Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسجد الرایہ ، جہاں فتح مکہ کے دن پرچم بلند کیا گیا

مسجد الرایہ مکہ مکرمہ کی ان مساجد میں سے ایک ہے جس سے رسول اللہ کی زندگی کا ایک اہم واقعہ جڑا ہوا ہے۔ یہ مسجد سوق المعلاة میں مکہ کے بالائی علاقے میں واقع ہے۔ مسجد الرایہ کے محل وقوع کے سلسلے میں لوگوں میں اختلاف ہے۔ بعض لوگ شارع عام پر واقع مسجد کو مسجد الرایہ کہتے ہیں۔ یہ المدرسہ السعودیہ سے پہلے المعلاة جانے والے راستے کے دائیں جانب پڑتی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہی مسجد الرایہ ہے، یہ عوامی خیال ہے، حقیقت سے اسکا کوئی تعلق نہیں۔ سچ یہ ہے کہ مسجد الرایہ وہ مسجد ہے جو جبیر بن مطعم بن عدی بن نوفل کے کنویں کے قریب واقع ہے۔ قدیم زمانے میں لوگ اس کنویں کے آگے رہائش سے گریز کرتے تھے۔ اسکے بعد والا حصہ غیر آباد تھا ۔ یہ کنواں الجودریہ میں واقع ہے۔ یہ مسجد تنگ گلی کے درمیان ہے۔ مسجد الرایہ سے متعلق متضاد اقوال پائے جاتے ہیں۔
یہ مسجد اس جگہ تعمیر کی گئی ہے جہاں رسول اللہ نے فتح مکہ کے دن اپنا پرچم بلند کیا تھا۔ علامہ ازرقی ؒ بتاتے ہیں کہ مسجد الرایہ مکہ مکرمہ کے بالائی حصے میں واقع ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس جگہ رسول اللہ نے نماز ادا کی تھی۔ ہوا یوں تھا کہ قریش اور مسلمانوں نے صلح حدیبیہ کی تھی۔ مسلمانوںکے حلیف خزاعہ تھے۔ قریش صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے تھے۔ دراصل قبلہ خزاعہ کے لوگ مسلمان ہوگئے تھے اور بنو بکر نے جو قریش کے حلیف تھے ،خزاعہ کے 20افراد قتل کر دیئے تھے۔
عمر بن سالم الخزاعی مدینہ منورہ پہنچے انہوں نے بنو بکر کی جانب سے عہد شکنی کی تفصیلات رسول اللہ کو سنائیں۔ اس موقع پر نبی کریم نے یہی فیصلہ کیا کہ عہد شکنی کا جواب فتح مکہ سے دیا جائیگا۔
آپ نے 10ہزارافراد پر مشتمل لشکر جرار تیار کیا اور مکہ کی طرف یلغار کا اعلان کردیا۔ رسول اللہ نے اپنے لشکر کو کئی دستوں میں تقسیم کردیا تھا۔ ہر ایک کو حکم تھا کہ وہ مختلف جہتوں سے مکہ مکرمہ میں داخل ہو۔ آپ نے صحابہ کو یہ حکم بھی دیا تھا کہ جب تک انہیں مجبور نہ کیا جائے لڑائی نہ کریں۔ مسلمانوں کا لشکر کسی جنگ کے بغیر مکہ مکرمہ میں داخل ہوا۔ رسول کریم خانہ کعبہ پہنچے ۔ وہاں آپ نے 360بتوں کو توڑا۔ اس موقع پر مکہ والوں نے رسول اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔
اسی جگہ مسجد الرایہ قائم کی گئی۔ الازرقی کہتے ہیں کہ الرایہ مسجد عبداللہ بن عبید اللہ بن العباس بن محمد بن علی بن عبداللہ بن العباسی نے تعمیرکرائی۔ اسکے پاس ایک حوض بھی بنوایا تھا جس سے لوگ پیاس بجھایا کرتے تھے۔ یہ مسجد تیسری صدی ہجری میں تعمیر ہوئی تھی۔ مسجد کی تعمیر اور اصلاح و مرمت ہوتی رہی۔ اسکا ثبوت اس پتھر سے ملتا ہے جس پر کوفی رسم الخط میں تحریر ہے کہ یہ مسجد المعتصم العباسی نے 640ھ کے ماہ شعبان میں تعمیر کرائی۔
امیر قطلبک الحسامی نے 801ھ میں اسکی تعمیر نو کرائی جو نویں صدی ہجری کے آخر تک قائم رہی۔
مسجد الرایہ الجودریہ میں واقع تھی پھر اسے منہدم کردیا گیا اور حرم سے منیٰ جانے والے راستے پر دائیں جانب شعب عامر میں تعمیر کی گئی۔ موجودہ عمارت 1394ھ کی ہے۔
1361ھ کے اوائل میں بانی مملکت شاہ عبدالعزیز آل سعودؒ نے اس مسجد کی نئی عمارت بنوائی۔ مشرقی جانب سے اسے کشادہ کیا گیا۔ اسکی بنیادیں کھودتے و قت دو پتھر ملے تھے جن پر مرتسم تحریر سے ثابت ہوا کہ یہی مسجد الرایہ ہے۔ ان میں سے ا یک تو 898ھ کی لوح تھی اور دوسری1000 ھ کی لوح تھی۔ یہ دونوں پتھر موجودہ مسجد الرایہ میں تاریخی ثبوت کے طور پر چسپاں کردیئے گئے ہیں۔ آگے چل کر 1404ھ کے ماہ شعبان کے اوائل میں خادم حرمین شریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز ؒکے عہد میں اسے ازسر نو تعمیر کیا گیا۔ اب اس پر مسجد الرایہ کا پتھر نصب ہے۔
 

شیئر: