Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نفاق، باطن میں سرائیت کرنے والا خفیہ مرض

بعض لوگ ظاہری طور پر باعزت و شریف معلوم ہوتے ہیں لیکن در حقیقت انتہائی بد باطن و خبیث النفس ہوتے ہیں
گزشتہ سے پیوستہ
ام عدنان قمر۔ الخبر
قارئین کرام کی خدمت میں23محر م الحرام ،مطابق13اکتوبرکی قسط کا تسلسل پیش ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
’’ منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں، برائی کاحکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ کو خرچ سے روکے رکھتے ہیں، یہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے بھی انہیں بھلادیا، یقینا یہ منافق ہی فاسق ہیں۔‘‘(التوبہ 67)۔
اگر قرآن کی روشنی میں ان کے مابین فیصلہ کیا جائے تو وہ اس سے اظہارِ بیزاری کرتے ہیں اور اگر انھیں کتاب اللہ اور سنتِ رسول کی طرف دعوت دی جائے تو وہ اس سے اعراض کرتے ہیں اور اگر کوئی ان کے حقائق واسرار پر مطلع ہو جائے تو اسے پوری طرح اندازہ ہو جائے گا کہ وہ راہِ حق سے کتنے دور ہیں، اسی وجہ سے وہ وحیٔ الٰہی سے بیزار نظر آتے ہیں۔ اس بات کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے سورۃا لنساء،آیت61میں یوں فرمایا ہے:
’’اورجب ان سے کہا جاتا ہے: اس طرف آئو جو اللہ تعالیٰ نے اتارا اور رسول کی طرف (یعنی اللہ اور رسول کا حکم مانو، انھی کے حکم سے اپنے جھگڑے میں فیصلہ کرو)تو تُو منافقوں کو دیکھتا ہے کہ وہ رک کر منہ پھیر لیتے ہیں۔‘‘ 
کفر کو تر جیح دینا:
یہ منافقین کیسے صلاح و فلاح سے مشرف اور ہدایت یاب ہوسکتے ہیں جبکہ ان کی عقل و فہم اور دین و مذہب بھی متاثر ہوچکے ہیں اور یہ کیسے گمر اہی اور بربادی سے نجا ت پا سکتے ہیں جبکہ انھوں نے خود ایمان کے بدلے کفر خریدا اور ان کی تجارت کتنے گھاٹے میں ہے جبکہ انھوں نے رحیقِ مختوم کے عوض جہنم کی آگ خریدی ہے۔
شکوک و شبہات کا شکار ہونا:
منافقین کے دل ودماغ طرح طرح کے شکوک وشبہات کے شکار ہوتے ہیں، وہ انہی میں غلطاں و پیچاں(الجھے ہوئے) رہتے ہیں اور اس سے نکلنے کی طاقت نہیں رکھتے، جیسا کہ سورۃ النساء،آیت63  میں فرمایا گیا ہے:
’’اللہ جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے، ان سے تعرض مت کرو، انھیں سمجھاؤ اور ایسی نصیحت کرو جو ان کے دلوں میں اتر جائے۔‘‘ 
بربادی اور ہلاکت مقدر ہو ان منافقین کے! یہ لوگ حقیقتِ ایمان سے کتنے دور ہیں؟ تحقیق و عرفان کے دعوے میں کتنے جھوٹے ہیں؟ اس بدبخت جماعت کی حالت وکیفیت اتباعِ سنت سے سرشار لوگوں سے پوری طرح مختلف ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتابِ مقدس میں بہ نفسِ نفیس ایک عظیم الشان قسم کھائی ہے، اہلِ بصیرت اس کے مضمون سے واقف ہیں کیونکہ ان کے قلوب اُس کی ہیبت اور تعظیم کی وجہ سے ڈرتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیا کو ان منافقین سے محتاط رہنے کی تاکید کرتے ہوئے سورۃ النساء،آیت65 میں فرماتے ہیں:
’’(اے نبی!) تمہارے رب کی قسم! یہ مو من نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو، اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سرِ تسلیم خم کر لیں۔‘‘
کثرت سے قسمیں کھانا:
منافقوں کو اگرچہ نہ بھی ٹوکا جائے، تب بھی بات بات پر قسمیں کھاتے ہیں، کیونکہ وہ بہ خوبی جانتے ہیں کہ اہلِ ایمان ان کی چکنی چپڑی باتوں پر یقین نہیں کرتے، چنانچہ وہ سوئے ظن سے بچنے کے لئے قسموں کا سہارا لیتے ہیں تاکہ ان کی حقیقت کھل نہ جائے۔ اسی طرح کمزور کردار کے مالک جھوٹ بولا کرتے ہیں اور قسمیں کھاتے ہیں تاکہ سننے والا شخص یقین کرلے کہ یہ سچے ہیں، جیسے سورۃ المنافقون ،آیت،2 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’انھوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے، جس کی آڑ میں وہ اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکتے ہیں اور یہ لوگ بہت برا کام کر رہے ہیں۔‘‘
اصل برائی یہ ہے کہ وہ خود دل سے نبی کی رسالت کی گو اہی نہیں دیتے۔ صرف زبان سے دھوکا دینے کے لئے اظہار کرتے ہیں، یعنی جو وہ قسم کھا کرکہتے ہیں کہ وہ تمہاری طرح مسلمان ہیں اور یہ کہ حضرت محمد  اللہ کے رسول ہیں۔انھوں نے اپنی قسم کو ڈھال بنا رکھا ہے، اس کے ذریعے سے وہ آپ سے بچے رہتے ہیں اور کافر وں کی طرح یہ آپ کی تلواروں کی زد میں نہیں آتے۔ سورۃ المنافقون کی آیت4 میں اللہ تعالیٰ نے ان کی مثال کھڑی ہوئی لکڑی سے دی ہے:
’’اور (اے پیغمبر !) جب تُو ان منافقوں کو دیکھتاہے تو ان کے ڈیل ڈول بھلے (خوشنما) لگتے ہیں اور وہ کوئی بات کریں تو تُو ان کی بات (اچھی طرح) سنتاہے، وہ (آدمی نہیں) لکڑیاں ہیں جو ٹیکا لگا کر رکھی جائیں، جہاں زور کی کوئی آواز ہوئی، وہ سمجھتے ہیں ہم للکارے گئے،(اے پیغمبر!) بڑے دشمن (تیرے) یہی لوگ ہیں، ان سے بچا رہ، اللہ کی مار اُن پر، کدھر بہکے جا رہے ہیں؟‘‘
ظاہری طور پر معزز ہونا:
بعض لوگ ظاہری اور جسمانی طور پر باعزت و شریف معلوم ہوتے ہیں اور شریں بیان اور نرم کلام ہوتے ہیں لیکن در حقیقت انتہائی بد باطن و خبیث النفس ہوتے ہیں۔ان کی مثال اُس خو بصورت دیوار پر لگائی ہوئی لکڑی کی طرح ہے، جو دیکھنے والوں کو تو بھلی لگتی ہے لیکن کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ مطلب یہ کہ رسول اللہ  کی مجلس میں منافق اس طرح بیٹھتے ہیں، جیسے دیوار کے ساتھ لگی ہوئی لکڑیاں ہیں جو کسی بات کو سمجھتی ہیں نہ جانتی ہیں۔ بزدل ایسے ہیں کہ کوئی زور دار آواز سن لیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم پر کوئی آفت نازل ہو گئی ہے یا گھبرا اٹھتے ہیں کہ ہمارے خلاف کسی کارروائی کا آغاز تو نہیں ہو رہا ، جیسے چور اور خائن کا دل اندر سے دھک دھک کر رہا ہوتا ہے۔
نمازوں کو تاخیر سے اور اکیلے ادا کرنا:
یہ منافقین نمازوں کو اول و افضل وقت سے تاخیر کرکے پڑھتے ہیں، چنانچہ فجر کی نماز طلوعِ شمس اور عصر کی نماز غروبِ شمس کے وقت پڑھتے ہیں، وہ بھی کوے کے ٹھونگے مارنے کی مانند جلدی جلدی ادا کرتے ہیں، لہٰذا یہ تو جسمانی نماز وعبادت ہوئی نہ کہ قلبی اور لومڑی کی طرح حالتِ نماز میںادھر ادھر دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ان کے تعاقب میں ہے، گویا وہ رحمتِ حق سے دور ہیں۔ وہ نمازوں کو مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا نہیں کرتے بلکہ یہ لوگ نمازیں پڑھیں بھی تو دکان یا گھر میں ادا کرتے ہیں۔ 
جھوٹ ،خیانت اور وعدہ خلافی:
یہ لوگ لڑائی جھگڑے کی نوبت آجاتی ہے تو گالی گلوچ کرنے لگتے ہیں، جب وعدہ کرتے ہیں تو وعدہ خلافی و غداری کرتے ہیں اور جب بات چیت کرتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں، جب ان کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو اس میں خیانت اور خوردبرد کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سزا سور ۃالنساء ،آیت145 میں اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں سنائی ہے:
’’کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور تم ان کا کسی کو مدد گار نہ پاؤگے۔‘‘… أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنَ النَّار۔
قبولِ حق سے بیزاری:
اگر قرآن کی روشنی میں ان کے مابین فیصلہ کیا جائے تو وہ اس سے اظہارِ بیزاری کرتے ہیں اور اگر انھیں کتاب اللہ اور سنتِ رسول کی طرف دعوت دی جائے تو وہ اس سے اعراض کرتے ہیں اور اگر کوئی ان کے حقائق واسرار پر مطلع ہو جائیں تو اسے پوری طرح اندازہ ہو جائے گا کہ وہ راہِ حق سے کتنے دور ہیں، اسی وجہ سے وہ وحی الٰہی سے بیزار نظر آتے ہیں۔ اس بات کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے سورۃا لنساء ،آیت61میں یوں فرمایا ہے:
’’اورجب ان سے کہا جاتا ہے: اس طرف آئو جو اللہ تعالیٰ نے اتارا اور رسول کی طرف (یعنی اللہ اور رسول  کا حکم مانو، انھی کے حکم سے اپنے جھگڑے میں فیصلہ کرو)توتُو منافقوں کو دیکھتا ہے کہ وہ رک کر منہ پھیر لیتے ہیں۔‘‘ 
کفر کو تر جیح دینا:
یہ منافقین کیسے صلاح و فلاح سے مشرف اور ہدایت یاب ہوسکتے ہیں جبکہ ان کی عقل و فہم اور دین و مذہب بھی متاثر ہوچکے ہیں اور یہ کیسے گمر اہی اور بربادی سے نجا ت پا سکتے ہیں جبکہ انھوں نے خود ایمان کے بدلے کفر خریدا اور ان کی تجارت کتنے گھاٹے میں ہے جبکہ انھوں نے رحیقِ مختوم کے عوض جہنم کی آگ خریدی ہے۔
شکوک و شبہات کا شکار ہونا:
منافقین کے دل ودماغ طرح طرح کے شکوک وشبہات کے شکار ہوتے ہیں، وہ انہی میں غلطاں و پیچاں رہتے ہیں اور اس سے نکلنے کی طاقت نہیں رکھتے، جیسا کہ سورۃا لنساء ،آیت63 میں فرمایا گیا ہے:
’’اللہ جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے، ان سے تعرض مت کرو، انھیں سمجھاؤ اور ایسی نصیحت کرو جو ان کے دلوں میں اتر جائے۔‘‘ 
بربادی اور ہلاکت مقدر ہو اُن منافقین کے! یہ لوگ حقیقتِ ایمان سے کتنے دور ہیں؟ تحقیق و عرفان کے دعوے میں کتنے جھوٹے ہیں؟ اس بدبخت جماعت کی حالت وکیفیت اتباعِ سنت سے سرشار لوگوں سے پوری طرح مختلف ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتابِ مقدس میں بہ نفس نفیس ایک عظیم الشان قسم کھائی ہے۔ اہلِ بصیرت اسکے مضمون سے واقف ہیں کیونکہ ان کے قلوب اس کی ہیبت اور تعظیم کی وجہ سے ڈرتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیا کو ان منافقین سے محتاط رہنے کی تاکید کرتے ہوئے سورۃ النساء ،آیت 65 میں فرماتے ہیں:
’’(اے نبی!) تمہارے رب کی قسم! یہ مو من نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو، اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سرِ تسلیم خم کر لیں۔‘‘
 

شیئر: