جاوید اقبال
کل شام ٹیلیویژن پر برطانیہ میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کا انٹرویو دیکھ کر مجھے 2شخصیتوں سے کی گئی اپنی گفتگو اور کچھ عرصہ پہلے ایک برطانوی ٹی وی چینل پر دیکھا گیا ایک منظر یاد آگیا۔ گفتگو کے ذکر سے آغاز کرتے ہیں۔
تقریباً 2دہائیاں پیشتر ریاض میں پولینڈ کے سفارتخانے میں فرسٹ سیکریٹری ڈاکٹر اسٹینلاوسمولن ہوا کرتے تھے۔ سعودی عرب میں تقرری سے پہلے پاکستان میں اپنے ملک کے سفارتخانے میں سیکنڈ سیکریٹری تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اسلام آباد میں ان کے قیام کے دوران کو ٹیکنا ہیلی کاپٹر کمپنی کا ایک ایجنٹ حکومت پاکستان سے اپنے ہیلی کاپٹروں کا سودا کر رہا تھا۔ چونکہ وہ شخص پولینڈ کا تھا اس لئے اپنی سلامتی پر تحفظات کی وجہ سے ہوٹل میں قیام کرنے کی بجائے اپنے ہموطن ڈاکٹر سمولن کے سفارتخانے میں ہی گھر میں رہنا پسند کرتا تھا۔ پھر رات کے کھانے پر باتوں کا سلسلہ چلتا اور سربستہ راز باہر آجاتے۔
ایجنٹ نے اسلام آباد کے چوتھے یا پانچویں چکر میں اپنے میزبان کو بتایا تھا کہ اس سودے کی ساری گفت و شنید آصف زرداری کے ہاتھ میں تھی اور وہ نہ صرف اپنے لئے کمیشن پراصرار کر رہے تھے بلکہ اپنا حصہ ناقابل بیان حد تک زیادہ مانگ رہے تھے۔ ڈاکٹر سمولن کے مطابق بسیار ردوکدح کے بعدبالآخر طرفین کسی ایک نتیجے پر پہنچے تھے۔ کمیشن کی رقم سوئٹزرلینڈ کے کسی بینک میں جمع کرادی گئی تھی۔
اورواجد شمس الحسن کا انٹرویو دیکھ کر مجھے جس دوسری شخصیت سے کی گئی گفتگو یاد آئی وہ مجید نظامی تھے۔ 1992ء کے گرما میں مَیں کراچی سے لاہور آرہا تھا۔ ہوائی اڈے پر ٹرانزٹ لاؤنج میں تھا کہ بینظیر پرنظر پڑی۔ رگ ِصحافت پھڑکی اور میں نے آگے بڑھ کر انٹرویو کیلئے درخواست کر ڈالی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ میں پرواز کے دوان ان کی بغلی نشست پر بیٹھ کر گفتگو کرلوں لیکن وہ اسلام آباد جا رہی تھیں،میری منزل لاہور تھی۔ یہ جان کر انہوں نے قریب کھڑے ایک آدمی سے کہا: واجد ! ان سے سوال لے کر مجھے فیکس کر دو،میں جواب بھجوا دوں گی۔ تو یہ واجد شمس الحسن تھے۔
میرے لئے ان سے آشنائی پہلی بار ہوئی تھی۔ بہت مختصر گفتگو رہی۔ اسی شام لاہور پہنچنے کے بعد میں نوائے وقت کے ایڈیٹر انچیف ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کے دفتر میں تھا۔ اسی سہ پہر کو حکومت نے بینکوں کے قرض ناہندگان کی بہت بڑی فہرست شائع کی تھی۔ میرے اس سوال پر کہ واجد شمس الحسن کون ہیں۔ نظامی صاحب نے ہاتھ بڑھا کر میزکے نیچے سے وہ فہرست نکالی اور چند صفحات پلٹ کر ایک نام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فہرست میرے سامنے رکھ دی۔ واجد شمس الحسن کا نام تھا اور 88لاکھ روپوں کا قرض معاف کرائے بیٹھے تھے۔ یہ دوسری گفتگو تھی جو مجھے کل شام یاد آئی۔
تو کل شام ٹیلیویژن پر واجد شمس الحسن اپنے والد محترم کے بارے میں بتا رہے تھے۔ ان کا اسم گرامی شمس الحسن تھا۔ قائداعظم کی مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکریٹری تھے اور اتنے صادق ، امین اور باکردار کہ قائداعظم کے شخصی اور گھریلو اخراجات کا حساب کتاب بھی ان کے حوالے ہوتا تھا۔
حسرت موہانی، لیاقت علی خان اور راجہ صاحب محمود آباد کی معیت میں مسلم لیگ کے لئے بے لوث کام کرنے والے شمس الحسن ضرب المثل بن چکے تھے۔ واجد شمس الحسن کے مطابق قائداعظم کے ایسے جانثار ساتھیوں کے زیرسایہ ان کا اپنا بچپن گزرا تھا اس لئے دیانت ، حب الوطنی اور فرض شناسی گویا انہیں گھٹی میں ملی تھیں۔ تو بقول اپنے واجد شمس الحسن سادگی ، شرافت اور دیانت داری کا مجسمہ ہیں تو جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ مجھے ڈاکٹر سمولن او رمجید نظامی سے کی گئی گفتگو کل شام بہت یاد آئی اور اس کے ساتھ ہی ایک منظر بھی میری آنکھوں میں گھوم گیا۔
چند برس قبل جنیوا کے چیف پراسیکیوٹر ڈینیل زاپیلی کے دفتر کے باہر کامنظر تھا۔ ایک درجن ٹرالیاں عمارت میں سے نکلیں اورقریب کھڑی گاڑیوں کی طرف بڑھیں۔ ان میں لدے گتے کے بڑے ڈبے اتار کر گاڑیوں میں رکھ دیئے گئے۔ نقل و حرکت کی نگرانی واجد شمس الحسن کر رہے تھے جو اُن دنوں برطانیہ میں ہمارے ہائی کمشنر تھے۔ منہ سر لپیٹے ،ہونٹوں میں سگار دبائے واجد شمس الحسن انتہائی مشکوک انداز میں خاموش تھے۔ قریب کھڑے صحافی کی کسی بات کا انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ ڈبوں میں ان سارے مقدمات کا ریکارڈ تھا جو سوئٹزرلینڈ کی عدالتوں میں آصف زرداری پر چلتے رہے تھے۔ این آر او کے تحت یہ مقدمات غیر فعال کر دیئے گئے تھے مگر مشرف کی روانگی کے بعد خطرہ پیدا ہو گیا کہ یہ فائلیں دوبارہ کھل سکتی ہیں چنانچہ صدر زرداری کی حکومت نے یہ فائلیں سوئٹزرلینڈ کے قبضے سے نکلوانے کی کوشش کا آغاز کر دیا۔ حکومت پاکستان کے پہلے وکیل ساویریو لمبو نے ریکارڈ دینے سے انکار کر دیا اور واضح کیا کہ وہ یہ فائلیں اپنے پاس 10برس تک رکھے گا۔ خطرہ بڑھ گیا تب وکیل تبدیل کیا گیا او رڈاکٹر جان جے برنٹ کی خدمات حاصل کی گئیں۔
پاکستان سے دانشو ملک نیب کے ڈپٹی اٹارنی جنرل لندن پہنچے اور وہاں سے ان کے ہمراہ ہائی کمشنر واجد شمس الحسن ہو گئے اور سفارتخانے کی رسمی گاڑی ہمراہ لے کر دونوں جنیوا پہنچے جہاں حکومت پاکستان کے ان نمائندوں نے اپنے نئے وکیل ڈاکٹر جان جے برنٹ کی مدد سے وہ کئی سو فائلیں حاصل کر لیں۔
ایس جی ایچ کوٹیکنا کا مقدمہ ، 6کروڑ ڈالر کی جڑیں، درجنوں دوسرے مقدمات سب واجد شمس الحسن کی وطن دوستی، فرض شناسی اور وفاداری نے تاریخ کے تاریک غبار کا رزق بنا دیئے۔ اب وہ 12ڈبوں میں سسکتے حقائق کہاں ہیں؟ ہیں بھی کہیں یا نہیں ہیں؟
…تو کل ٹیلیویژن پر واجد شمس الحسن کا انٹرویو دیکھ کر افسردہ ہو گیا۔ حسرت موہانی جیسے درویش صفت انسان کی رفاقت میں بیٹھنے اور قائداعظم کے گھریلو اور شخصی سودوزیاں کی پائی پائی کا حساب رکھنے والے درویش منش شمس الحسن کا بیٹا اپنے لاکھوں کے قرضے معاف کراتا ہے اور رہنماؤں کی بے راہ روی کو بے نشان کرنے کے لئے اپنا دامن استعمال کرتا ہے تو کہاں کی حب الوطنی ؟ کیسی ارض پاک کے لئے قربانی؟ خاک نشینوں کے لئے کہاں سے روٹی؟ کدھر سے کپڑا؟ کونسامکان؟ سر کرنے کو نیب کے لئے درجنوں ہمالیہ پڑے ہیں۔