اداروں میں بے جا مداخلت کا انجام
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بڑی فلسفیانہ اور فکر انگیز بات کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ آئین پر جزوی نہیں اس کی اصل روح کے مطا بق عمل کر نا سب کی ذمہ داری ہے۔ کوئی فرد اداروں سے بڑا اور کوئی ادارہ ریا ست سے اہم نہیں ۔ انھو ں نے یہ بھی فر مایا کہ آزادی اظہا ر رائے کا سب کو حق ہے لیکن آئین فوج اور عدلیہ پر تنقید سے روکتا ہے یہ دونو ں ادارے کمزور ہوئے توملک کمزور ہو گا ، فوج اپنی توجہ اپنے کام سے نہیں ہٹا سکتی۔ ہما ری ذمہ داری کا کا م ہے اس سے نہیں ہٹ سکتے۔ صورتحال افہام تفہیم سے حل ہو جائے تو بہتر ہے۔ نجی ٹی وی سے ان کی یہ گفتگو تھی ۔عموما ًسننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کبھی کوئی ایسے حالا ت کا ذکر کرتے ہو ئے آخری لفظ بہتر ہے بولتا ہے تو اس کے ساتھ ایک ضمنی ورنہ بھی لگا جا تا ہے مگر اس گفتگو میں یہ ضمنی نظر نہیں آئی تاہم پاک فوج کے ترجما ن نے باتین سب کھری اور فکرانگیز کی ہیں اور اس میں مفاہمت کے پہلو کوبھی اچھی طر ح اجا گر کیا ہے۔ ان کی اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ آئین پر جزوی عمل نہیں اس کی روح کے عین مطابق عمل ہو نا چاہیے ۔
پاکستان کیا دنیا بھر کے ممالک میں جو ادارے قائم ہیں وہ حکومت کا جز و ہیں اور ہر ایک کے یہا ں عمل پیر ا ہو نے کا طر یقہ کا ر وضع ہے ۔ اگر کسی ادارے میں کوئی خلیج حکومت کے موقف سے ہو تی ہے تو اس کا طریقہ کا ر بھی موجود ہے کہ سرکاری سطح پر حکومت سے رابطہ کیا جا ئے جیسا کہ قواعد میں معلو م ہے اس کو بازار اور گلی کوچوں میں نہیں لا نا چاہیے ۔جب بات با زار تک چلی جا تی ہے تو پھر یہ عوامی ملکیت ہو جا تی ہے، سرکا ری حیثیت کھو جا تی ہے چنانچہ عوام کا یہ حق ہے کہ وہ جانے کہ مسئلہ کیا ہے اور مفاہمت کے معاملا ت کیو ں اٹھ رہے ہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جمہو ری ادارو ں کو مضبوط بنائے اور ان ادارو ں میں کوئی بیر ونی مداخلت نہ ہو نے پائے۔ اسی طر ح ادارو ں کا بھی فر ض ہے کہ وہ اپنے آئینی اور قانو نی دائر ہ کا ر میں رہ کر کا م کر یں تبھی ادارے مضبوط ہو سکتے ہیں گویا جس کا کا م اسی کو ساجھے۔ عدلیہ کا کا م ہے کہ وہ عوام کو انصاف فراہم کر ے جس کے لیے اس کا دائر ہ کا ر متعین ہو چکا ہے۔ انصاف کا مطلب قانو نی موشگافیا ں نہیں ، وہ عدل کا عکس ہو نا چاہیے۔
کسی ادارے کو چا ہے اس کو آئینی یا قانو نی تحفظ حاصل ہو یا نہ ہو بے جا یا مذمو م مقاصد کے لیے تنقید کا نشا نہ بنا نا ملک کے استحکام سے کھیلنے کے مترادف ہی ہو تا ہے جس کا مقاصد فتنہ طراز ی ، افراتفری مچانا ہو تا ہے اس لیے کسی بھی ادارے پر ایسے مقاصد کے لیے تنقید کر نا واقعی جر م ہے تاہم مثبت تنقید ادارو ںکو کمزور نہیں کیا کرتی بلکہ ان کی مضبوطی اور استحکا م کا با عث ہو اکرتے ہیں چنانچہ اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہو تا ہے کہ آیا تنقید کس مقصد اور انداز میں کی جارہی ہے ۔
ما ضی کے فوجی آمر ایو ب خان نے اپنے دو ر میں صدر مملکت کو ہر قوم کی تنقید سے استثنیٰ قر ار دیا تھا ، تاہم اس زما نے کی حزب اختلاف ان پر تنقید بلکہ کڑی تنقید کیا کر تی تھی۔ ایک مر تبہ یہ یا د دہانی کر ائی گئی کہ صدر مملکت پر تنقید کر کے قانو ن کی خلا ف ورزی کی جا رہی ہے تو اس کا جواب مولا نا مو دودی ؒ اور نوا بز دہ نصر اللہ خان نے یہ کہہ کر دیا تھا کہ ایو ب خان ایک سیا سی جما عت کے سربراہ اور عہدید ار ہیں اس حساب سے وہ قابل تنقید ہیں ۔
گویا قانو ن وقواعد کو بھی اس کی روح کے مطابق دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ایوب خان ، یحییٰ خان ، ضیا ء الحق اور پر ویز مشر ف نے آئین سے جو غداریا ں کیں ان پر تنقید کیا اس وجہ سے نہیں ہو تی کہ وہ ایسے ادارے کے سربراہ تھے جس پر تنقید کر نا غلط ہے اور وہ آئین کی جا نب سے تفویض کر دہ اپنے اختیا ر کا جس طرح بھی چاہیں استعمال کر یں۔ کیا پر ویز مشرف کوآئین تو ڑ نے کا اختیا ر ملا ہو ا تھا؟ اگر دیکھا جا ئے تو اس نے اپنے ادارے کے ساتھ بھی غداری کی ہے، اس پر تو ادارے کو بھی گرفت کر نا چاہیے اور قانو ن کے حوالے کرنا چاہیے ۔
اگر عوام یہ سوال کر تے ہیں کہ کیا ایک فوجی آمر کو یہ اختیا ر تفویض کیا جا سکتا تھا کہ وہ آئین میں من ما نی ترمیم کرے تو یہ بیجا تنقید کے زمر ے میں نہیں آتی ۔یہ بات قطعی درست ہے کہ پاکستانی اداروں میں بیجا مداخلت کی وجہ سے نقصان ہورہاہے۔ اب وقت ہے کہ ہر ایک کو اپنے دائر ہ کا ر میں آجا نا چاہیے ۔ملک کے کسی ادارے کو چاہے ہ پا رلیمنٹ ہو ،سول حکومت ہو یا کوئی بھی جمہو ری ادارے ہو ں بالخصوص عدلیہ ، فوج ، میڈیا ہو، ان کو کمزور کرنا ملک کے استحکا م کو کمزور کرنا ہے جس کی عوام اجا زت نہیں دے سکتے۔سقوط ڈھاکا کیو ں ہو ا تھا؟ اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ ادارے ایک دوسرے سے الجھ پڑ ے تھے۔ عوام کے منتخب نمائند و ں کو اقتدار منتقل نہیںکیا گیا ۔جب پا کستان میں بیو رو کریسی اسٹیبلشمنٹ گٹھ جو ڑ تھا تو اقتدا ر کا کھیل کس طر ح ہو تا تھا اُسکی داستان محمد علی بو گرا کو وزیر اعظم بنا نے کے واقعہ سے کی جا سکتی ہے۔
گورنر جنرل غلا م محمد سے استعفیٰ کس طرح لیا گیا یہ بھی ایک کہا نی ہے۔ ایک اجلا س میں جس سے غلا م محمد کو بے خبر رکھا گیا تھا یہ فیصلہ کیا گیا کہ گورنر جنرل کے عہد ے سے غلا م محمد کا استعفیٰ لے لیا جائے۔ یہ طے ہو نے کے بعد مسئلہ یہ اٹھا کہ بلی کی گردن میں گھنٹی کون باندھے گا چنا نچہ قرعہ فال مشتا ق گورمانی کے نا م نکلا۔ وہ لرز تے کپکپاتے جا بر حکمر ان کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور کا بینہ کے ایک ایسے اجلا س کی اطلا ع دی جو منعقد ہی نہیں ہو ا تھا اور بتایا کہ کا بینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ گورنر جنرل استعفیٰ دید یں۔
مشتاق گورمانی جو ایک جری قسم کے انسان تھے ،جب واپس منڈلی میں آئے تو منتظر افراد نے استفسار کیا کہ گورنر جنرل نے ان کو حسب عادت گالیا ں دیں اور اپنی لاٹھی سے دھوڈالا جس کے بعد فوج کے سربراہ اور وزیر دفاع جنرل ایو ب خان سے کہا گیا کہ یہ کا م تم ہی انجا م دے سکتے ہو چنا نچہ ایوب خان گورنر جنرل غلا م محمد کے پا س گئے ،تحکما نہ اند از سے ان سے استعفیٰ پر دستخط کا مطالبہ کیا جس پرغلام محمد نے ایو ب خان کی طرف دیکھتے ہوئے رو ہانسی آواز میں کہا’’ تم بھی!‘‘ اورلرز تے ہا تھ سے دستخط کر دئیے۔ اسکے بعد کیا ہوا ...جولوگ غلا م محمد کے سامنے چو ں چراں کی جر أت نہیں کر پا تے تھے، انھو ں نے سکندر مر زا کی گورنر جنرل کے عہد ے پر حلف برداری کے مو قع پر اس بیما ر ولا چا ر کی چارپائی اٹھا کر گورنر ہا ؤس سے دور سمندر کے کنا رے ڈلوادی کہ بادل نخواستہ حلف برداری کے مو قع پر یہ نحیف مریض تقریب میں پہنچ کر فریا د ی نہ بن جائے کہ اس سے بندوق کی نو ک پر استعفیٰ لیا گیا ہے اورتقریب میں اُس وقت غیرملکی سفراء اور اہم شخصیا ت بھی مو جو د ہو ں گی ۔