Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عشرہ ذو الحجہ ، فضیلت والے دن

 اللہ تعالیٰ کوان دنوں میں نیک کام سب سے زیادہ محبوب ہیں،  راہ خدا میں جہاد بھی ان کا ہمسر نہیں
ڈاکٹر انجم ظہور ۔ جدہ
اللہ تعالیٰ کو محترم مہینے، سب سے زیادہ محبوب اور عزیز ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ محبوب مہینہ ذی الحجہ کا ہے۔ اس  میں بھی سب سے زیادہ محبوب ذی الحجہ کے پہلے 10روز ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی قسم کھائی ہے۔ سورۃ الفجر کی پہلی آیت میں ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی ہی قسم کھائی گئی ہے۔
ابن عباس ، مجاہد اور مقاتل کہتے ہیں کہ سورۃ الفجر کی پہلی اور دوسری آیات میں ذی الحجہ کے پہلے ہی عشرے کی قسم کھائی گئی ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ افضل دن ہیں۔ نبی کریم نے ہمیں اپنی حدیث مبارکہ میں یہی بات بتائی ہے۔ ارشاد رسالت کا مفہوم ہے کہ دنیا میں سب سے افضل دن ذی الحجہ کے پہلے 10دن ہیں۔
امام بخاریؒ نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو اچھے کام ان دنوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ صحابہ نے یہ سن کر دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! کیا راہ خدا میں جہاد بھی ذی الحجہ کے پہلے عشرے کے کاموں سے کم درجے کاہے۔ رسول کریم نے جواب دیا جی ہاں! راہ خدا میں جہاد بھی ان کا ہمسر نہیں۔ امام احمدؒ نے حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت کی ہے بتاتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو ان ایام  میں عمل سے زیادہ عظیم اور محبوب کسی اور دن کا عمل نہیں۔ ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ اللہ اکبر، الحمد للہ اور اللہ کی تسبیح و تمجید کی جائے۔
٭ ذی الحجہ کے پہلے عشرے کے کام:
ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں بہت سارے کام اللہ اور اسکے رسول کو محبوب ہیں۔ ان میں پہلا نمبر حج اور عمرے کا ہے۔ ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں سب سے زیادہ افضل اور مبارک کام حج اور عمرے کا  ہی ہے۔ احادیث مبارکہ میں ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں عمرے اور حج کے فضائل کثیر تعداد میںآئے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کا مفہوم ہے کہ’’ ایک عمرے سے دوسرے عمرے تک کے گناہ عمرے سے معاف ہوجاتے ہیں اور حج مبرور کا  اجر جنت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں سب سے زیادہ افضل دن وقوف عرفہ کا ہے۔ یہ حج کا سب سے بڑا رکن ہے۔ اسکے  بغیر حج مکمل نہیں ہوتا۔ رسول کریم کے ارشاد کے بموجب : حج عرفہ میں حاضری کا ہی نام ہے لہذا حاجی کا فرض ہے کہ وہ 9 ویں ذی الحجہ کو  سورج طلوع ہونے کے بعدمنیٰ سے میدان عرفات کا رخ کرے اور وہاں اس دن گریہ وزاری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے خوب خوب دعائیں مانگے۔ دعاؤں میں حاضری کے ساتھ حضوری کا بھی اہتمام کرے۔ خشوع و خضوع سے کام لے۔ اپنا  حق جتا کر اللہ تعالیٰ سے مانگے۔ رب  العالمین سے دنیا اور آخرت کی نعمتیں طلب کرے۔ کمال بندگی کا مظاہرہ کرے۔ تواضع اور انکساری سے کام لیکر اللہ تعالیٰ سے رحمت اور مغفرت طلب کرے۔ اسکی سزا اور عذاب سے خوف کا اظہار کرے۔ اپنا احتساب کرے ۔ پکی سچی توبہ کرے۔ یاد رکھے کہ آج وہ اللہ رب العزت کے حضور حاضری دے رہا ہے۔ رب العالمین اس کی دعاؤں کو سن رہا ہے۔ حاجی غروب آفتاب تک میدان عرفات میں وقوف کرے۔ پورے عرفہ میں کہیں بھی  وقوف کیا جاسکتا ہے۔ کسی خاص جگہ وقوف کرنا ضروری نہیں۔
ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں نویں ذی الحجہ کا روزہ اللہ تعالیٰ کو بیحد پسند ہے۔ نبی کریم نے حج پر  نہ جانے والو ںکیلئے عرفہ کے دن کا روزہ مسنون کیا ہے جہاں تک حاجی کا تعلق ہے تو اسے  وقوفہ عرفہ کے دن روزہ نہیں رکھنا چاہئے بلکہ اسے عبادت کے لئے یکسو ہوجانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت انتہائی خشیت اور  خدا ترسی کے ساتھ کرنی چاہئے۔ جہاں تک عام مسلمانوں کا تعلق ہے تو انکے لئے مستحب یہی ہے کہ  وہ اس عظیم اور مبارک دن کا روزہ ضرور رکھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عرفہ کے دن کے روزے کا اجر بہت بڑا بیان کیا ہے۔ ارشاد رسول کا مفہوم ہے کہ : ’’عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے سے 2برس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ جانے والے برس اور آنے والے برس کے گناہ‘‘ (مسلم ، احمد ترمذی)
اس میں کوئی شک نہیں کہ روزے بہترین اعمال میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے روزے کاا جر اپنے ذمہ لیا ہے۔ حدیث قدسی میں ہے کہ’’ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دونگا۔‘‘
ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا ’’جو بندہ اللہ کے راستے میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس ایک دن کے روزے کی وجہ سے اسے دوزخ کے عذاب سے خزاں کے 70موسموں کے برابر دور کردیتا ہے۔ ‘‘(متفق علیہ)
ابو قتادہ کی روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا ’’یوم عرفہ کا روزہ رکھنے پر اللہ تعالیٰ گزشتہ ایک سال اور آنے والے ایک سال کے گناہ معاف کردیتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم)
ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں تکبیر اور ذکر، اللہ کو بہت عزیز ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اسکا تذکرہ کیا ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ’’ وہ لوگ متعینہ دنوں میں اللہ کے نام کو یاد کرتے ہیں۔‘‘
مفسرین کا کہنا ہے کہ متعینہ دنوں سے مراد ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہی ہے۔ علماء کہتے ہیں کہ ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں کثرت سے ذکر کرنا چاہئے یہ اللہ کو بیحد پسند ہے۔
ابن عمرؓ  کی روایت ہے بتاتے ہیں کہ ’’ان دنوں کثرت سے تہلیل، تکبیر اور تسبیح کا اہتمام کرو۔‘‘ 
ابن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی روایت ہے کہ ’’وہ  دونوں ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں بازار جاتے ، وہاں تکبیر کہتے ، لوگ بھی انکی تکبیر کے جواب میں تکبیر کہتے۔‘‘(بخاری)
بازاروں ، گھروں ، راستوں اور مساجد وغیرہ میں اونچی آواز میں تکبیر کہنا مستحب ہے۔ اجتماعی تکبیر جائز نہیں۔ مراد اس سے یہ ہے کہ لوگ باجماعت بیک آواز تکبیر کہیں۔ وجہ یہ ہے کہ سلف صالحین سے اجتماعی تکبیر کی کوئی روایت نہیں ملتی۔ یہ اصول نہ صرف یہ کہ تکبیر کے لئے ہے بلکہ اجتماعی دعاؤں اور اذکار کے حوالے سے بھی یہی پابندی ہے کہ اجتماعی شکل میں بھی دعاؤں اورا ذکار سے پرہیز کیا جائے۔
ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں دن رات ہر وقت تکبیر کہی جاسکتی ہے۔ عید کی نماز تک اسکا اہتمام کیا جائے۔
فرض نمازوں کی ادائیگی کے بعد تکبیر کا اہتمام کیا جائے۔ عام مسلمان یوم عرفہ کی فجر سے تکبیر کا سلسلہ شروع کریں جبکہ حاجیوں کے لئے قربانی کے دن سے تکبیر کاحکم ہے۔ اسکا سلسلہ ایام تشریق کے آخری دن کی نماز عصر تک جاری و ساری رہتا ہے۔
ذی الحجہ کے پہلے عشر ے کے فضائل میں یہ بھی ہے کہ دسویں ذی الحجہ کو قربانی دی جائے۔ قربانی سنت مؤکدہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے دن قربانی کی تھی اور اسکی ترغیب بھی دی تھی۔ قربانی سے اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل ہوتی ہے۔ اس سے غریبوں کی ضروریات پوری ہوتی ہیں ۔ اس سے ابو الانبیاء ابراہیم علیہ السلام کی سنت کا احیاء بھی ہوتا ہے۔ 
بعض علماء کہتے ہیں کہ قربانی واجب ہے۔ دلیل یہ دیتے ہیں کہ رسول کریم نے حدیث میں جو  الفاظ استعمال کئے ہیں ان سے قربانی کا  وجوب ہی ثابت ہوتا ہے۔ رسول اللہ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ:
’’ جس شخص کے پاس گنجائش ہو اور وہ قربانی نہ کرے ایسا شخص ہماری مسجد کے قریب نہ پھٹکے‘‘ (ابن ماجہ)
حاصل کلام یہ ہے کہ قربانی ہر حاجی اور غیر حاجی وہ مرد ہو یا عورت کیلئے سنت مؤکدہ ہے۔ خوشحال مسلمانوں کو قربانی سے جی نہیں چرانا چاہئے۔ یہ اسلام کے عظیم شعائر میں سے ایک ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جس کا ترجمہ ہے کہ:
’’اللہ تعالیٰ کو نہ  تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے  اور نہ ہی جانوروں کا بہایا گیا خون ہاں اللہ تعالیٰ تک تمہاری خدا ترسی والا جذبہ پہنچتا ہے‘‘ ۔
اللہ تعالیٰ کا ایک اور ارشاد ہے ترجمہ دیکھیں:
’’اور اے محمد! اپنے رب کے لئے عبادت کرو اور قربانی دو۔‘‘
حضرت انسؓ  فرماتے ہیں کہ’’ رسول کریم نے 2دنبوں کی قربانی دی تھی۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے دونوں دنبے ذبح کئے۔ اللہ کا نام لیا، تکبیر کہی ۔‘‘ (مسلم)
حقیقت یہ ہے کہ قربانی دین کے شعائر میں سے ہے۔ قربانی کا وقت عید الاضحی کی نماز کے بعد ہوتا ہے۔ رسول کریم کا فرمان ہے فرماتے ہیںکہ:
’’جس نے عید الاضحی کی نماز سے قبل قربانی کی ہو اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہئے‘‘(متفق علیہ)
قربانی کا وقت 13ذی الحجہ کو سورج غروب ہونے کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ قربانی کا وقت عید کا دن اور پھر 3دن ہیں۔ 
ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا ’’جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہتا ہو تو اسے اپنے بال اور اپنے ناخن تراشنے سے رک جانا چاہئے‘‘۔
عید الاضحی کی نماز کا اہتمام کرنا چاہئے۔ عید کا خطبہ سنا جائے اور اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ عید الاضحی کی حکمت معلوم کی جائے ۔ یاد رکھا جائے کہ یہ یوم شکر ہے۔ یہ بات پیش نظر رکھی جائے کہ یہ اچھے کام کا دن ہے۔ عید الاضحی کے دن کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں کرنا چاہئے ورنہ پہلے 10روز میں جو اچھے کام کئے ہونگے انکا اجر بھی ضائع ہوجائیگا۔
ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں نفلی نمازیں، صدقہ ، تلاوت ، اچھی باتوں کی تلقین اور برائیوں سے انکار کا اہتمام زیادہ سے زیادہ کیا جائے۔ ایسا کرنے سے بہت زیادہ اجر ملے گا۔
توبہ اعمال صالحہ میں سے ہے۔ گناہ نہ کرنے اور سابقہ گناہوں پر معافی مانگنے کا اہتمام کیا جائے۔
ذی الحجہ کے پہلے عشرے کے فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ یہ راہ خدا میں جہاد سے زیادہ افضل ایام ہیں۔
حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کے لئے ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت انہیں اپنی حفاظت میں رکھے۔ انکی اطاعت او رانکی بندگی کو قبول فرمائے۔ انہیں اپنے اہل و عیال اور وطن بسلامت واپس پہنچائے۔ انہیں حج مبرور کے ثواب سے نوازے۔ 
اب آخر میں ہم اس دعا کا  ترجمہ دے رہے ہیں جو قرآن میں مذکور ہے:
اے ہمارے پرور دگار ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی  اور ہمیں اپنی رحمت سے دوزخ کے عذاب سے بچانا۔
 
 

شیئر: