سابق وزیراعظم پھر اہم اداروں سے محاذ آرائی پر کمربستہ نظر آتے ہیں، ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا
* * *صلاح الدین حیدر* * *
ایک ایسے وقت میں جبکہ حکمراں (ن) لیگ مشکلات کا شکار ہے، سپریم کورٹ سے نااہل وزیراعظم پھر وہی اپنی پُرانی طرز پر اہم اداروں سے محاذ آرائی پر کمربستہ نظر آتے ہیں۔ لگتا ہے اُنہوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ میں نے ایک ٹیلی وژن پروگرام کی میزبانی کے دوران اپنے تجزیہ نگاروں سے 26 ستمبر کو ہونے والی نواز شریف کی پریس کانفرنس کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ تینوں مہمان (جن میں 2کا تعلق پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف سے تھا اور تیسرے جہاندیدہ تبصرہ نگار تھے) متفق تھے کہ نواز شریف اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مار رہے ہیں۔ چلیں 2تو حزب اختلاف سے تھے، لیکن کئی ایک ٹی وی چینلز پر نواز شریف کی پریس کانفرنس کے فوراً بعد تبصرے شروع ہوگئے۔ میں نے ایک کے بعد ایک کئی چینلز دیکھے۔ سب پر تجزیہ یہی ہورہا تھا کہ نواز شریف نے غلط راستہ چُنا ہے۔ وہ خود ہی نہیں، اُن کے ساتھ اُن کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی آمدنی سے زیادہ اثاثے بنانے میں عدالت کے سامنے ملزم کی حیثیت میں پیش ہوچکے ہیں۔نواز شریف نے احتساب عدالت کے سامنے حاضری کے بعد ہی دھواں دھار پریس کانفرنس کر ڈالی اور اسحاق ڈار نے صحت جرم سے انکار کردیا۔
نواز شریف اب 2 اکتوبر کو جج کے سامنے پیش ہوں گے جبکہ وزیر خزانہ کو 2دن کا وقت دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بے گناہی کا ثبوت پیش کریں۔ پاکستان کی سیاست اس وقت ایک بھونچال سے گزر رہی ہے۔ ڈرامائی تبدیلیاں یکے بعد دیگرے دیکھنے میں چلی آرہی ہیں۔ ظاہر ہے ان سب کا نتیجہ کچھ تو ہوگا۔ مثبت نتیجہ ہوتا تو نظر نہیں آتا۔ منفی نتائج کی فضا ہموار ہوتی ہوئی کچھ زیادہ ہی نظر آتی ہے۔ کئی ایک تجربہ کار صحافیوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ نواز شریف اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے ہمیشہ سے ہی شوقین رہے ہیں۔ اکثر مثال دی جاتی ہے کہ اُنکا اپنے گزشتہ دورِ حکومت میں اُسوقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے جھگڑا ہوا ،وہ بھی ایسا کہ اُسے طوفانِ بدتمیزی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
دونوں ہی ایک دوسرے پہ الزام تراشی میں سبقت لینے میں آگے آگے لگ رہے تھے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ ایک دن سپریم کورٹ پر (ن) لیگ کے کارکنوں نے (جن میں اُسوقت کے وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید اور 90 کی دہائی میں قومی اسمبلی کے رکن ومشہور ٹی وی آرٹسٹ شامل تھے) حملہ کردیا۔ دُنیا بھر میں قومی وقار کو شدید دھچکا لگا، پاکستان ایک مذاق بن کر رہ گیا۔ کچھ آگے چلیں تو تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ نواز شریف نے جب بھی گدی سنبھالی تو اُن کا جھگڑا فوجی سربراہوں مرزا اسلم بیگ، جنرل وحید کاکڑ اور پرویز مشرف سے رہا اور بالآخر اُن کی حکومت کے خاتمے پر منتج ہوا۔
ایک اور آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو زبردستی عہدے سے سبکدوش کروادیا گیا۔ جنرل کرامت کا قصور صرف اتنا تھا کہ اُنہوں نے قومی سلامتی کی کمیٹی کی تجویز پیش کردی تھی۔ پرویز مشرف (جنہوں نے 12 اکتوبر 1999کو ن لیگ کی حکومت کا تختہ اُلٹا) نے خود مجھے بتایا کہ وہ نواز شریف سے اکیلے ملاقات کرنے گئے۔ دوران گفتگو اُنہوں نے صاف طور پر کہہ دیا کہ نواز شریف آئندہ فوجی امور میں مداخلت سے باز رہیں۔ وہ خود یعنی پرویز مشرف اُن کے کہنے پر مستعفی نہیں ہوں گے اور اس کی کوشش بھی نہ کی جائے لیکن میرے بہت سے صحافی دوست علی الاعلان یہ تسلیم کرتے ہیں کہ نواز شریف کی گردن اکڑی رہتی ہے۔ انا پرستی سے باز نہیں آتے۔ 2007کے بعد جب مشرف نے اپنے دور صدارت میں اُس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو عہدے سے سبکدوش ہونے پر مجبور کیا تو اُنہوں نے صاف انکار کردیا۔ اُسکے بعد جو کچھ ہوا، وکلا کی ایک ایسی تحریک چلی جس نے عوامی احساسات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور اُسکے نتیجے میں پرویز مشرف کو منصب سے ہاتھ دھونا پڑا۔
صورتحال یہاں تک بگڑ گئی تھی کہ امریکی دوستوں نے مشرف کو مشورہ دیا کہ چونکہ وہ مقبولیت کھو بیٹھے ہیں تو بے نظیر بھٹو (جو اَب اس دُنیا میں نہیں ) سے ہاتھ ملالیں۔ ابوظبی میں مذاکرات ہوئے، جس کے بعد بے نظیر وطن واپس آئیں لیکن3 مہینے بعد ہی شہید کردی گئیں۔ نواز شریف نے جو کچھ نااہلی کے بعد اسلام آباد سے لاہور فقیدالمثال جلوس نکالا تھا اور جس میں بار بار وہ یہی سوال دہراتے رہے کہ آخر مجھے کیوں نکالا گیا۔ اُن کا یہ مشہور جملہ اب ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے، سوشل میڈیا پر طرح طرح کے کارٹونز چل رہے ہیں۔ نواز شریف نے پچھلے 70 برس کا تذکرہ کیا کہ ملک کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی سیاست دانوں کی تضحیک شروع کردی گئی تھی۔ پاکستان کے اولین دنوں میں قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین کو قتل کردیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ بے نظیر، محمد خان جونیجو اور خود اُن کو بھی دو بار حکومت سے نکال باہر کیا گیا۔ آخر یہ کھیل کب تک چلے گا؟ نواز شریف نے سوال کر ڈالا اور خود ہی جواب دیا کہ اب یہ ڈراما مزید نہیں چلے گا، لیکن وہ بھول گئے کہ محمد خان جونیجو (جنہوں نے وزیراعظم بنتے ہی مارشل لا اُٹھانے کی گردان شروع کردی تھی) کو جب جنرل ضیاء الحق نے عہدے سے فارغ کیا تو نواز شریف نے جونیجو کیخلاف ضیاء کی حمایت کی۔ بے نظیر عہدے سے برطرف کی گئیں تو مٹھائیاں بانٹی گئیں، یوسف رضا گیلانی نکالے گئے تو نواز شریف نے اُن پر الزامات کی بوچھاڑ کردی۔ اُس وقت اُنہیں جمہوریت خطرے میں نظر نہیں آئی۔
آج اُنہیں جمہوریت کو بچانے کا سب سے زیادہ خیال ستا رہا ہے۔ اس ملک میں جو ہمیشہ سے ہی کھیل کھیلا جاتا رہا ہے کہ جمہوریت کے علمبرداروں کو جمہوریت صرف اُن کے اپنے عہدے سے ہٹائے جانے پر ہی یاد آتی ہے ۔ کوریا میں صدر مملکت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے بعد جیل بھیج دیا گیا اور اُن پر مقدمات چل رہے ہیں۔ جاپان اور کوریا میں پچھلی 2 دہائیوں میں کئی وزرائے اعظم سبکدوش کئے گئے۔ وہاں تو کوئی جمہوریت کا رونا نہیں رویا گیا، نظام صحیح ہو تو اپنی ڈگر پر چلتا رہتا ہے۔ پاکستان میں حکومتِ وقت خود ہی اُصولوں پر عمل نہیں کرتی، عہدے سے چمٹا رہنا ہی یہاں کا اصول ہے تو پھر رونا کیسا۔ اپنے دور حکومت میں اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے پاکستانی سیاست داں تجوریاں بھرنے میں زیادہ یقین رکھتے ہیں۔
یہ وبا اب عام ہوچکی ہے۔ پھر شکوہ کیسا…؟ اکثر تجزیہ نگاروں کو اب یقین ہوچلا ہے کہ شریف خاندان کے دن پورے ہوگئے۔ اب اُنہیں جیل کی ہوا کھانی پڑیگی۔ نواز شریف لندن سے اچانک وطن واپس پہنچے صرف اس لئے کہ اُن کی غیر حاضری میں کہیں عدالتی فیصلہ اُن کیخلاف آگیا تو اربوں روپے کی جائداد ضبط ہوجائیگی۔ اب تو معاملات صرف سزا یا جیل تک ہی محدود ہوسکتے ہیں اور جائداد کی قرقی ہوئی بھی تو صرف اُتنی ہی جسکاحسا ب نہیں ملتا ہویا جو عدالت کے نزدیک غلط طریقے سے کمائی ہوئی دولت سے حاصل کی گئی ہو۔ ظاہر ہے یہ پیسہ قوم کی امانت ہے اور قومی خزانے میں جمع ہونا چاہیے۔
کچھ ایسا ہی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ بھی ہونیوالا ہے۔ دبئی میں اُن کی کئی منزلہ عمارات جلوہ افروز ہیں جس کی مالیت اربوں روپے میں ہے۔ اسحاق ڈار پیشے کے لحاظ سے چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ ہیں، دولت تو کماسکتے ہیں، لیکن قلیل عرصے میںتو قارون کا خزانہ ہی بنایا جاسکتا ہے۔ عدالت یہی تو پوچھ رہی ہے کہ آخر اتنی جائداد کیسے بنی۔ اسحاق ڈار نے ساری دولت بیٹوں کے نام کردی لیکن مکافاتِ عمل کو کیسے روکیں گے، سوال تو یہی ہے…؟