کم لاگت اور آسان تنصیب و دیکھ بھال کی وجہ سے شمسی توانائی ایک مقبول نعم البدل رہا ہے۔پاکستان کے دور درازعلاقوں میں بجلی کے حصول کا واحد ذریعہ شمسی توانائی ہے، جس سے گھر اور سڑکیں روشن ہیں۔ اس پروجیکٹ کا ماڈل انتہائی سادہ ہے۔تشخیص برائے ضرورت کے سروے کے مطابق دیہات کو منتخب کیا گیا۔ گاﺅں والوں نے 19 کلو واٹ کے چھوٹے گرڈ کی تنصیب کےلئے زمین اور افرادی قوت بھی فراہم کی۔ یہاں ہر گھر میں 2 لائٹس کیلئے کنکشن دیئے گئے ہیں۔ ساتھ ہی گاﺅں کے مرکز اور سڑکوں کےلئے بھی روشنی کے کنکشن دیئے گئے۔ اس پروجیکٹ کی ابتداءپاکستان تخفیف غربت فنڈ نے IET کے ذریعے کی۔ جو لوگ کاروباری غرض سے اضافی کنکشن چاہتے ہیں ان کیلئے علیحدہ میٹر لگایا جاتا ہے اور انہیں استعمال شدہ یونٹ کے حساب سے بل ادا کرنا ہوتا ہے۔ بل جمع کرنے کے نظام کو ”بیرونی ہاتھوں“ میں جانے سے روکنے کےلئے گاﺅں میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کی ذمہ داری بل اکٹھا کرنا ہے۔ گاﺅں میں لوگوں نے شمسی توانائی کی سہولت حاصل کرکے ترقی شروع کردی۔اگر نیشنل ہائی وے پر گھارو سے گزریں ہیں تو آپ کو دھندلے آسمان تلے بجلی کو ترستے گرڈ میں میگا واٹس کا اضافہ کرنے کی کوشش کرتی عظیم الجثہ ہوائی چکیاں دکھائی دیتی ہوں گی لیکن سندھ میں ہائی وے سے تھوڑا دورایک چھوٹے سے گاﺅں اشک جوکھیو کے رہنے والوں کو بجلی کا انتظار نہیں۔ یہ گاﺅں نیشنل گرڈ ٹرانسمیشن لائن سے زیادہ دور نہیں۔ ایک تکنیکی سوجھ بوجھ والے شخص کو گرڈ کی دیکھ بھال، نمی صاف کرنے اور جانوروں کو گرڈ سے دور رکھنے کی تربیت دی گئی۔ کسی قسم کی پیچیدہ خرابی کی صورت میں IET انجینیئر کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ گاﺅں والوں کی زندگی بدل رہی ہے۔ اس کا سب سے واضح نشان نئے تعمیر ہونے والے مکانات ہیں، جنہیں وہی لوگ بنا رہے ہیں، جو بہتر ذریعہ معاش کی تلاش کیلئے اپنا گاﺅں چھوڑ کر کراچی چلے گئے تھے۔ کراچی جانے والے لوگوں کے واپس آنے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ دارالحکومت جانے والے لوگ بجلی کی بلاتعطل فراہمی کی وجہ سے ہی گاﺅں میں واپس آئے اور یہ واپسی ترقی کا واضح نشان ہے۔ اس سے شہری علاقوں سے آبادی کا دباﺅ بھی کم ہوگا۔