گَل منظور نال کرنی اے، او ہی! پی آئی اے والامنظور
شہزاد اعظم
ایک مرتبہ پھر ہمیں وطن عزیز میںکراچی سے لاہور تک کی سرزمین کے چپے چپے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا۔دل و جان مسرور و مسحور تھے۔ قراقرم میں نشستیں محفوظ کرائی جا چکی تھیں اور ہم آغازِ سفر کا انتظار کر رہے تھے۔ گن گن کر وقت گزارا اور بالآخر وہ دن بھی آ پہنچا جب ہم ریلوے اسٹیشن ،کراچی کینٹ پہنچنے کے لئے مع اہل و عیال گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔خوشی اس قدر تھی کہ ریل گاڑی کی روانگی سے پون گھنٹہ قبل ہی ہم پلیٹ فارم پر کھڑی ”کھڑا کھڑم“ ایکسپریس کی بوگی میں اپنی نشستوں پر براجمان ہو چکے تھے۔ہم نے تمام جاندار اور بے جان ”سامان“ ٹرین میں رکھا اور 45منٹ گزارنے کے لئے گاڑی سے اتر کر پلیٹ فارم پر نصب لوہے کی بینچ پر جا بیٹھے۔ ہمارے سر سے 15فٹ کی بلندی پر انگریز کے زمانے کا ایک پنکھا موجود تھا جس کے پَر تو دائروی حرکت کر رہے تھے مگر اس کا باقی ماندہ وجود دائیں بائیں اور آگے پیچھے، تمام جہات میں رقصاں تھا۔ گاہے بگاہے ہمیں اس کی ہوا بھی لگ رہی تھی۔ اسی دوران ہماری بینچ پر دو اور افراد آ کر بیٹھے اور گفتگو میں مشغول ہوگئے۔ کچھ ہی دیر گزری تو چوتھا شخص بھی آگیا اور اس نے اس امر کا اندازہ لگانے کی کوئی کوشش نہیں کی کہ یہ بینچ تین افراد کے بیٹھنے کے لئے ہے چنانچہ وہ زبردستی ہم لوگوں کے درمیان گھس گھسا کر بیٹھ گیا۔ بال تو اس کے بھی نسلِ نو کے جدید ترین فیشن زدہ ارکان کی طرح گُدّی سے 3انچ نیچے لٹکے ہوئے تھے مگر فرق یہ تھا کہ اس نے گزشتہ 6ماہ سے نہانے کی ضرورت محسوس نہیںکی تھی۔اس کے ایک ہاتھ میں پلاسٹک کی تھیلی تھی اور دوسرے ہاتھ میں سگریٹ گھُٹ گھُٹ کر جان دے رہی تھی۔ جب وہ زبردستی ہمارے پاس بیٹھنے لگا تو ہم نے کہا کہ ”محترم!یہاں تو کوئی جگہ نہیں، برائے مہربانی آپ دوسری بینچ پر جا بیٹھئے۔ اس نے ہماری بات کو درخوراعتناءنہ جانا اور ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”گَل منظور نال کرنی اے“۔ ہم نے کہا کہ جناب یہاں جگہ نہیں ہے ،آپ ساتھ والی بینچ پر بیٹھ جائیں۔ اس نے کہا ”گَل منظور نال کرنی اے، او ہی! پی آئی اے والامنظور، گَل منظور نال کرنی اے“۔
ہم خاموش ہوگئے، اس نے ہماری بغل میں بیٹھ کر سگریٹ کے گہرے کش لینے شروع کئے اور تمام دھواں ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کے منہ پر چھوڑنے لگا۔ اس نے کہا کہ ”بھائی جان!منہ اُدھر کر کے دھواں چھوڑئیے“۔ اُس نے اِس درخواست کو قابل توجہ نہ سمجھتے ہوئے جواب دیا کہ ”گَل منظور نال کرنی اے، پی آئی اے والا، اوہی منظور، گَل اوہدے نال ای کرنی اے“۔اس نے کہا کہ بیشک آپ منظور سے ہی بات کیجئے مگر براہِ کرم دھواں ہم پر نہ پھونکئے۔جواب ملا کہ میںگَل منظور نال کرنی اے، اوہی پی آئی اے والا“۔
ہم سب مسافر حضرات خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ اس شخص کو یہ خاموشی بالکل پسند نہیں آئی۔ اس نے سگریٹ کا لمبا سا کش لے کر ہمارے کاندھے پر ہاتھ رکھتے اور دھوئیں سے معمور سانسیں ہم پر نچھاور کرتے ہوئے نہایت فلسفیانہ لہجے میں کہا کہ ”گَل منظور نال کرنی اے“۔ ہم نے کہا جی جی۔اس کے ساتھ ہی اس نے ہاتھ بڑھا کرہماری جیب سے بٹوہ نکالنے کی کوشش کی۔ ہم نے فوراًاس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا کہ یہ کیا، سر عام دن دہاڑے کس منہ زوری سے کر رہے ہو چوری، تمہیں شرم نہیں آتی؟ اس نے ہمیں ہاتھ کے اشارے سے خاموشی اختیار کرنے کا انتباہ کیا اورگرج کر بولا کہ ”گَل میں منظور نال کرنی اے، اوہی پی آئی اے والا“۔اس کے بعد وہ ہماری بینچ سے اٹھا اور قریب کی دوسری بینچ پر بیٹھی دو خواتین کے پاس جا بیٹھا۔ وہ اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑی ہوئیں اور کہنے لگیں کہ شرم نہیں آتی تمہیں، خواتین والی بینچ پر بیٹھتے ہوئے؟“ اس نے بڑی شان مردانگی سے ان دونوں کوجھڑکتے ہوئے کہا کہ ”گَل منظور نال کرنی اے، پی آئی اے والا منظور۔“ یہ سن کر دونوں خواتین وہاں سے چلی گئیں اور وہ اکیلا ہی بینچ پر بیٹھا رہ گیا۔ اب اس نے سامنے سے گزرنے والے نوجوان کواشارے سے بلایا اور سگریٹ کا دھواں اس کے منہ پر چھوڑتے ہوئے کہا کہ ”گَل منظور نال کرنی اے، اوہی پی آئی اے والا۔“
اس اثناءمیں ٹرین نے سیٹی بجائی۔ ہم اپنی نشست پر جا بیٹھے۔ رات کے 2بجے سب سو رہے تھے۔ ہمیں ایک منفرد خیال آیا کہ ہمارے ملک میں کس قدر مسائل ہیں۔عوام چلاتے ہیں کہ مہنگائی ہے، سیاستداں کہتے ہیں ”ہماری کرسی“۔ عوام کہتے ہیں کہ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات دلائی جائے، جواباً سیاستداں کہتے ہیںکہ ”ہماری کرسی“۔ عوام کہتے ہیں کہ قتل و غارت ہے، ٹارگٹڈ کلنگ ہے، خود کش دھماکے ہیں، ہمارے سیاستداں کہتے ہیں کہ ”ہماری کرسی“۔عوام دہائی دیتے ہیں کہ جنابِ من!ملک کو خطرات لاحق ہیں، ڈرون حملے ہو رہے ہیں، بیروزگاری بڑھ رہی ہے، خود کشیاں ہو رہی ہیں۔ جواب ملتا ہے کہ ”ہماری کرسی“۔ہمیں خیال آیا کہ پلیٹ فارم پر ملنے والے اُس شخص اور ہمارے صاحبانِ سیاست میں صرف جملوں کا فرق ہے مگر” کیفیات“ دونوں کی ایک ہی ہیں۔