی کر تی ہیں ، نہ زند گی کے معاملات میں ! لہذا یہ صرف بد نی حج ہے، یہ عبادت کی بجائے عادت ہے عملا ًتو اس تر بیت گاہ سے کچھ بھی سیکھ کر نہ نکلے ۔نا لا ئق طا لبعلموں کی طرح بس کلاس میں حا ضری لگوائی سبق نہ دل سے پڑھا نہ سیکھا ! سفر حج وہ مبار ک سفر ہے جس کا آغا ز بہت شوق اور محبت سے ہو تا ہے ۔
آنکھوں میں بیت اللہ اور حرم نبوی کے دیدار کی پیاس ،دل میں شوقِ ملاقات کا ولولہ اور عمر بھر کے گناہ معاف کر انے کی تڑپ مو جزن ہو تی ہے لیکن یہ سفر پر مشقت سفر ہے ۔اس لئے حج کا ثواب بھی اسی وقت شروع ہو جا تا ہے جب حا جی اپنے گھر سے سفر کا آغا ز کر تا ہے ۔ پیارے نبی کے فر مان کے مطا بق’’ جو شخص حج یا عمرہ یا جہاد کے ارادے سے نکلے اور اسے راستے میں ہی مو ت آجائے تو اللہ تعالیٰ اسے غا زی ،حا جی یا عمرہ کر نے والے کا ثواب عطا فر ما تا ہے ‘‘ (مشکوۃ المصابیح ،کتاب المنا سک)حاجی کیمپ سے لے کر واپسی پر جدہ ائیر پورٹ تک پورا سفر ایک طویل انتظار اور تھکن سے بھر پور ہوتا ہے اور یہ بھی حج کے تر بیتی پہلو کاایک جز ہے۔صبر و بر داشت کی تر بیت کا آغا ز گھر سے نکلتے ہی ہو جا تا ہے، گھنٹوں قطاروںمیں لگنا ، بسوں میں بیٹھے رہنا ،سردی ہو یا گر می ،بھو ک پیا س برداشت کر نا ،یہ سب اللہ تعالیٰ کی منشا ہے ۔
اب تو سفر بھی آسان ہیں اور حج کے سفر کا دورا نیہ بھی کم ہے، آج سے صرف70،80 سال قبل بھی حج اتنا آسان نہ تھا ،ہمارے بزرگ حج پر جا تے اور 6 ما ہ بعد لو ٹتے تھے۔ارض مقدس تک بحری جہازوں سے سفر اور مکہ اور مد ینہ کے درمیان اونٹوں پر اور پیدل سفر ہو تا تھا اور یہ سب حج کا جز تھا ۔اللہ تعالیٰ دانستہ اپنے پیارے بندوں اور مہمانوں کو ایک مشقت سے گزارتا ہے، ان کے اندر کچھ خصوصیات پیدا کر نا چا ہتا ہے جو کسی بڑے کام کے لئے مطلوب ہیں ۔ اولین صفت للہیت ،پھر تقویٰ اور اس کے بعد شوق ملا قات اور صبر ساتھ ساتھ ۔

شیئر: