سعودی عرب سے پیر 11دسمبر کو شائع ہونے والے شائع ہونے والے عربی اخبار ” الریاض “ کا اداریہ :۔
زریں موقع ۔ الریاض
امریکہ سے عرب وزرائے خارجہ کا یہ مطالبہ کہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا جائے مبنی بر انصاف ہے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں۔ یہ دراصل عربوں او رمسلمانوں کا متفقہ فیصلہ ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ یہ قانونی طور پر بھی درست مطالبہ ہے۔اسکی پابندی واجب ہے۔ اس سے سرمو انحراف درست نہیں۔
جو کچھ ہوا وہ معمولی نہیں۔ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے غاصبانہ قبضہ راسخ ہوگا۔ غاصبانہ قبضے کو قانونی حیثیت حاصل ہوگی۔ کوئی بھی طاقت کسی بھی طاقت کو ایسی کوئی شے دینے کی مجاز نہیں جس کی وہ مالک نہ ہو۔ بیت المقدس کوئی معمولی شہر نہیں۔ یہ تینوں :آسمانی مذاہب کے یہاں محترم شہر ہے۔ اسکی قانونی پوزیشن بین الاقوامی قانون مقرر کئے ہوئے ہے۔ اسکا مشرقی حصہ اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ناجائز قبضہ غاصب طاقت کو کسی بھی حالت میں تصرف کی اجازت نہیں دیتا۔
سوال یہ ہے کہ ہم لوگ امریکی فیصلے کی مذمت ، ناگواری کے اظہار، بیان بازی اور بعض اوقات سیاسی کھیل کے سوا کیا کچھ اور بھی کرسکتے ہیں؟
ہمارا خیال ہے کہ اگر ہم اتنے بڑے بحران کو مناسب طریقے سے سمجھ کر سلجھانے کی کوشش کریں تو کافی کچھ کرسکتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ ہم حقدار ہیں۔ اس میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں۔ ہم اپنے حق کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔ وقت جتنا بھی کیوں نہ لگ جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پوری دنیا ہمارے مطالبے کی تائید کررہی ہے۔ تائید بغیر تحفظات کے کی جارہی ہے۔ سارا جہاں ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ ہمیں اس صورتحال کا مثالی شکل میں فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔
ہم امریکی فیصلے کی منسوخی یا کم از کم اس پر نظر ثانی کیلئے مطلوب جملہ وسائل کے مالک ہیں۔ یہ درست ہے کہ امریکی فیصلے پر فوری عمل درآمد ممکن نہیں ہے تاہم اس فیصلے نے دنیا بھر میں عربوںاور مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکایا ہے۔ اتنا ہی نہیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک نے بھی اس پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ چونکہ پوری دنیا ہمارے ساتھ ہے لہذا ہمیں اس صورتحال سے مثالی فائدہ اٹھانا ہے او راپنے مکمل حقوق کی بازیابی کیلئے مہیا زریں موقع کو گنوانے سے گریز کرناہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭