یمنی باغیوں کی الٹی گنتی شروع ----البلاد کا اداریہ
’’یمنی باغیوں‘‘ اور اور ’’بٹ کوائن ‘‘کے حوالے سے یکم دسمبر 2017ء کو شائع ہونیوالے سعودی اخبارات کے اداریئے کا ترجمہ نذر قارئین ہے
یمنی باغیوں کی الٹی گنتی شروع-البلاد
مسلم فقہاء کا معروف اصول ہے کہ جو چیز باطل بنیاد پر قائم کی جاتی ہے وہ باطل ہی ہوتی ہے۔ حوثی باغیوں اور معزول یمنی صدر علی عبداللہ صالح کے درمیان بدی کا اتحاد قائم ہوا تھا ۔ اس کے پتے بکھرنے لگے ہیں۔ حوثیوں اور علی صالح کے اتحاد کے سقوط کا محرک یمنی عوام سے محبت نہیں بلکہ اثرونفوذ کی کشمکش اور مختلف عنوانوں سے اصول کی جانیوالی رقموں کی تقسیم کا جھگڑا ہے۔ صنعاء میں باغی فریقوں کے درمیان صورتحال دھماکہ خیز ہوچکی ہے۔
معزول علی صالح کی جماعت کے رہنماؤں نے پمفلیٹس تقسیم کرکے ہمنواؤں سے اپیل کی کہ قریہ قریہ قصبے قصبے جاکر جماعت کے حامیوں کو مسلح کریں اور حوثیوں کے شر سے ملک کو نجات دلانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوں ۔علی صالح کی جماعت نے حوثیوں کو جنگ کے تاجر اور وظیفہ خواروں کا نام دیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ حوثیوں اور علی صالح کے درمیان اقتدار کی جنگ صنعاء میں خونریز واقعات کے بعد ایسے پوائنٹ تک پہنچ چکی ہے جس سے واپسی ممکن نہیں رہی۔
حوثی پوری قوت سے علی صالح اور ان کے ہمنواؤں کو صنعا ء اور زیر قبضہ علاقوں سے نکالنے کے درپے ہوگئے ہیں۔سب لوگ جانتے ہیں کہ حوثیوں اور علی صالح کے اتحاد ہی نے یمن کو تباہی و بربادی اور جنگوں کے دوزخ میں دھکیل رکھا ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران یمن انہی کی وجہ سے مصائب کے بھنور میں پھنسا رہا ۔ دونوں کا اتحاد ٹوٹنے جارہا ہے۔نیا منظرنامہ ظاہر کررہا ہے کہ اب دونوں فریق اتحاد برقرار نہیں رکھ سکتے۔ایران علاقائی و بین الاقوامی بڑھتے ہوئے دباؤ کے باعث یمن میں تخریبی کردار جاری رکھنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ دوسری جانب یمن کی آئینی حکومت مختلف محاذوں پر پے درپے پیشرفت حاصل کرتی جارہی ہے۔ یہ ساری تبدیلیاں باغیوں کو یمنی عوام کے خلاف جارحانہ اقدامات بند کرنے اور آئینی حکومت کے خلاف بغاوت کا سلسلہ ترک کرنے پر مجبور کرینگے۔
* * * *
’’بٹ کوائن‘‘اور آن لائن جنوبی سرمایہ کاری-الاقتصادیہ
تقریباً10برس قبل بٹ کوائن نے جنم لیا۔ مقصد آن لائن کاروبار کرنیوالوں کو سہولت فراہم کرنا تھا۔ 1987ء کے دوران پاسورڈ پروٹوکول کو جدید خطوط پر استوار کرنے والے ریاضیات کے ماہر ڈیوڈ شونگ نے بٹ کوائن کا نظریہ دیا تھا۔ 1997ء کے دوران آدم بیک نے اسے آگے بڑھایا ۔2009ء میں آن لائن کرنسی کا تصور مزید آگے بڑھا۔نتیجتاً بٹ کوائن کا پہلا سودا 2009ء میں نافذ کیا گیا۔ ایک بٹ کوائن کو 0.001ڈالر کے مساوی تسلیم کیا گیا۔رفتہ رفتہ یہ کرنسی آن لائن کاروبار کے پلیٹ فارم تک راستہ تیار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس کی حیثیت تجارتی لین دین تک محدود رہی۔وقت نے حقیقی کرنسی ڈالر اور فرضی کرنسی بٹ کوائن کے درمیان رشتے کی پیچیدگی کو اجاگر کیا۔ اب ڈالر اور بٹ کوائن سے کاروبار کیا جائے یا نہ کیا جائے اس حوالے سے بحث و مباحثہ بڑے پیمانے پر شروع ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بٹ کوائن 2011ء کے آخر تک 31ڈالر کے مساوی مان لیا گیاہے۔
کاروبار میں آسانی کی غرض سے سر ابھارنے والی فرضی کرنسی کے طورپر بٹ کوائن مناسب معلوم ہوتا ہے تاہم بینکوں اور اکاؤنٹس کی کارروائی کے تناظر میں اس کے اپنے مسائل ہیں۔
10برس سے کم عرصے کے اندر اندر بٹ کوائن حیرت انگیز حد تک تجارتی لین دین میں استعمال ہوا ہے۔پاسورڈ کی پیچیدگی اور اس کرنسی پر کسی سرکاری ادارے کا کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے بٹ کوائن نومبر 2011کے آخرتک ریکارڈ حدتک دیگر کرنسیوں پر غلبہ حاصل کرچکی ہے۔بٹ کوائن کی قدر میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بٹ کوائن سے ہونیوالی آمدنی اور فوائد بے شمار ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کرنسی کے سہارے پُرخطر مہم جُوآنیوالی معیشت کے قافلہ سالار بن جائیں گے۔
* * * *