جیت اس کی تھی میری ہار کے ساتھ
صبیحہ خان۔ ٹورانٹو
زندگی بھر کے اعتبار کے ساتھ
ہاتھ تھاما ہے اُس نے پیار کے ساتھ
پھول آنگن میں میرے کھل جائیں
تم بھی آجاو¿ گر بہار کے ساتھ
اس ادا کو ہم ان کی کیا سمجھیں
پھول بھیجا ہے ہم کو خار کے ساتھ
اس پہ ہم اعتبار کرتے ہیں
جو بھی ملتا ہے ہم کو پیار کے ساتھ
مجھ کو قصداًشکست کھانی پڑی
جیت اس کی تھی میری ہار کے ساتھ
پیار کا وہ حساب رکھتے ہیں
یاد بھی کرتے ہیں شمار کے ساتھ
کیا صبیحہ ستم ظریفی ہے
لوٹ آئی خزاں بہار کے ساتھ