یوم عرفہ سے زیادہ کسی دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جہنم کی آگ سے رہائی نہیں دیتا، وہ اس دن بندوں کے زیادہ قریب ہوتا ہے
یہ حج کا اعظم رکن ہے ۔ نبی اکرم نے فرمایا ”عرفہ ہی حج ہے“ عرفہ کا مطلب معرفت کرانا یا پہچاننا ہے۔ رسول نے فرمایا: ”دنوں میں سب سے افضل دن عرفہ کا دن ہے۔“(روایت امام بن ماجہ عن سیدنا جابرؓ) ۔
عرفات میں مسجد نمرہ ہے جو میدان عرفات کے مغربی کنارہ پر واقع ہے۔ اس کی کچھ حدود عرفات میں او رکچھ باہرہیں ،یہ ایک تاریخی مسجد ہے۔
عرفہ کے دن زوال میں یعنی نماز ظہر کے وقت کی ابتدا ء ہوتے ہی بغیر اذان کے امام خطبہ حج دیںگے، اسے خاموشی ،توجہ اور خشوع و خضوع سے سن کر ا ور سمجھ کر عمل کا پختہ ارادہ کیا جائے۔ خطبہ کے بعد ایک اذان ہوگی، اس کے بعد ایک اقامت پڑھی جائیگی اور نماز ظہر باجماعت ادا کی جائیگی، اس نماز کے فوراً بعد دوسری اقامت ہوگی اور نماز عصربا جماعت ادا کی جائیگی۔
امام اگرمسافر ہو تو وہ نماز قصر کریںگے یعنی نماز ظہر اور نماز عصر 2،2رکعت پڑھائیں گے۔ مسافرعازمین حج ان کے ساتھ قصر نماز ادا کریںگے جو مسافر نہیں وہ قصر نہ کریں بلکہ امام کے سلام پھیرنے کے فوراً بعد 2رکعت ادا کرکے اپنی 4رکعتیں پوری کرلیں۔ دیگر ائمہ کے مطابق تمام عازمین حج خواہ مسافر نہ ہوں ، وہ امام کی اقتدا میں نمازیں قصر ہی ادا کریں گے جیسا کہ رسول اکرم کے ساتھ صحابہ کرام ؓ نے کیا جن میں مقامی بھی تھے اور مسافر بھی۔
ان نمازوں کے درمیان یا بعد ظہر یا عصر کی سنت مو¿کدہ ، غیر مو¿کدہ یا نفل رکعتیں ادا کی جائیں اور نہ ہی دونوں نمازوں کے درمیان اذکار و غیرہ پڑھنے کیلئے وقفہ کیا جائے، یہی سنت سے ثابت ہے۔ یہ حکم ان تمام نمازیوں کیلئے ہے جو مسجد نمرہ کے امام کی اقتدا میں ہوں اگر چہ ان کی مسلسل صف بندی کتنی ہی دور تک پھیلی ہوئی ہو اور وہ لا¶ڈاسپیکر یاریڈیو ٹرانسمیٹر وغیرہ سے امام کی آواز سنتے ہوں۔
ضعیف العمر لوگ ، خواتین ، لڑکیاں، بچے یا کسی عذر کے باعث مسجد نمرہ کی جماعت میں نہ شامل ہونے والوں کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ ہر نماز کو اس کے وقت پر باجماعت ادا کریں ،اگر مسافر ہیں تو قصر کریں۔ دیگر ائمہ کرام کے نزدیک یہ حضرات بھی مسجد نمرہ کے نمازیوں کے مثل ظہر کی نمازیں ملا کرظہر کے وقت ادا کریں ۔ بہر حال ان لوگوں کیلئے الگ خطبہ کا اہتمام نہ کیا جائے۔
رسول اکرم منیٰ سے طلوع شمس (یعنی 9ذی الحجہ کو) روانہ ہوئے۔ میدان عرفات میں مقام نمرہ پر آکر ٹھہرے یہاں تک کہ سورج کا زوال ہوگیا (یعنی نماز ظہر کا ابتدائی وقت ہوگیا) تو آپ نے اپنی اونٹنی قصوا ء طلب کی، اس پر سوار ہوکر بطن وادی (یعنی وادی عرفات کے وسط)میں آگئے اور لوگوںسے نہایت ہی جامع کلمات میں خطاب فرمایا۔ اس خطبہ میں آپ نے عالم انسانیت کی حقیقی فلاح دین اسلام کی ابدی تعلیمات کا نچوڑ ، رہنما اصول، مقصد، تقاضے اور تاقیامت گمراہی سے بچنے کا طریقہ بتایا۔ اپنی تبلیغ رسالت کی گواہی لی اور کارِنبوت یعنی دین کی دعوت و اقامت کو انجام دینے کا حکم دیا۔ اس خطبہ میں نبی اکرم نے امت کے سپرد جو کام کیا اس کا تقاضا فقط یہی نہیں کہ آپ اور ہم اپنے عقیدہ، قول و عمل میں کامل مطابقت کریں اور زندگی کے ہرشعبے کے متعلق اپنے افکار اور اعمال دین کے مطابق کریںجس پر ہمارا ایمان ہے بلکہ اس کے ساتھ ہم سے یہ بھی تقاضا ہے کہ ہم اس دین کے نظام اور شریعت کو دنیا کے نظاموں کے مقابلے میں سربلند اور غالب کرنے کی جدوجہد کرتے رہیں تاکہ نظام مصطفی و خلافت راشدہ کے ثمرات سے بنی نوع انسان آج بھی اس طرح فیضیاب ہوسکیں جس طرح قرون اولیٰ کے لوگ ہوئے تھے۔
خطبہ کے بعد نبی اکرم نے اذان کا حکم دیا پھر اقامت ہوئی۔ آپ نے نماز ظہر قصر (یعنی فرض 2رکعت ) پڑھائیں۔ اس کے فوراً بعد دوسری اقامت ہوئی۔ آپ نے نماز عصر قصر پڑھائی۔ ان نمازوں کے درمیان رسول اکرم نے کوئی اور نماز پڑھی نہ اذکار و دعا فرمائی۔ نماز وں کے بعد آپ اور صحابہ کرام ؓ موقف عرفات (یعنی جبل رحمت) کے قریب تشریف لائے اور جبل رحمت کے سامنے قبلہ رخ ہوکر کھڑے ہوگئے ۔ سورج کے کامل غروب تک آپ کی یہی کیفیت رہی ( مسلم)۔
سب حاجی بھی اسی کیفیت سے وقوف عرفات کریں۔ وقوف عرفات جبل رحمت پر کرنا خلاف سنت ہے۔
اس موقع کیلئے ہمیں اذکار و دعا¶ں کا بیان ملتا ہے۔ ان میں چند یہاں پیش خدمت ہیں:
امام احمد اور امام ترمذی سے روایت ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا:”عرفات کے دن جو باعثِ خیر دعا میں نے اور مجھ سے قبل انبیاء(علیہم الصلاة والسلام) نے پڑھی وہ یہ ہے:﴾لا الٰہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ ، لہ الملک ولہ الحمد بیدہ الخیر وہو علی کل شئی قدیر(فقہ السنہ )۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ رسول اکرم کا ارشاد ہے : ” جو عرفہ کے دن ایک ہزار بار سورہ الاخلاص پڑھے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ کچھ عطافرمائے گا جس کا وہ سوال کرے“۔
ابن حبان ؓ نے سیدنا ابو ہرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرمنے فرمایا: ”جس نے یوم عرفہ اپنی زبان ، سماعت اور بصارت کی حفاظت کرلی اس کے (صغیرہ) گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ، ایک یوم عرفہ سے دوسرے یوم عرفہ تک“( الفتح الکبیر )۔
امام مسلم ؒ نے سیدہ عائشہؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا:” یوم عرفہ سے زیادہ کسی دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جہنم کی آگ سے رہائی نہیں دیتا، وہ اس دن (بندوں کے زیادہ ) قریب ہوتا ہے اور فرشتوں پر (عرفہ میں بندوں کے تعلق سے ) فخر کرتاہے“۔
یہ اجتماع امت مسلمہ کا وہ عالمی اجتماع ہے جہاں وہ اپنے مقام و مقصد کی یاد تازہ کریں، اپنی وحدت کو مضبوط کرےں اور مساوات کی کڑیوں کو قوی کرےں، اس دن اور مقام کے تعلق سے چند اہم نکات ہیں:
۰یہ منظر یاد دہانی کرارہا ہے کہ عالم ارواح میں اللہ تعالیٰ نے ہم سے ایک عہد لیا تھا جس کا ذکر قرآن کریم میں سورة الاعراف آیت 172میں کرتا ہے، فرمایا:” کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں“۔
۰مشکوٰة المصابیح میں سیدنا عبداللہ ابن عباس ؓ سے ایک روایت ملتی ہے کہ یہ عہد اسی سرزمین پر ہوا ہوگا۔
۰یہ عظیم دن ہمیں یوم حشر رب کے حضور پیشی کی فکر اور عملی تربیت بھی مہیا کرتا ہے کہ کچھ اسی طرح سے مخلوق حشر میں اپنے اعمال کی جوابدہی کیلئے اللہ کے حضور پیش ہوگی۔ دوسری روایت کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حشر بھی اسی مقام پر ہوگا۔
۰قرآن وہ منظر کئی مقامات پر واضح انداز میں پیش کرتا ہے ، ان میں سے ایک یہاں نقل ہے ، فرمایا:”پس یہ ضرور ہوکر رہنا ہے کہ ہم ان لوگوں سے باز پرس کریں جن کی طرف ہم نے رسول بھیجے تھے اور رسولوں سے بھی پوچھیں گے( کہ انہوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انہیں اس کا کیا جواب ملا) ،پھر ہم خود پورے علم کے ساتھ ساری سرگزشت ا ن کے آگے پیش کردیںگے ، آخر ہم کہیں غائب تو نہ تھے۔“(الاعراف6،7)۔
اس عظیم موقع پر ہم یہ عہد بھی کرینگے کہ آئندہ زندگی ایک مطیع فرمان مسلم اور اللہ کے دین کے خادم کی طرح بسر کریںگے اسلئے کہ حج کے بعد نافرمانی یا گناہ حج کے حقیقی فائدے اور اثرات کو ضائع کردینے کے مترادف ہوگا۔