انصاف یہ نہیں کہ اشرافیہ اپنے زور بازو اوراختیارات کے ناجائز استعمال سے اپنے خلاف ثبوت ختم کروا کر بری ہو جائے
* * * محمد مبشر انوار* * *
کسی بھی معاشرے میں انصاف وہ بنیادی چیز ہے جو عوام الناس کونہ صرف تحفظ کا احساس فراہم کرتی ہے بلکہ انہیں قانون کی حکمرانی کا یقین دلاتی ہے کہ جس معاشرے میں وہ رہتے ہیںوہاں قانون نام کی چیز بھی موجود ہے۔ انصاف کے متعلق نہ صرف یہ کہ قرآن و احادیث میں ارشادات ملتے ہیں بلکہ نبی اکرم ،آپ کے رفقاء اور بعد ازاں نہ صرف مسلم بلکہ غیر مسلموںنے بھی اپنے معاشروں کی بنیادبھی انصاف پر رکھی اور قانون کی حکمرانی کو سب سے بلند اور مقدم رکھا۔ مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں میں کسی کی حق تلفی کے متعلق سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ کوئی قانون کے ساتھ کھیل بھی سکتا ہے ۔
وہاں کیا حکمران اور کیا عوام،قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور قانون کو دھوکہ دینے والے بالآخر اپنی سزا سے کسی صورت بچ نہیں سکتے ماسوائے ایسے حالات میں جہاں حکومتیں وسیع تر قومی مفاد میں ایسے قوانین بنا دیں کہ قانون شکنی سے بچا جا سکے۔ ایسے قوانین بالعموم اُس صورت میں بنائے جاتے ہیں جب یہ یقین ہو جائے کہ عوام الناس پہلے ہی ایسی روایات کو روزمرہ زندگی میں اپنائے ہوئے ہیں اور ایسی روایت کو قانون بنانے سے عوام میں کسی قسم کا شدید رد عمل پیدا ہونے کی بجائے اطمینان کا عنصر پایا جائے گا۔ایسے قوانین کے اطلاق سے کوئی بھی ایسی عادت ،جو پہلے قانون کے دائرے میں نہ ہو،قانون کے دائرے میں آ جاتی ہے اور ایسا کوئی بھی قانون مخصوص افراد یا گروہ کیلئے نہیں بنایا جاتا بلکہ ایسا قانون سب شہریوں کیلئے یکساں ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں مگر حالات مختلف رہے ہیں اور ابھی تک مختلف ہی چل رہے ہیں کہ یہاں صاف ستھری سیاست عرصہ ہوا کہیں دفن ہو چکی ہے اور اس کی جگہ رسہ گیر، بھتہ خور،تاجر اور تھڑے باز سیاستدانوں کی ایک کھیپ افقِ سیاست پر نمایاں ہے جبکہ وہ سیاستدان جو حقیقتاً عوامی مسائل کا تدارک کرنے کی خواہش رکھتے ہیں،اب آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں رہے۔ شرافت کی سیاست عنقا ہوئے ایک عرصہ بیت چکا اور اب شاستر کے پیروکار چانکیائی سیاست دان اس ملک اور قوم پر مسلط ہیں جو کسی بھی طور وطن عزیز کی شہ رگ چھوڑنے کیلئے تیا ر نہیں اور عوام کی ہڈیوں سے گودا تک نچوڑنے کیلئے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔
حال ہی میں سابق صدر آصف علی زرداری کو احتساب بیورو نے ان کے آخری مقدمے سے بری قرار دیکر ،پیپلز پارٹی کے جیالوں کو خوشی کا سامان فراہم کر دیا ہے۔ احتساب بیورو آصف علی زرداری کے مقدمے میں انہیں بری نہ کرتا تو کیا کرتا؟مقدمۂ مثل میں ایسے کون سے ٹھوس شواہد تھے ،جن کی بنیاد پر آصف علی زرداری کو قرار واقعی سزا دی جاتی ؟ایسے کتنے مقدمے زرداری و بے نظیر پرقائم کئے گئے جو انہیں کرپٹ بناتے رہے،کتنی حکومتوں نے ان کیخلاف ریفرنسز دائر کئے،کتنے سیف الرحمانوں نے جسٹس ملک قیوم جیسے ججوں سے ساز باز کر کے انہیں سزائیں دلوائیںمگر اعلیٰ عدالتیں ایسی سزاؤں کو کالعدم قرار دینے پر نہ صرف مجبور ہوئیں بلکہ زرداری و بے نظیر کو بری بھی کرنا پڑا۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا واقعتاً سابق صدر و وزیراعظم بے گناہ تھے،ہیں؟اس کا جواب انتہائی سادہ ہے اور پانامہ مقدمے میں جے آئی ٹی نے جو معیار رکھا ہے اس کے مطابق سابق صدر کسی بھی طور بے گناہ دکھائی نہیں دیتے مگر قانون کی اپنی مجبوریاں ہیں جو انصاف کی فراہمی میں آڑے آتی ہیں کہ جو شواہد عدالتوں میں پیش کئے گئے ہیں،وہ اصلی کاغذات کی نقل ہے،جو کسی بھی طور کسی بھی عدالت میں بطور شواہد قابل قبول نہیں،لہذا ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ بچتا نہیں۔
اب وہ اصل کاغذات کہاں ہیں،جن کی نقلیں عدالتوں کو مہیا کی گئی ہیں،یقینی طور پر ایسے اصل کاغذات موجود تھے ،جن کی نقل عدالت کو دی گئی تھی۔ در حقیقت یہی وہ چانکیائی سیاست ہے جس میں با اثر و با اختیار لوگ اپنے اختیارات کا نا جائز استعمال کرتے ہیں اور پورے کا پورا مدعا ہی غائب ہو جاتا ہے کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ ایسے معاملات میں ان کے وہ رفقاء ،جنہیں دوسروں کا حق مار کر آگے لایا جاتا ہے،حقِ نمک ادا کرتے ہوئے ان بااختیار لوگوں کے تمام ناجائز کاموں کو ‘‘جائز بنانے‘‘ میں اپنا گھناؤنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اصولاً ہونا تو یہ چاہئے کہ اُس وقت کے برطانیہ میں متعین سفیر واجد شمس الحسن اور ان کے سٹاف کیخلاف انتہائی تادیبی کارروائی کرنی چاہئے،جن کی ذمہ داری ریاستی مفادات کاتحفظ تھا مگر انہوں نے فرد واحد کی چاکری کرتے ہوئے شخصی مفادات کو تو مقدم رکھا لیکن مادر وطن کے مفادات کو شدید ٹھیس پہنچائی۔ ابھی تک کوئی ایسا سورما سامنے نہیں آیا جو واجد شمس الحسن اور اس ٹولے کیخلاف کوئی قانونی کارروائی کا آغاز کرے مگر ایک دن توان شاء اللہ ایسا ضرور آئے گا جب ملکی قوانین اتنے سخت ہوں گے کہ ایسے ناسوروں کیخلاف قانون خود بخود حرکت میں آئے گا۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن کے برطرف شدہ رہنما (مجھے کیوں نکالا) کی مسلسل گردان کرتے ہوئے اداروں کو بالعموم اور عدالت عظمیٰ کے 5 معزز جج صاحبان کو بالخصوص تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں ان کی دختر نیک اختر نے حلقہ این اے 120میں یہ محاذ سنبھال رکھا ہے اور اپنی ہر تقریر میں معزز جج صاحبان پر الزامات اور تبری بھیجنے سے نہیں چوکتیں۔ در حقیقت آج کی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔پیپلز پارٹی پر اگر چھوٹے چھوٹے کاموں پر پیسہ بنانے کاالزام ہے تو مسلم لیگ ن کارپوریٹ کلچر میں پیسہ بنانے کی ماہر ہے اور پیسے بنانے کا جو شعبہ مسلم لیگ ن نے 30 برس پہلے شروع کیا تھا،پیپلز پارٹی ابھی تک اسے اپنائے ہوئے ہے جبکہ مسلم لیگ ن اس سے کہیں آگے جا چکی ہے کہ وہ صرف ایک منصوبے میں 200 ارب ڈالر کا چونا پاکستان کو لگانے کا حوصلہ اور مہارت رکھتی ہے۔ علاوہ ازیں مسلم لیگ ن کے پاس ایسے وفادار موجود ہیں جو اس کے رازوں کو راز رکھنا جانتے ہیں اور حقیقتاً اتنی صفائی سے اپنا کام سرانجا دیتے ہیں کہ کسی کو کوئی ثبوت تک نہیں ملتا او رعدالت بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے سزا سنا نہیں سکتی۔
کتنی عجیب اور حیرت کی بات ہے کہ مخصوص حلقہ ہائے انتخابات کے نتائج کا سارا ریکارڈ 2014میں ایسے جل جاتا ہے کہ کسی دوسرے ریکارڈکو رتی برابر گزند نہیں پہنچتی مگر وہ ریکارڈ جو مسلم لیگ ن کیلئے پریشانی کا باعث بن سکے،اس کا مدعا ہی مستقلاً غائب…نہ رہے بانس نہ بجے بانسری…مخالفین ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں یا عدالتیں اپنی سی کر لیں،انہیں کسی بھی طور نہ تو ثابت کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی انہیں کوئی سزا دی جا سکتی ہے۔ ایسے ہی سابق نااہل وزیر اعظم کی رائے ونڈ میں موجود زمینوں کی صورتحال ہے کہ جب محسوس ہوا کہ پھندا تنگ ہونے کو ہے اور برادر خورد پنجاب کا خادم اعلیٰ ہے،تو رائے ونڈ زمینوں کا ریکارڈ بھی حیرت انگیز طور پر یوں نذر آتش ہوتا ہے کہ کوئی ایک پرزہ بھی باقی نہیں بچتا کہ کسی طرح عدالتوں کے روبرو پیش کیا جا سکے۔ کیا ایسے اتفاقات فقط حکمران و با اختیار اشرافیہ کے ساتھ ہی پیش آتے ہیں؟یا یہ واقعتاً ان کی خوش قسمتی ہے؟یا زبردستی اس خوش قسمتی کو اپنے ماتھے کا جھومر بنایا جاتا ہے؟زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ اس خوش قسمتی کو زبردستی اپنے ماتھے کا جھومر بنا کر اس ملک اور عوام کا خون چوسنا جاری و ساری ہے او رنہ جانے کب تک عوام کی شہ رگ ان کے خون آشام پنجوں کی گرفت میں رہے گی۔ دوسری طرف کچھ ایسا ہی معاملہ میٹرو بس کے ریکارڈ کے ساتھ ہوا ہے ۔حیرت انگیز اتفاقات اور مماثلتیں ہیں جو فقط با اختیار اشرافیہ کے ساتھ وقوع پذیر ہوتی ہیں لیکن غریب عوام سے نا کردہ گناہ تک پاکستان کی شیر دل پولیس قبول کروا لیتی ہے۔ انصاف یہ نہیں کہ اشرافیہ اپنے زور بازو اوراختیارات کے ناجائز استعمال سے اپنے خلاف ثبوت ختم کروا کر بری ہو جائے۔