اتوار 26نومبر2017ءکو سعودی اخبارات میں شائع ہونے والے اداریئے نذر قارئین ہیں۔
الیوم:
شہزادہ محمد بن سلمان منفرد زبان استعمال کررہے ہیں۔ وہ اکثر سیاستدانوں کی جانب سے استعمال کی جانے والی سیاسی زبان سے مختلف لہجہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اکثر سیاستدان ایسے وعدے کرتے ہیں جو پورے نہیں کرتے۔ اےسے نعرے لگاتے ہیں جو کھوکھلے ہوتے ہیں۔ ایسی باتیں کرتے ہیں جن کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ محمد بن سلمان کی زبان عام سیاستدانوں سے یکسر مختلف ہے۔ اسے سیاستدان بھی سمجھ رہے ہیں اور عام شہری بھی ۔وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ عام شہریوں کے دل، دماغ میں اٹھنے والے خیالات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ وہ مستقبل کی بات کررہے ہیں۔سعودی نوجوان محمد بن سلمان کی باتوں میں دلچسپی بھی لے رہے ہیں اور انکی تائید و حمایت بھی کررہے ہیں۔ محمد بن سلمان وعدوں، امیدوں اور آرزوﺅں کے اظہار کے بجائے ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس بیان بازی کیلئے وقت نہیں۔ ہم گزشتہ 30برس گنوا چکے ہیں۔ مزید 30سال گنوانے کی پوزیشن میں نہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے نیویارک ٹائمز کو جو انٹرویو دیا ہے اسکی صدائے بازگشت پوری دنیا میں سنی گئی۔ عالمی ٹی وی اسٹیشنوں کے خبرناموں کی شہ سرخیاں لگائی گئیں۔ عالمی اخبارات نے نمایاں طور پر انکے انٹرویو کوشائع کیا۔ محمد بن سلمان نے 2ٹوک الفاظ میں نئے سعودی عرب کے نقوش اجا گر کئے۔ انہوں نے تعمیر و ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں سے پوری قوت سے نمٹنے کا عزم ظاہر کیا۔ مشہور امریکی صحافی تھامس بریڈ مین نے جو اپنے مہمانوں کو مشکل میں ڈالنے کیلئے مشہور ہیں، یہ اعتراف کرنے پر محبور ہوئے کہ جو شخص شہزادہ محمد بن سلمان کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں ڈالے گا وہ احمق شمار ہوگا۔ امریکی صحافی نے یہ بھی تسلیم کیا کہ انکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ سعودی عرب جسے وہ کئی عشروں سے جانتے ہیں۔ اس قدر بدل چکا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
الریاض:
علی خامنہ ای کیلئے جو تعبیر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے استعمال کی ہے اس سے زیادہ حقیقت گو تعبیر اور کوئی ہو نہیں سکتی۔ محمد بن سلمان نے انہیں مشر ق وسطیٰ کے نئے ہٹلر کا نام دیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ایران کے مرشد اعلیٰ وہی طور طریقے اپنا رہے ہیں جو گزشتہ صدی کے تیسرے عشرے میں نازیوں کے رہنما ہٹلر نے اختیار کئے تھے۔ عظمت کے جنون نے ہٹلر کو پورے علاقے پر تسلط پر آمادہ کیا تھا۔ اسے یقین ہوگیا تھا کہ عظیم الشان جرمن شہنشاہیت کا احیاءطاقت کے بل پر کیا جاسکتا ہے۔ جرمن شہنشاہیت کو پہلی عالمی جنگ میں شکست کے زہر کا پیالہ پینا پڑا تھا۔ ہٹلر کے طریقہ کار نے یورپ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو بڑی جنگ کے دوزخ کی جانب دھکیل دیا تھا۔ اگر یورپی ممالک اس وقت نازی ازم کا مقابلہ حکمت و فراست سے کرتے تو پوری دنیا کو دوسری عالمی جنگ سے بچایا جاسکتا تھا۔
ایران کے حالات ، وژن اور تصرف ہٹلر کے دور کے جرمنی کے حکمراں ادارے سے بہت ملتا جلتا ہے۔ سعودی عرب خطے میں ولایت فقیہ منصوبے کو دیکھ کر ہی ایران کی حقیقت کو بھانپ لیا تھا۔سعودی عرب نے ایران کے جارحانہ رویہ کا پوری قوت سے مقابلہ کیا۔ بحرین او ریمن کو ایران کے جال میں پھنسنے سے نکالنے کیلئے مداخلت کی۔
1979ءکے دوران خمینی انقلاب کے بعد سے ایران علاقے کے امن و امان کو انقلاب برآمد کرنے کے بہانے سبوتاژ کئے ہوئے ہے۔ خمینی کے پرستار انقلاب برآمد کرنے کے عنوان سے پڑوسی ممالک کے امور میں مداخلت پر مداخلت کئے جارہے ہیں۔ عرب ممالک میں شیعہ فرقے کے نجات دہندہ کے طور پر خود کو متعارف کرا رہے ہیں۔ دعوے کررہے ہیں کہ سنی اکثریت کے معاشرے اپنے یہاں آباد شیعہ اقلیت کو اپنی مرضی کا غلام بنائے ہوئے ہیں۔
خمینی کے پرستارجبر و تشدد اور سیاسی حالات کا شور مچا کر سب لوگوں کو الجھائے ہوئے ہیں۔ کویت پر عراقی لشکر کشی کے بعد سے عرب ممالک ایرانی مداخلت کا ہدف بن چکے ہیں۔ایرانی 2ہدف مقرر کئے ہوئے ہیں۔ پہلا ہدف یہ ہے کہ ایرانی شہنشاہیت کا خواب پورا ہو۔ دوسرا ہدف یہ ہے کہ اگر خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوتاتو عرب پڑوسیوں کو اقتصادی اور سیاسی طور پر کمزو رسے کمزور تر کردیا جائے۔
عرب ایرانی کشمکش کو فرقہ وارانہ کشمکش کا عنوان نہیں دیا جاسکتا ۔ایران ہی ہے جس نے اپنے جارحانہ عمل کے ذریعے عرب ممالک میں فرقہ واریت کو ہوا دی ہے اور اس کے ذریعے وہ اپنا اثر و نفوذ قائم کرنا چاہتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭