Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اِس بحر میں ہے ڈوبی ہوئی اُمّتِ عالم

 عنایت اور کرم کے ساتھ اس میں ایک طرح کے امتحان کی موجودگی کو بھی دریافت کرلیں گے تو ہم میں ذمہ داری کا احساس جاگے گا
عزیز بلگامی۔بنگلور
  معاش کا مسئلہ عالمگیر ہے۔ یہ انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ افراد و اقوام کے اسی معاشی پہلو نے دنیا کو ترقی پذیر اور ترقی یافتہ اقوام میں منقسم کر رکھا ہے۔ معاشی علوم کے ماہرین سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں مگر کوئی حل نہیں نکلتا۔ معاشی مسائل کو حل کرنے کی جو بھی تدبیر سوچی جاتی ہے وہ کاغذ پر تو بڑا خوشنما نقشہ بنا تی ہے لیکن حقائق کی دنیا میںجو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ اس قدر بھیانک ہے کہ غریب غریب رہ جاتا ہے اور امیر پر دولت کی بارش برستی ہے۔ یہ مسئلہ ہر دور میں دانشوروں کے درمیان حل طلب رہتا ہے اور کنفیوژن کی بنا پر اس کو حل کر نے کاایک نہ ختم ہونے والاViciousچکر چل پڑتا ہے لیکن مسئلہ ہے کہ حل ہونے کے بجائے مزید اُلجھ کر رہ جاتا ہے۔ اصل میں بیماری کی تشخیص اور دوا کی تجویز میں اِن دانشوروں سے ہمیشہ چوک ہوجاتی ہے ۔ معاشی پنڈتوں کی مسلسل ناکامیوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اصلاً انہیں اس مسئلے کی نوعیت کا علم ہی نہیں کہ یہ کیوں پیدا ہوتا ہے اور وہ محر کات کیا ہیںجو معاشی عدم توازن کاسبب بنتے ہیں ! جس مالک نے اس کائنات کی تخلیق فرمائی اُس کی اسکیم سے بے خبر دانشورزمین پر انسانوںکے مسائل حل کرنے کی بے سود کرتب بازیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اس مضمون میں ہماری یہ کوشش ہے کہ ہم کتاب اللہ کی روشنی میں عصر حاضر کے اس سلگتے مسئلے پر روشنی ڈالیں اور حقیقت حال معلوم کرنے کی کوشش کریں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے’’انسان (کایہ حال ہے کہ) جب اسے اس کا رب آزماتا ہے اور عزت و نعمت دیتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا اور جب وہ اس کو آزماتا ہے، اس کی روزی تنگ کردیتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے میری اہانت کی (اور ذلیل کیا)،ایسا ہر گز نہیں بلکہ ( بات یہ ہے کہ ) تم ( ہی) لوگ یتیموں کی عزت نہیں کرتے اور مسکینوں کے کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے اور( مردوں کی ) میراث سمیٹ سمیٹ کر کھاتے ہو اور مال کو جی بھر کر عزیز رکھتے ہو‘‘( الفجر20-15)
یہ وہ آیات ہیں جو معاشی بدحالی کے 4 اہم اسباب کی نشان دہی کرتے ہیں۔آئیے اِن پر غور و فکر کریں اور اپنی ہدایت کا سامان کریں۔ ان آیات ِ بینات میں رب تعالیٰ نے انسانی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے لفظ ’’انسان‘‘ کا استعمال اس لئے فرمایا ہے کہ انسانی مسائل ہر زمانے میں یکساں رہتے ہیںاور ان کے حل کی صورت بھی یکساں ہونی چاہئے۔ اِسی لئے کتاب اللہ میں جہاں کہیں لفظ انسان کا استعمال ہوا ہے وہ عام مخاطبت کے لئے ہے اور رب تعالیٰ کی یہ مخاطبت ہر دور کے ہر انسان سے ہے۔ ظاہر ہے ہم اپنے آپ کو اس مخاطبت کے دائرے سے کسی طرح علیحدہ نہیں کر سکتے۔ ان آیتوں کا مخاطب ہر وہ انسان ہے جو ابتدائے آفرنیش سے آج تک اور پھر آج سے قیامت کے برپا ہونے کے دن تک پیدا ہوتا رہے گا۔
اپنے اور اپنے اہل وعیال کیلئے ہر انسان ہر دور میں کسی نہ کسی مصروفیت میں مشغول رہتا ہے۔ یہ مصروفیت صنعتی، کاروباری اور پروفیشنل کے علاوہ امپلائمنٹ اور اگریکلچرل طرح کی ہوتی ہیں۔ مصروفیت کسی نوعیت کی کیوں نہ ہو، اُسے بہر صورت اُتار چڑھائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنی کاروباری اور پروفیشنل زندگی میں بھی اتار چڑھائو کے دور سے وہ گزرتا رہتا ہے۔ پھر اگر کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتا ہے تو اس کا علاج بھی وہ اپنی صوا دید کے تحت اپنی صلاحیت، فہم، عقل اور اپنے تجربہ کی بنیاد پر کرتا رہتا ہے۔ اُسے کبھی کامیابی بھی ملتی ہے اور کبھی ناکامی لیکن کبھی وہ خود کوسوچ کی اس حد تک نہیں لے جاتا جہاں یہ سوال منہ پھاڑے کھڑا ہوتا ہے کہ زندگی نشیب و فراز سے عبارت کیوں ہے ! وہ کیا بنیادی وجوہ ہیںکہ آدمی کو زندگی کے مختلف شعبوں میں اور خصوصاً معیشت کے شعبے میںکبھی ثبات میسر نہیں۔ یہی موضوعات ہیں جن کا احاطہ یہ قرآنی آیتیں کر رہی ہیںلیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہاں انفرادی تربیت پر زور ہے نہ کہ اجتماعی تربیت پر اور آج کے انسان کا حال یہ ہے کی وہ اپنی انفرادی زندگی میںکبھی اُن اُمورپر توجہ نہیں دیتا جن سے عدم توجہی اُسے نہ صرف انفرادی طور پر قلاش بنا دیتی ہے بلکہ بالآخر اِس کے اثرات معاش کے اجتماعی محاذ پربھی پڑتے ہیں اور اجتماعی محاذ پر موجود اربابِ حل و عقد غلطی یہ کرتے ہیں کہ اِس مسئلے کو اِسی اجتماعی سطح سے حل کرنا چاہتے ہیں، در آنحالیکہ اِن کی یہ کاوشیں بارآور ثابت نہیں ہوتیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عام سطح پر لوگوں کے معاش میں کسی مرحلے میں بھی کوئی فرق واقع نہیں ہو پاتا۔ آئیے سورۃ الفجر کی مذکورہ آیتوں پر غور وفکر اور تدبر و تفکر کرتے ہوئے یہ معلوم کریں کہ ہم پر اس طرح کے حالات میں کن جائزوں کی واقعتاضرورت ہے۔ مذکورہ آیت میں باتیں بڑی صاف ہیں،کوئی فلسفیانہ موشگافی نہیں۔ بہت ہی صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ’’پھر انسان کو جب اس کا رب آزماتا ہے، اس کا امتحان لیتا ہے اور اس پر کرم کرتا ہے او ر نعمتیں عطا کرتا ہے تو انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کے رب نے اس پر بڑا کرم کیاہے ‘‘
پہلی بات یہ کہ دراصل پورے معاملے کو نہ سمجھتے ہوئے انسان کی نظر اسکے صرف ایک ہی پہلو پر چلی جاتی ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ اسکے رب نے اس پر بڑا کرم کیا مگر آیت کا ابتدائی حصہ بھی ذہن میں ہونا چاہئے کہ یہ کرم اور عنایت کے ساتھ ساتھ اسکے لئے ایک طرح کا امتحان اور آزمائش بھی ہے۔ جب ہمیں یہ احساس ہوگا اور ہم اتنے باشعورہوں گے کہ عنایت اور کرم کے ساتھ اس میں ایک طرح کے امتحان کی موجودگی کو بھی دریافت کرلیں گے تو ہم میں ذمہ داری کا احساس جاگے گا۔ پہلے ہمارے لئے نعمتیں کم تھیںتو ہم پر ذمہ داریاں بھی کم تھیں، رب تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’ کسی بھی نفس کو اللہ نے اسکی وسعت سے زیادہ مکلف بنایا ہی نہیں‘‘ (البقرہ286) لیکن اب چونکہ عنایات بڑھ گئیں تو ذمہ داریاں بھی بڑھ جائیں گی اور امتحان دراصل یہی ہے کہ وہ عنایتوں کی بارش کے درمیان اپنے رب کی کتنی اور کیسی فرمانبرداری کرتاہے! روشِ اطاعت پر کاربند رہتا ہے یا اپنی خواہشات کی پیروی میں لگ جاتا ہے!  خدا پرستی کو نفس پرستی پر غلبہ عطا کرتا ہے یانفس پرستی کو خدا پرستی پر فوقیت دیتا ہے! اور دوسرا پہلو یہ بھی اسکے مدنظر ہو کہ جب ذمہ داریاں بڑھ گئیں تو فرائض بھی بڑھ گئے اور ان کا دائرہ کار بھی۔اِس صورتحال پر اربابِ اجتماعیت کی مطلق نظر نہیں رہتی کہ معاشرے کا ایک فرد نعمتوں کے ہجوم میں کیسی زندگی گزار رہا ہے۔
آزمائش کی اس نوعیت کے مقابلے میں دوسری ایک نوعیت سے ہمیں واقف کرایا جاتا ہے،متعلقہ الفاظ کی ترجمانی ہے’’اور پھر جب اس کارب اس کا دوسری طرح امتحان لیتا ہے(یعنی) اسکے رزق ، اسکے ذرائع اور وسائل کو محدود کرکے اسے آ زماتا ہے تو(نتیجتاً) وہ سوچنے لگتا ہے کہ میرے رب نے تومجھے ذلیل کردیا ‘‘یہاں لفظ’’ کَلَّا‘‘ کااستعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عنایتوں یا ذرائع اور اسباب کی قلت ِفراہمی کے تئیںانسان کے جذبات کی نفی میں کہا گیا ہے کہ ’’ہرگز صحیح نہیں‘‘ ،نوازش ہو یا آزمائش ، ہر حال میں اُس کا امتحان مقصود ہے۔اِس نقطۂ نظر کو عام کیا جائے تو معاشرے کے کسی طبقے میں بھی کبھی کوئی بے راہ روی نہیں پائے گی اور معاشرے کی معاشی اُٹھان بالکل فطری طورپر ہوگی اور معاش کے اجتماعی سطح پر اِس کے اثرات نظر آئیں گے۔
سوال یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان یہ بظاہر معاشی عدم توازن کیوں ہے؟ کیا عوامل ہیںکہ ایک آدمی پر معاش کا دائرہ تنگ کر دیا جاتا ہے اور ایک دوسرے آدمی پر دولت کی بارش برستی ہے؟ اس گتھی کو بھی اللہ تعالیٰ نے سلجھا دیا ہے۔ نہایت صاف الفاظ میں اس کے اسباب بیان کردئیے ہیں جن کا تعلق اجتماعی زندگی سے بھی ہے اور انفرادی زندگی سے بھی۔ کسی آدمی یا کسی قوم کی معاشی قوت کو کمزور کرنے والے اسباب کا تذکرہ ہمیں نہایت صاف الفاظ میںقرآن میں ملتا ہے۔ اِن انمول آیات سے نہ صرف ہم نے چشم پوشی کی ہے بلکہ معاشی اعتبار سے بکھرنے والی اقوام تک ہم نے یہ پیغام نہیں پہنچایالیکن ہم دوبارہ کہیں گے کہ یہاں بھی انفرادی کوششوں ہی کو کامیابی کی ضمانت قرار دیا گیا ہے۔اللہ تعا لیٰ نے معاش کا دائرہ تنگ ہونے کے4 اسباب بیان کر دئیے ہیں:
٭’’ تم نے یتیم کی تکریم نہیں کی ہوگی‘‘ یہ ہے پہلی وجہ۔ اس میں لفظ’’ یتیم‘‘ استعمال ہوا ہے۔ اگر لغت کے وسیع ترمعنی میں اس لفظ کو لیا جائے تو یتیم انسانی برادری کے اُس فرد کو کہتے ہیںجو کسی قدرتی نعمت سے محروم کر دیا گیا ہو۔ اب پورے کے پورے انسانی سماج پر خودانسانوں کے رب نے یہ ذمہ داری ڈال دی ہے کہ نہ صرف یتیم کی تکریم کی جائے بلکہ اسکے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جائے جسے باعز ّت کہا جاسکے اور اسکی مذکورہ محرومی کا جس قدر مداوا ممکن ہو، کیا جائے۔ یتیموں کے سلسلے میں کتاب اللہ کے دامن میں اس قدر حساس آیتیںہیںکہ یتیموں کے تعلق سے ہمیں اپنے طرزِ عمل پر ازسرِ نو غور کرنا ہوگا۔ محسنِ انسانیت ،رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ کو سورۃ الضحیٰ کی9ویں تا 11ویں آیات میں ایک ڈائرکٹ حکم دیا گیا ہے جس کو پڑھنے کے بعد ایک بندۂ مومن پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے، اس حکم کی ترجمانی ہے’’سو کوئی یتیم ہو،اس پر کبھی قہر نہ ہو اور کوئی سائل ہو،اسے جھڑکا نہ جائے اور اپنے اوپر اپنے رب کی نعمتوں کی تحدیث کیجئے‘‘
٭’’مسکین کو کھانا کھلانے کی تم میں آرزواور رغبت نہیں ہوئی ہوگی ‘‘یہ ہے دوسری وجہ، جس نے انسانوں پر معاشی ناکہ بندی کر رکھی ہے،حالانکہ عالمی دولت کا جو Growthاس وقت دکھائی دیتا ہے ، اُس کی روشنی میں بلاتکلف کہا جا سکتا ہے کہ عالمی سطح پرانسانوں کی  Per Capita Incomeاس قدر ضرور ہے کہ ساری دنیا کے سارے انسانوں کی خوشحال معاشی زندگی کی ضمانت بن جائے لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا؟مالک و خالقِ انسان کہہ رہا ہے کہ تم نے مساکین کی بنیادی ضروریات اور انکے طعام کی طمع کو اپنے دل کی گہرائیوں سے اُٹھتے نہیں محسوس کیا ہوگا،نہ تم میں اس کارِ سعادت کی کوئی ترغیبی لہر تمہارے سراپا میں دوڑی ہوگی ۔ یہ صحیح ہے کہ رب تعالیٰ ہی خودرَزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْن ہے، وہی اپنی مخلوق کو رزق مہیا کرتا ہے ’’ کوئی ایسی مخلوق نہیں جس کے رزق کی ذمہ داری اللہ پر نہیںہو‘‘ہم میں سے کسی کو رب تعالیٰ نے کشادگی ٔ رزق سے نوازا ہے تویہ محض اُس کے امتحان کے لئے ہے کہ آیا وہ اتناشعور بھی رکھتا ہے کہ نہیںکہ وہ ان عنایات کو اپنے رب کی نعمت سمجھے،نہ کہ اپنا ذاتی مال!اگر وہ واقعتاصاحبِ ایمان ہے تو وہ یہی سمجھے گا کہ مال تو بس ربِ کائنات کا ہے۔ دنیا ہی کا نہیں، ساری کائنات کے سارے مال کا ربِ واحدہی مالک ہے۔ میرے رب نے مجھے مال دیا ہے تو کیوں دیا ہے؟کیا میری آزمائش مقصود ہے کہ میں اپنے مال میں سے مستحقین کے حصوں کا مناسب حساب کروں اور اسے ان مستحقین کو عنایت پہنچاکر اس امتحان میں اپنے آپ کو سرخ رو بنائوں، سورۃ المعارج کی 24ویں اور25ویں آیات میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’کامیاب مومن تو وہ ہے،جسے یہ معلوم ہو کہ میرے مال میں سائل اور محروم کا کتنا حصہ ،کتنا حق نکلتا ہے ‘‘
  ٭’’ لاوارث جائیدادوں کو تم نے سمیٹ کر کھا لیاہوگا‘‘ معاشی تنزل کی یہ تیسری وجہ ہے۔ میراث کا مال یالاوارث جائیدادوں کوبے تکلفی سے دبا دیا جاناایک بھیانک جرم ہے جو بالآخر معاشی بدحالی پر منتج ہو کر رہ جاتا ہے۔ کوئی فرد یا قوم اس جرم کی مرتکب اُس وقت بنتی ہے جب اُس کی فکر و نظر جواب دہی کے احساس سے تہی دامن ہو جائے۔ حشر کے دن تو خود رب تعالیٰ محرومین کی محرومیوں کا تدارک ،اُن ظالموں سے چھین کر ادا کر یں گے جنہوں نے دنیا میں اِن کا حق دبایا ہوگا۔ ان کی ادائیگی کسی کرنسی یاکریڈٹ و ڈیبٹ کارڈ سے ممکن نہیں ہو سکے گی۔ اس دن تونیک اعمال کی کرنسی چلے گی۔ اگر ان حقوق کی ادائیگی میںہمیں اپنے نیک اعمال دینے پڑیں یا گنوانے پڑیں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کس قدر عظیم خسران کا معاملہ ہوگا؟کوئی عقلمند انسان اپنی زندگی بھر کی کمائی کو جو خود اُس کی مغفرت کی ضامن بننے والی ہے، اِس طرح تقسیم در تقسیم کے ذریعہ قلاش بننا پسند نہیں کرے گا اِس لئے یہیں ہماری نہ صرف جملہ ادائیگیاں ہو جانی چاہئیں بلکہ ہمیں یہ اطمینان بھی کرنا پڑے گا کہ کسی کا کچھ بھی ہم پر باقی نہیں ۔
  ٭’’ تم نے مال سے بڑی جم کر محبت کی ہوگی‘‘یہ ہے اس سلسلے کی آخری وجہِ تنزل۔ یعنی مال سے جم کر دیوانہ وارمحبت کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے بخل کیا ہوگا یا مال کے کم ہوجانے کے خوف سے نیک کاموں سے ہاتھ روک لئے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جو بھی مال انسان خرچ کرتا ہے وہ دراصل خرچ نہیں ہوتابلکہ توشۂ آخرت زادِ راہِ عقبیٰ بن جاتا ہے۔ اصل میں آدمی اُس مال داری و دولت مندی کا اندازہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو آخرت میں عطا ہونے والی ہے جہاں اُسے نہ ختم ہونے والا سرمایہ عطا ہونے والا ہے۔
یہ ہیں اصلی وجوہ معاشی تنزل کی۔ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ واقعتا معاشی اعتبار سے کمزور اقوام کے ہاں یتیموں، مسکینوںکی چارہ گری کا کوئی نظم نہیں ملے گا۔ خودہمارے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں ہم یتیموں، مسکینوں اور بے یار و مدد گار لوگوں کی آبادیوں کی آبادیوں کوفٹ پاتھ اور جھونپڑ بستیوں پر نہایت بے تکریمی کے ساتھ زندگی گزارتے دیکھتے ہیںلیکن پھر بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم معاشی اعتبار سے نہایت ہی اعلیٰ درجے کے لوگ ہیںاور اچانک کسی خوبصورت صبح اخبار میں یہ دیکھتے ہیں کہ ملک کاInflation rate گیارہ فی صد تک پہنچ گیا ہے (یا پہنچا دیا گیا ہے) تو حکومتوں کو گرانے کی مہم چلاتے ہیں اوراسی کو علاج سمجھ بیٹھتے ہیں۔ انفرادی سطح پر کچھ نہیں ہوتا، نہ اِس جانب اِن کا دھیان ہی جاتا ہے۔اِسی طرح Real Estateکے میدانوں میں جو لوگ سرگرمِ عمل ہیں وہ جانتے ہیں کہ کس طرح غریب عوام کی زمینوں پر دولت کے پجاری قبضہ جما لیتے ہیں۔ خود حکومت کے وہ ادارے جوتعمیرات کے ذمہ دار ہوتے ہیں، انفرا اسٹرکچر کھڑا کرنے کے نام پرکسانوں کے کھیت کھلیانوں کو کوڑیوں کے مول ہڑپنے سے دریغ نہیں کرتے حالانکہ ان کی زمینات کا جو مارکٹ ویلوہوتا ہے اُس کی انہیں کوئی پروانہیں ہوتی۔ ان کے ہاں لینے کے پیمانے اور ہوتے ہیں اور دینے کے پیمانے اور یعنی بیچتے ہیں تو سونے کے بھائو میں بیچتے ہیں اور خریدتے ہیں تو نہایت ہی گھٹیا قیمت پر،پھر مال سے جو محبت موجودہ معاشرے میں سرائیت کر گئی ہے، اُسے معاشی تنزل کی وجہ نہ گردانا جائے تو ضرور ایک دن وہ آئے گا کہ ایک ہم کیا، امریکہ جیسے ملک کو محبتِ مال کا کیڑا آہستہ آہستہ چاٹتا رہ جائے گااور شاید اُس دن آنکھ بھی نہیں کھلے گی جس دن یہ اقوام اور ممالک اپنی بقا کا رونا روتے روتے دنیا سے نیست و نابود ہو جائیں گے، ان کی معیشت کو Collapseہونے سے کوئی بچا سکے گا۔
بڑا عجیب معاملہ ہے حضرتِ انسان کا کہ وہ رب کی نوازشوں کو لوازماتِ آزمائش سمجھنے کے بجائے اپنے لئے Creditسمجھ بیٹھتا ہے اورڈینگیں مارنے لگتا ہے کہ جب رب نے نوازا ہے، عزت بڑھادی ہے، میرا اکرام کیا ہے اور مجھے اعلیٰ مناصب عطا کیے ہیں تو اس کی وجہ یہی تو ہے کہ میں اس کا مستحق تھاورنہ کیا مجال کہ کوئی اور میرے مقام تک پہنچ پائے !رب تعالیٰ نے نوازشوں کے درمیان ایک بندۂ مومن کے احسن طرزِ عمل کا تعارف کرانے کے لئے حضرت سلیمان علیہ السلام کی ایک نہایت ہی عمدہ مثال ہمارے سامنے پیش کر دی ہے کہ کس طرح بے پناہ قوتوں اور اختیارات کے مالک ایک سربراہِ مملکت نے اپنے رب کی عنایات کو اسبابِ آزمائش سمجھتے ہوئے زندگی گزاری تھی جس کی مملکت کے سامنے آج کے ہزاروں Super Powersہیچ ہیں۔ خود اللہ تعالیٰ نے اُن کی سلطنت کی عظمت کے بارے میں کہا ہے کہ’’ ایسا زبردست اقتدار اور ایسی پائیدار حکومت روزِ قیامت تک کسی اور فرد یا گروہِ افراد کو نہیں عطا کی جائے گی‘‘ انہوں ؑ نے نوازشاتِ ربانی کے جواب میں جو دعا فرمائی تھی وہ رکارڈ پر ہے اور اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ،حصولِ عبرت کی ضرورت ہے۔ حضرت سلیمانؑ کی دعاکا تذکرہ ہمیںسورۃ النمل کی 40ویں آیت میں ملتا ہے جس کی ترجمانی ہے’’.....(یہ سب سہولتیں،منصب و اقتدار،مال و دولت اور حکومت ،دراصل) میرے رب کافضل ہے ، اس طرح وہ مجھے آزماتاہے،امتحان لیتاہے کہ میں شکر بجا لاتا ہوں،شکر کا رویہ اختیار کرتاہوںیا نا شکری کا اورجو کوئی شکر بجالاتا ہے تو درحقیقت وہ شکر کے ذریعے خود اپنا ہی فائدہ کرتا ہے اور جوکوئی ناشکری کرتا ہے تو بے شک میرے رب کو کسی کے شکر کی ضرورت ہی نہیں، وہ توغنی ،صاحبِ معارج ،بڑے اکرام والا ہے ‘‘
لوگ اِن باتوں کو مذہبی باتوں کے خانوں میں ڈال دیتے ہیںحالانکہ یہ باتیں جو قرآنی تعلیمات سے ماخوذ ہیں،ساری اِنسانیت کے سب سے بڑے مسئلے’’مسئلۂ معاش ‘‘ کو چٹکیوں میں حل کرنے والے ہیں۔ کا ش کہ ہمارے معاشی پنڈتوں تک یہ باتیں کوئی پہنچانے کا بیڑہ اُٹھائے۔ہے کوئی اِس آواز پر لبیک کہنے والا؟
 
 

شیئر: