مسلم ملزموں کو سخت ترین سزائیں دینے کی وکالت کی جارہی ہے اور بھگوا دہشتگردی کے ملزمان کے ساتھ انتہائی نرم رویہ ختیار کیاجارہا ہے
* * * معصوم مرادآبادی* * * *
مالیگاؤں بم دھماکوں کے کلیدی ملزم کرنل پروہت کو سپریم کورٹ نے ضمانت پر رہا کردیا ہے۔ اس سے قبل ممبئی ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت عرضی مسترد کردی تھی۔ اس طرح بھگوادہشت گردی کے ماسٹر مائنڈ سوامی اسیما نند اور سادھوی پرگیہ ٹھاکر کے بعد کرنل پروہت تیسرا بڑا ملزم ہے جسے عدالت سے راحت مل گئی ہے۔ کرنل پروہت پر الزام ہے کہ اس نے فوج میں رہتے ہوئے دہشتگردانہ سرگرمیوں میں حصہ لیا اور بھگوا دہشت گردوں کو مدد پہنچائی۔ ہم آپ کو یاددلادیں کہ کرنل پروہت مسلم علاقوں میں بم دھماکوں کی وارداتیں انجام دینے والے اس گروہ کا ایک اہم کردار تھا جس نے انتقامی کارروائی کے طورپر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ اتنا ہی نہیں کرنل پروہت نے اسرائیل میں ہندوراشٹر کی جلاوطن حکومت قائم کرنے کیلئے نئی دہلی میں واقع اسرائیلی سفارت خانے سے رابطہ قائم کیا تھا۔ کرنل پروہت کو سپریم کورٹ سے رہائی ملنے کی خبر جیسے ہی مالیگاؤں پہنچی تو وہاں زبردست ہجوم اکٹھا ہوگیا اور عوام کی طرف سے زبردست ناراضگی ظاہر کی گئی۔
وہاں کے لوگوں نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، تب سے مالیگاؤں دھماکوں کے بھگوا ملزمان کو یکے بعد دیگرے رہائی مل رہی ہے۔ کرنل پروہت کو ضمانت پر رہا کئے جانے کیخلاف کانگریس پارٹی کے لیڈر دگ وجے سنگھ اور سی پی ایم کے جنرل سیکریٹری سیتا رام یچوری نے بھی شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ یچوری نے این آئی اے کی معتبریت پر سوال قائم کرتے ہوئے کہاکہ کرنل پروہت کو ضمانت ملنے سے اس پورے معاملے کی جانچ کرنے والی این آئی اے کے کردار پر شبہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ این آئی اے کو اس معاملے میں وضاحت پیش کرنی چاہئے کہ ان لوگوں کو گرفتار ہی کیوں کیاگیا تھا،جنہیں اب یکے بعددیگرے رہا کیاجارہا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ این آئی اے جس نے کرنل پروہت اور دیگر ملزمان کیخلاف ایک مضبوط اور مؤثر کیس تیار کیا تھا ، اب ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیوں کررہی ہے اور ایسا رویہ کیوں اختیار کیاجارہا ہے کہ بھگوا دہشت گردی کے ملزمان نہ صرف عدالتوں سے ضمانت پارہے ہیں بلکہ انہیں کلین چٹ بھی دی جارہی ہے۔ آپ کو یادہوگا کہ 2سال قبل مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں سرکاری وکیل کے طورپر اپنی ذمہ داریاں نبھانے والی خاتون وکیل روہنی سالیان نے این آئی اے پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ان پر بھگوا دہشت گردوں کے معاملے میں نرمی برتنے کا دباؤ ڈال رہی ہے۔
بعد کو روہنی سالیان نے اس مقدمے سے خود کو علیحدہ کرلیا تھا ۔ دراصل جب سے مرکز میں بی جے پی برسراقتدار آئی ہے تب سے اس کی کوشش یہ رہی ہے کہ سنگھ پریوار کے جو لوگ دہشت گردی کے الزام میں جیلوں میں بند ہیں، انہیں کسی بھی طرح آزاد کرالیا جائے تاکہ بھگوا دہشت گردی کا داغ ہمیشہ کیلئے مٹ جائے۔ بی جے پی حکومت کو اس معاملے میں خاصی کامیابی مل رہی ہے کیونکہ این آئی اے اس معاملے میں انصاف کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر صاحبانِ اقتدار کے اشاروں پر کام کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرنل پروہت کی رہائی سے قبل این آئی اے کو نہ صرف سوامی اسیمانند اور سادھوی پرگیہ ٹھاکر کو جیل سے رہا کرانے میں کامیابی ملی بلکہ بعض کلیدی مقدمات میں انہیں کلین چٹ بھی دی جاچکی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دہشتگردی کے معاملات کی جانچ کرنے والی این آئی اے بھگوا دہشت گردوں کے معاملے میں پوری طرح جانب داری کے ساتھ کام کررہی ہے۔ اگر این آئی اے غیر جانبدار ہوتی تو وہ اسی قسم کا رویہ ان مسلم نوجوانوں کے ساتھ بھی اختیار کرتی جنہیں تمام تر بے گناہی کے باوجود دہشتگردی کے الزام میں ملک کی مختلف جیلوں میں سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا ہے لیکن این آئی اے نے آج تک کسی مسلم نوجوان کے معاملے میں کسی قسم کی نرمی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ آپ کو یادہوگا کہ بھگوادہشت گردی کا بھانڈا سب سے پہلے مہاراشٹر اے ٹی ایس کے سربراہ ہیمنت کرکرے نے پھوڑا تھا جنہوں نے مالیگاؤں بم دھماکوں کی تحقیقات کرتے ہوئے بھگوا دہشت گردوں تک رسائی حاصل کی تھی۔
ورنہ اس سے قبل ہر بم دھماکے کی پشت پر مسلم نوجوانوں کو ذمہ دار قرار دے کر گرفتار کرلیاجاتا تھا۔ مالیگاؤں بم دھماکوں کے سلسلے میں بھی شروع میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں عمل میں آئی تھیں لیکن جب ہیمنت کرکرے نے اپنی فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے سادھوی پرگیہ ، کرنل پروہت اور دیانند پانڈے جیسے بھگوا دہشت گردوں کو گرفتار کیا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا۔ ان گرفتاریوں سے یہ ثابت ہوا کہ ملک میں دہشت گردانہ کارروائیوں اور بم دھماکوں میں سنگھ پریوار کے لوگ ملوث ہیں۔ ان دھماکوں میں حیدرآباد کی مکہ مسجد ، اجمیر کی درگاہ خواجہ معین الدین چشتی اور مالیگاؤں کی جامع مسجد کے علاوہ سمجھوتہ ایکسپریس میں ہوئے بم دھماکے بھی شامل ہیں۔ ان مقامات کا انتخاب اس لئے کیاگیا تھا کہ یہاں تمام ہلاکتیں مسلمانوں کی ہوں۔ ملزمان نے خود اپنے حلفیہ بیان میں یہ قبول کیا تھا کہ یہ تمام کارروائیاں مسلمانوں سے انتقام لینے کیلئے انجام دی گئی تھیں۔ بھگوا دہشت گردی کے ملزمان کے خلاف تمام تر ثبوتوں اور اقبالیہ بیانات کے باوجود انہیں جس طرح رہائی مل رہی ہے، وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ملزمان کے ساتھ دہرے پیمانے اپنائے جارہے ہیں یعنی مسلم ملزموں کو سخت ترین سزائیں دینے کی وکالت کی جارہی ہے اور بھگوا دہشت گردی کے ملزمان کے ساتھ انتہائی نرم رویہ اختیار کیاجارہا ہے۔
دہشتگردی ایک ناسور ہے جس نے پوری دنیا کے امن کو غارت کررکھا ہے۔ دہشت گردی کو مٹانے کیلئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ تمام مجرموں کیخلاف سخت ترین کارروائی عمل میں آنی چاہئے۔ اگر اس معاملے میں تفریق جاری رہی اور صرف ایک فرقے کے لوگوں کو نشانہ بنایاجاتا رہا تو دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ۔