’’ایک دونی دونی ،دو دونی’’ چھ‘‘۔۔۔ہائے رے بچپن
والد محترم کا بچھڑنا زندگی کا عظیم سانحہ تھا، یہ حقیقت ہے کہ بزرگ کسی بھی علاقے کی رونق ہوتے ہیں، انکے بچھڑنے سے پورا علاقہ یتیم ہوجاتا ہے
***محمد حسیب نایاب ***
سرسا وہ کوٹلی، آزادکشمیر
مقیم ،حلی بیضین القنفذہ سعودی عرب
---------------------------
بچپن کی باتیں لکھتے ہوئے دل کراہ رہا ہے کیونکہ ایک بچپن ہی تو ہوتا ہے جب کوئی پریشانی نہیں ہوتی ۔نہ کوئی حسد کرتا ہے نہ کوئی لالچ ہوتی ہے۔بس مٹی کے کھلونے بنانا ،اپنے ہم عمر دوستوں کیساتھ کھیلنا اور والدین سے فرمائشیں کرنا ۔اگر فرمائش پوری ہو تو خوشی سے ناچنا اور اگر والدین انکار کردیں تو رونا پیٹنا اور اپنی بات منواکر چھوڑنا۔ میں گھر میں بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے لاڈلا ہوں اور جیسا بچپن میں نے ناز نخروں میں گزارہ ایسا کسی کسی کے نصیب میں ہوتا ہے۔ نماز کی پابندی والدین کی طرف سے عظیم صدقہ جاریہ ہے۔والد محترم( مرحوم) صبح صبح آواز لگاتے کہ اٹھو اللہ کے پیارو !اذان ہوگئی ہے ۔ہم سب اٹھ جاتے اور نماز کے ساتھ ساتھ قرآن شریف سیکھتے۔ہم 9بہن بھائی ہیں اورمیں سب سے چھوٹا ہوں۔والدین نے ہمیشہ عاجزی اور انکساری سے رہنا سکھایا یہی وجہ ہے کہ بچپن سے ہی گالی کے بجائے اچھے الفاظ سیکھے جن کی وجہ سے آج بھی لوگ عزت کرتے ہیں۔ بچپن میں اتنے اچھے اساتذہ ملے جنہیں کبھی بھلانہیں سکتے۔میں اول ادنی جسے قائدہ کلاس کہتے ہیں میں تھا ۔اس وقت استاد محترم شفیع (مرحوم) کلاس میں آئے اور پوچھا مانیٹر کون ہے ۔میں نے ہاتھ اوپر کردیئے۔انہوں نے کہا دو کا پہاڑہ پڑھائو ۔میں نے پڑھانا شروع ہی کیاتھا کہ استاد محترم دفتر کی طرف چل دیئے۔میں نے اونچی آواز میں پڑھا کہ ! ’’ایک دونی دونی ،دو دونی ’’چھ‘‘ یہ سنتے ہوئے استاد محترم واپس پلٹے اور مجھے خوب سزا دی اور وہ سزا میرے لئے اتنی قیمتی بن گئی کہ ذہن کھل گیا اور کبھی بھی اس کے بعد سزا نہ ملی کیونکہ میں نے اساتذہ کو موقع ہی نہ دیاکہ سزا دیں۔ بچپن کا دارومدار والدین پر ہی ہوتا ہے اور والدین کی قربانیاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت یاد آتی ہیں۔ناز نخرے کرکے بات منوانا اور پھر کھیلنا کودنا بچپن کی یادیں ہیں۔مجھے بچپن سے ہی شعر وشاعری کا شوق تھا اور میں کشمیر کیلئے شعر لکھتا تھا۔کلاس دوئم میں تھا تو ایک نظم لکھی تھی چاہتا ہوں کہ قارئین کی نذرکروں۔
کشمیر میں ایک راستہ جاتا ہے ،لگتا ہے کوئی اپنا جاتا ہے
اے راستے کہہ دینا بہنوں سے ،حسیب تجھے آزاد کرانا چاہتا ہے
اس طرح کی بہت ساری نظمیں لکھیں مگر افسوس کہ بعد میں میر ی ڈائری غائب ہوگئی۔بچپن میں ڈائری لکھنے کا بہت شوق تھا اور روزانہ کا کام ڈائری میںدرج کرتا تھا جس کی وجہ سے حافظہ ٹھیک رہتا تھا۔کوئی شخص بچپن کو بھلا نہیں پاتا اور اگر اچھے والدین ،اساتذہ ،بہن بھائی اور دوست مل جائیں تو وہ بچپن ایک نعمت اور جنت بن جاتا ہے۔آج گوکہ میں جوان ہوں برسر روزگار ہوں۔ملازمت کرتا ہوں مگر بچپن کا ایک ایک لمحہ نایاب ہے۔ والد محترم کا چہیتا ہونے کی وجہ سے وہ مجھے مزدوری کیلئے سعودی عرب نہیں آنے دے رہے تھے مگر یہاں بھی میری ضد تھی اور والد نے ہمیشہ کی طرح میری ضد پوری کی اور مجھے یہاں بھیج دیامگر مجھے اکثر یاد کرتے رہتے تھے ۔ مجھے یہاں آئے ابھی2ماہ ہی ہوئے تھے کہ ایک دن انہیں ہارٹ اٹیک ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا اور وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ دل سے کبھی نہ مٹنے والی یادیں بچپن کی ہیں جنہیں اگر لکھنا شروع کردیاجائے جو شائد ورق کم پڑجائیں اب تو صرف یادیں ہیں اور ایک ہی بات دل میں ہوتی ہے کہ!
یہ دولت بھی لے لو،یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو وہ بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی ،وہ بارش کا پانی
بچپن کے وہ دن بہت یاد آتے ہیں جب سب بہن بھائی صبح اٹھتے اور اسکول کی تیاری کرتے ۔ایک اپنا ہی مزہ ہوتا تھا ۔زیادہ تر وقت گھر اور اسکول میں ہی گزرتا تھا۔البتہ چھٹیاں گزارنے اپنے ماموں کے پاس اسلام آباد جایا کرتے تھے۔والدہ محترم کے ہاتھ کی سبزیاں بہت یاد آتی ہیں۔آج کل کے بچے تو من پسند چیزیں کھاتے ہیں جبکہ ہم نے بچپن سے ہی کھانے پینے میں نخرے نہیں کئے ۔جو ملتا یا پکتا کھالیتے ۔البتہ والدہ محترمہ کے ہاتھ کے بنے کریلے اور بیگن بہت یاد آتے ہیں۔ضلع کوٹلی کا قصبہ سرساوہ سے ہمارا تعلق ہے۔ صبح صبح نماز سے فارغ ہونے کے بعد سب کچن میں والد محترم اور والدہ کے پاس بیٹھتے تھے ۔والد محترم قرآن میں بیان کئے گئے انبیا ء علیہ السلام کے قصے سناتے اور اپنا گزرا وقت بیان کرتے۔
یہ سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا ۔رات کو بھی جب ان کے پاس بیٹھتے قصص الانبیا علیہ السلام سناتے جس سے بچپن سے ہی ہمارے علم میں اضافہ ہوا اور قرآن ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔میرے اساتذہ کرام میں ماسٹر شفیع کھوکھر(مرحوم)،ماسٹر طارق ،ماسٹر ظہیر ،ماسٹرخالد رئیس ،ماسٹر معروف ،ماسٹر حبیب ،ماسٹر محمود ،ماسٹر کلیم ،قاری محبوب اور بہترین اساتذہ میں جمیل ہاشمی اور شاہنواز صاحب قابل ذکر ہیں۔ ہمارے خاندان کے تمام ہی بچوں کو نعتیں پڑھنے کا شوق ہے اور یہ ایک موروثیت بھی ہے۔میں بہت چھوٹا تھا اور ابھی اسکول بھی نہیں جانا شروع ہوا تھا کہ جمیل ہاشمی صاحب نعت سنتے اور میری حوصلہ افزائی کیلئے 5 یا 10 روپے ضرور دیتے اور اس حوصلہ افزائی اور انعام کی وجہ سے نعت پڑھنے کا شوق بڑھتا چلاگیا۔ میرے بہت سارے دوست تھے مگر بچپن میں کلاس کے اندرنعمان دائود اور میں ہمیشہ ایک ہی ڈیسک پر بیٹھتے تھے۔اس کے علاوہ بھی میرے دوستوں کی فہرست طویل ہے جو نہایت مخلص ،اچھے، گفتگو کے ماہر اور تعلیم سے محبت کرنے والے تھے۔
بچپن کی ان گنت یادیں دل میں بسی ہوئی ہیں آج بچے والدین سے موبائل اور گیمز کی فرمائشیں کرتے ہیں مگر ہم ہمیشہ کاپیوں ،بستے اور کتابوں کی فرمائش کرتے تھے۔ آج بہت کم لوگ بچوںکو وقت دیتے ہیں اگر ان کے پاس بیٹھتے بھی ہیں تو گھریلو معاملات ہی زیربحث رہتے ہیں جس سے بچوں کے اندر سیکھنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوپاتا۔ہم بچپن میں اکھٹے ہوکر گھاس کاٹتے ،گھر کے کام کرتے اور صبح اور شام کا انتظار کرتے کہ کب والدین کے پاس بیٹھیں گے اور قصے سنیں گے۔ والد محترم کا بچھڑنا زندگی کا عظیم ترین سانحہ ہے ۔ان کے ساتھ ساتھ جن بزرگوں کے پاس بیٹھتے تھے ان کی دعائیں لیتے تھے ۔ان کی زندگی کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ اب وہ سب بھی ملک عدم روانہ ہوچکے۔یہ حقیقت ہے کہ بزرگ کسی بھی علاقے کی رونق ہوتے ہیں۔ ان کے بچھڑنے سے وہ علاقہ یتیم ہوجاتا ہے۔
***
(نوٹ:محترم قارئین : ہمارا نیا سلسلہ جاری ہے جس کا عنوان ہے ’’میرابچپن‘‘۔ہر انسان کا بچپن سوہانا ہوتا ہے کچھ تلخ یادیں بھی ہوسکتی ہیں مگر بچپن کی معصومیت ان پر حاوی ہوجاتی ہے ہم چاہتے ہیں کہ آج کے بچے اور نوجوان آپ کے بچپن کی اٹھکلیاں،شرارتیں،تہذیب اور عزت سے اپنے لئے کچھ سیکھ سکیں۔لہٰذا آپ بھی اس سلسلے میں شامل ہوجائیں اور ہمیں اپنے بچپن کے واقعات لکھ کر بھیجیں ۔زبان اور الفاظ کی بے ترتیبی ہم خود ہی سنوار لینگے،تصاویر بھی ہوں تو زیادہ اچھا ہوگا۔ہم سے رابطہ کریں [email protected]یا 00923212699629)
***
( سعودی عرب میں مقیم محمد حسیب نایاب نے ہمیں یہ بچپن کی یادیں بھیجی ہیں ،ہم امید کرتے ہیں کہ محمد حسیب کی طرح اور لوگ بھی ہم سے ایسے ہی منسلک ہوتے چلے جائیں گے ۔۔ مصطفی حبیب صدیقی)