Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا شام ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان نئے تنازعات کا میدان ہوگا؟

ترکیہ نے سنہ 2016 میں شمالی شام میں کُرد جنگجوؤں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے آپریشن کیے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد کے حالات میں شام میں ترکیہ اور اسرائیل کے باہم متصادم مفادات کی وجہ سے ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی ایک رپورٹ کے مطابق ترکیہ طویل عرصے تک شام میں بشار الاسد کی مخالفت کرتا رہا ہے اور اب وہ ایک متحد و مستحکم شام کی وکالت کر رہا ہے۔
ترکیہ کا موقف ہے کہ شام میں تمام علاقوں پر عمل داری رکھنے والی ایک مضبوط مرکزی حکومت ہونی چاہیے۔
ترکیہ نے گزشتہ ہفتے شام کی نئی عبوری حکومت اور کُرد قیادت میں چلنے والی ایس ڈی ایف کے درمیان ہونے والے معاہدے کا بھی خیرمقدم کیا ہے۔
دوسری جانب شام کے نئے عبوری صدر احمد الشراع کے معاملے میں اسرائیل ان کی القاعدہ سے ماضی میں وابستگی کے پس منظر میں شکوک و شبہات کا شکار ہے۔
اسرائیل یہ بھی چاہتا ہے کہ شام بشار الاسد کے بعد داخلی انتشار کا شکار رہے کیونکہ یہ ملک اس سے قبل اسرائیل کے دیرینہ دشمن ایران کی پراکسیز کا میدان رہ چکا ہے۔
واشنگٹن کے برُوکنگ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ تجزیہ کار ایسلی ایڈنٹباس نے کہا کہ ’شام، ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان پراکسی جنگ کا تھیٹر بن چکا ہے اور یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو علاقائی حریف گردانتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ شام میں تبدیلی کے تمام پہلوؤں کے لیے انتہائی خطرناک چیز ہے۔ یہاں ترکیہ اور اسرائیل کے نقطۂ ہائے نظر میں کھلا تضاد ہے۔‘
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے جنوبی شام کی علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور اس وقت اسرائیلی افواج نے موقف اپنایا تھا کہ اس اقدام کا مقصد ممکنہ جارحیت کو روکنا ہے۔
شام کی عبوری حکومت اور اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اس مداخلت کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان 1947 میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔
اسرائیل نے شام پر بمباری کر کے بشارالاسد کے دور کے عسکری ساز و سامان کو بھی تباہ کر دیا تھا۔ یہ بمباری واضح علامت تھی کہ اسرائیل خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان حالات میں ترکیہ شام میں اپنی عسکری موجودگی میں اضافہ کر سکتا ہے۔ اس سے قبل ترکیہ نے سنہ 2016 میں شمالی شام میں کُرد جنگجوؤں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے آپریشن کیے تھے۔
ترکیہ کے عسکری حکام نے کہا ہے ترکیہ اور شام اب ملکی دفاع اور سکیورٹی کے شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں اور آئندہ ہفتے ترکیہ کا ایک فوجی وفد بھی شام کا دورہ کرے گا۔

 

شیئر: