فہد الاحمدی ۔ الریاض
القدس کو امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان سے قبل میں نے ایک رپورٹ پڑھی تھی عنوان تھا ”60ہزار ذہنی معالج کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ خطرناک عقلی مرض میں مبتلا ہیں“۔
شرو ع میں اس خبر پر میں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ وجہ یہ تھی کہ ایک چوتھائی امریکی مختلف ذہنی امراض کے شکار ہیں۔ (واشنگٹن پوسٹ 7جون 2005ئ)لہذا اگر ان میں سے 50لوگ وائٹ ہاﺅس میں داخل ہوجائیں تو بات فطری ہی لگے گی۔ وائٹ ہاﺅس کے کارندوں کی تعداد200ہے۔
آپ خبر پر حیرت و استعجاب ظاہر کرنے سے قبل ایک بات نوٹ کیجئے اور وہ یہ کہ ماہرین نے امریکی صدر ٹرمپ کے لئے ذہنی مرض کے بجائے عقلی مرض کا لفظ استعمال کیا ہے۔ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ ذہنی مرض عارضی حالت ہوتی ہے اس سے بیشتر لوگ گزرتے ہیں۔ ہم اور آپ بھی شامل ہیں۔ جہاں تک عقلی مرض کا تعلق ہے تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دماغ کی تشکیل میں کوئی بنیادی گڑبڑ پائی جاتی ہے۔ ایسے شخص کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ بیمار ہے۔ اس تناظر میں امریکی صدر ٹرمپ کی صورتحال کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے امریکی سفارتخانہ القدس منتقل کرنے یا شمالی کوریا کے میزائل حملوں سے متعلق جو کچھ بھی کہا انہیں اپنے کہے کے سنگین نتائج کا ادراک ہی نہیں۔
ٹرمپ کی عقل سے متعلق شکوک و شبہات میری تخلیق نہیں بلکہ ایک ایسے گروپ نے اس کی تاکید کی ہے جسے امریکہ کے مشہور ذہنی معالج جان گیٹنر نے قائم کیا ہے۔اس کے سائبان تلے 60ہزار افراد آچکے ہیں۔ ان سب کا مطالبہ ہے کہ ٹرمپ کو عقلی مرض کی وجہ سے منصب صدارت سے ہٹایا جائے کیونکہ امریکی صدر کی حیثیت سے وہ اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے اہل نہیں۔
بہرحال ٹرمپ قومی رہنما کے فرائض اور جنون سے لطف اٹھانے کی کیفیت کو جمع کرنے والے واحد رہنما نہیں۔ ماضی میں معمر قذافی، علی عبداللہ صالح جیسے رہنما ہمارے یہاں ہوچکے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ صدر ٹرمپ کو عقل کے مرض کی وجہ سے منصب صدارت سے ہٹانے کا مطالبہ کرنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوگا۔ اس حوالے سے انکی رپورٹوں کا تانتا بندھنے لگا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر ٹرمپ کو انکے منصب صدارت سے نہ ہٹایا گیا تو کم از کم انہیں دوبارہ صدر منتخب ہونے سے ضرور باز رکھا جائیگا۔ اس پر ایران، قطر اور شمالی کوریا وغیر ہ ممالک کے دیگر پاگل رہنما سکون کا سانس لیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭