اجودھیا۔۔۔۔ملک کے اہم مقدموں میں شماراجودھیا کے متنازعہ بابری مسجد اراضی کے مقدمہ کی سماعت سپریم کورٹ میں 11اگست سے شروع کئے جانے کے اعلان کے بعد اس سے وابستہ فریقوں کے ساتھ ہی عام لوگ بھی فیصلہ جلد آنے کی توقع کررہے ہیں۔ اجودھیا کے مندر/مسجد تنازع سے اب تک اربوں روپے کا نقصان ہونے کے ساتھ ہی سیکڑوں جانیں بھی جاچکی ہیں۔ گجرات کا گودھرا معاملہ اوروہاں کے فساد کی اصل وجہ بھی یہی تنازع تھا۔ ملک کے مفاد میں اب اس کا فیصلہ ہونا نہایت ضروری ہے۔’’ رام للا ‘‘کی جانب سے وکیل مدن موہن پانڈے بھی پر امید ہیں ۔مرکزی سنی وقف بورڈ کے وکیل اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر ظفریاب جیلانی کافی دنوں سے یہی مطالبہ کررہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت کے ذریعے مسئلہ کے حل کی کوششیں ہوئیں لیکن دونوں فریقوں کے اٹل موقف کی وجہ سے عدالت ہی آخری امید ہے۔ فریقین کے علاوہ عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ مسئلے کا منصفانہ حل جلد سامنے آئے اور مندر مسجد جو بھی بننا ہو بن جائے اور تنازع ختم ہو۔ نفرت اور فرقہ پرستی اور سیاست کا بازار بند ہو۔یاد رہے کہ 30ستمبر 2010کو الٰہ آباد ہائیکورٹ کی لکھنؤ بنچ کے فیصلے کیخلاف اس سے وابستہ فریقوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ واضح رہے کہ الٰہ آباد ہائیکورٹ میں 3ججوں پر مشتمل بنچ نے 30ستمبر 2010ء کو1/2 کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ مسجد اراضی کو 3برابر حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا۔سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف داخل درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے 9مئی 2011ء کو ہائیکورٹ کے حکم پر روک لگاتے ہوئے موجودہ صورتحال برقرار رکھنے کیلئے کہا تھا۔