پاکستان جیسے ممالک اپنے ا سٹراٹیجک منصوبے ، علاقائی تجزیے اور حوش فہم توقعات غلط ثابت ہونا افورڈ کر پائیں گے ؟
* * * وسعت اللہ خان* * *
صدر ٹرمپ نے بالاخر اپنی پاک افغان پالیسی کا اعلان کردیا ہے۔اب اسکے بانس پر ہم میڈیا والے اگلے ایک ہفتے تک اپنے تجزیاتی شامیانے تانیں گے اور افغانستان ، پاکستان کو سمجھائیں گے کہ کس کے حق میں کون سا راستہ اختیار کرنا بہتر ہے۔اسکے بعد اللہ کوئی اور موضوع دیدے گا۔دنیا ٹھیک طرح چلے نہ چلے مگر ہمارا کام کبھی نہیں رکتا۔بس کبھی غرور نہیں کیا۔ ویسے ہم تجزیہ کار بھی عجب مخلوق ہوتے ہیں۔بیشتر تجزیوں کی بنیاد اس پر رکھتے ہیں کہ اگر اے اور بی کی ترتیب نہ بدلی اور ڈی نے سی کی جگہ نہ لی تو پھر اے بی سی ڈی کی ترتیب وہی رہے گی جو کہ رہنی چاہئے۔ہم تجزیہ کرتے ہوئے بار بار بھول جاتے ہیں کہ زندگی ہماری خواہشات کے مطابق خطِ مستقیم میں نہیں بلکہ خطِ منہنی میں چلتی ہے۔
ضروری نہیں کہ ہمیشہ 2اور 2 چار ہی ہوں۔ایسا صرف ریاضی میں ہوتا ہے اور زندگی کی ریاضی میں دو اور دو 4 کبھی 5 ، پونے 5 اور ساڑھے 4 بھی ہو جاتے ہے۔ سارے تجزیے گزشتہ واقعات کے تسلسل اور پیٹرن سے اخذ کردہ آنکڑوں کی ڈور سے بُنے جاتے ہیں مگر تاریخ اور اس کا جغرافیہ ان پیٹرنز کا محتاج نہیں۔یہ دونوں عناصر جس سے چاہیں جب چاہیں کوئی بھی کام لے سکتے ہیں یا کام اتار سکتے ہیں۔انہیں نہ تو کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہے نہ بتانے کی۔ دنیا اتنی گنجلک اور حالات اس قدر تیز رفتار ہیں کہ کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ پوری تصویر دیکھ سکتا ہے۔ہر کسی کے حصے میں صرف کھڑکی بھر آسمان ہے مگر وہ اندازے ایسے تیقن کے ساتھ لگاتا ہے گویا پورا آسمان اس کی کھڑکی میں ہے۔پر کیا کریں ہم تجزیہ کاروں کو روزی روٹی بھی تو چلانی ہے۔
جب تک انسانوں میں جاننے کی خواہش ہے کہ اب کیا ہوگا تب تک ہمارا دھندا بھی چلتا رہے گا۔پوچھنے والا بھی جانتا ہے اور بتانے والا بھی کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے یا ہوگا اس میں ہمارے اندازے یا فارمولے یا خواہش کا کوئی دخل نہیں لیکن پھر بھی نہ یہ سوال ختم ہوگا کہ اب کیا ہونے والا ہے اور نہ ہی اس کا جواب کہ بات دراصل یہ ہے کہ اگر3 نے 5کو پچھاڑ دیا تو نتیجہ 2 کی شکل میں نکلے گا اور اگر 2 نے3 کو اڑنگا لگا دیا تو تین کے تین ٹکڑے بھی ہو سکتے ہیں… ایک ہاتھی کو 4نابینا ٹٹول رہے تھے۔ایک کا ہاتھ سونڈ پے پڑ گیا تو وہ چیخا ہاتھی لمبا اور لچکدار ہوتا ہے اور اس میں ہڈی نہیں ہوتی۔دوسرے نے پاؤں ٹٹولتے ہوئے کہا ہاتھی گول ہوتا ہے اور اتنا بھی ہاتھی نہیں ہوتا جتنا بتایا جاتا ہے۔
تیسرے کا ہاتھ پیٹ پر پڑا اور وہ بول پڑا کہ تم دونوں غلط کہہ رہے ہو۔ہاتھی نہ لمبا ہوتا ہے نہ گول بلکہ گوشت کی دیوار جیسا ہوتا ہے۔چوتھا نابینا جو ہاتھی کے پیچھے کھڑا تھا اس کے چہرے پر پٹاخ سے ہاتھی کی چھوٹی سی دم کوڑے کی طرح پڑی اور وہ گرتے گرتے چلایا: ہاتھی نیولے کے سائز کا ہوتا ہے اور اس سے زیادہ تیز جانور میں نے آج تک نہیں محسوس کیا۔چاروں نابینا اپنی اپنی جگہ جزوی طور پر درست تھے مگر کیا چاروں کلی طور پر بھی درست تھے ؟ یہ کرۂ ارض بھی ہاتھی جیسا ہے۔جو جس بلندی ، سمت اور فاصلے سے جتنا بھی گلوب دیکھ رہا ہے اسے وہ ویسا ہی نظر آ رہا ہے مگر آپ کا جو بھی نظریہ یا نظر ہو اس سے ہاتھی یا گلوب کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے ؟ اگر ترقی پذیر دنیا میں آنے والے عشروں میں عدم استحکام برقرار رہنے کی اوبامی پیش گوئیاں زمینی حقائق سے لگا نہیں کھاتیں تو نہ کھائیںمگر سرتاج عزیز کو اپنے خطے میں ایسی کیا امیدیں دکھائی دے رہی ہیں جو اوبامہ کی نگاہوں سے اوجھل رہ گئیں ؟ تو کیا اگلے10 سے 15 برس کے دوران افغانستان میں کوئی ایسی مرکزی حکومت قائم ہو جائیگی جسے اہم افغان نسلی گروہوں کے ساتھ ساتھ ایران ، پاکستان ، روس ، چین اور ہند جیسی علاقائی طاقتوں کا اعتماد حاصل ہو جائے اور افغانستان شطرنج کی خونی بساط کے بجائے واقعی ایک پرامن و ترقی کی جانب گامزن ایک نارمل ملک کی طرح بحال ہوجائے اور اس میں کم ازکم اتنا استحکام ضرور آجائے جتنا ظاہر شاہ کے دور تک تھا ؟ تو کیا پاکستانی ریاست اگلے ایک 2 عشروں میں تمام مسلح نان اسٹیٹ ایکٹرز کے چنگل سے اپنی رٹ چھڑوانے اور ان ایکٹرز کو بلا امتیاز اوقات میں لانے میں کامیاب ہوجائے گی ؟
اس کام کیلئے جو اجزائے ترکیبی درکار ہیں ان میں گڈ گورننس ، بیرونی امور میں عدم مداخلت ، مقتدر اداروں کا خارجہ و داخلہ کلیدی نکات پر یک رخہ و ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ، ہمسایہ ممالک سے اہم سرحدی امور و تنازعات میں پیشرفت ، خود انحصاری کو سہارا دینے والے مالیاتی نظام کے بلا امتیاز نفاز کی ضرورت ، وفاقی یونٹوں کے درمیان وسائیل کی تقسیم اور احساسِ محرومی کو قابلِ برداشت حد میں لانے اور پاکستانی سماج میں مذہبی ، سیاسی ، علاقائی اور نسلی ہم آہنگی ، برداشت اور روشن خیالی کے فروغ جیسے بنیادی اقدامات شامل ہیں۔ ویتنام کی سخت جانی کے بارے میں برخود غلط ہونے کے باوجود ، مسئلہ فلسطین کے حل کی بابت منہ چڑھی اسرائیلی ڈومنی سے بار بار بے عزت ہونے کے باوجود ، سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دنیا پر بلا شرکتِ غیرے حکمرانی کا نشہ ٹوٹنے کے باوجود اور القاعدہ و دولتِ اسلامیہ جیسے نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ہاتھوں دھول دھپے کے نتیجے میں اپنے عالمی دبدبے کو تارتار دیکھنے کے باوجود امریکہ کو آج بھی ایک بڑی طاقت ہونے کے سبب یہ عیاشی میسر ہے کہ وہ اپنے غلط اندازوں کے نتائج بطور ریاست سہہ سکے لیکن کیا پاکستان جیسے ممالک اپنے اسٹراٹیجک منصوبے ، علاقائی تجزیے اور حوش فہم توقعات غلط ثابت ہونا افورڈ کر پائیں گے ؟ کاش سب اچھا کہنے سے سب اچھا ہو بھی جائے۔کاش ہاتھی اتنا ہی ہو جتنا مجھے محسوس ہوتا ہے…